جنگِ دسمبر1971 میں نشر ہونے والے ملّی ترانوں کا تذکرہ
یہ 29 نومبر 1971 کی ڈھاکا میں سرد سہ پہر تھی، بھارت اپنی جارحیت اور روایتی دشمنی کو عیاں کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پہ پِل پڑا تھا، موسم کی رم جھم سے مشرقی پاکستان کے دریائے پدما، میگھنا اور برہم پتر آج مترنم لہروں میں گا رہے تھے، اس مسلط کردہ جنگ میں بھارتی فوج اور غدار مکتی باہنی کے غنڈوں نے ڈھاکا سمیت چٹاگانگ، سلہٹ، کومیلا، جیسور اور میمن سنگھ میں طوفانِ بدتمیزی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا تھا، مگر مُلک کے مشرقی حصے میں ابھی پاکستانیت زندہ تھی اسی لیے آج ڈھاکا کے محّبِ وطن پاکستانیوں نے پاک فوج، مسلم لیگ اوراسلامی چھاترو شنگھوکے ساتھ مل کر ایک عظیم الشان جلوس کا اہتمام کیا تھا جو اب اختتام کی جانب گامزن تھا، آج ڈھاکا میں حب الوطنی کی عجیب مئے سرشاری تھی' دولاکھ سے زائد افراد سبز ہلالی پرچم تھامے سڑکوں پر جمع تھے ۔اسی دوران مسجدوں کے شہر ڈھاکا کی فضائیں ''اللہ اکبر'' سے گونجنے لگیں جس کے بعد ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے خبریں نشر ہوتی ہیں کہ کمال پور اور کومیلا میں پاک فوج نے بھارت کے ایک پورے بریگیڈ کا حملہ پسپا کردیا ہے، سامعین کے دل اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے،خبریں ختم ہوئیں تو ریڈیو پاکستان کی صوتی لہروں کے ذریعے ریڈیو پاکستان کراچی کا تیار کردہ ترانہ گونجا :
''سلام اے ڈھاکا و چاٹگام کے غازی نگہبانو!
سلام اے سلہٹ و جیسور کی مضبوط دیوارو!''
یہ سنتے ہی عوام میں ایک نیا جوش ابھر آیا، بشیر احمد اور ساتھیوں کی آوازوں میں یہ ترانہ ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ احمد رشدی مرحوم کی آواز میں اللہ تعالیٰ کے حضور ایک اور مناجاتی جنگی ترانہ نشر ہوتا ہے:
''اے خدائے ذوالجلال! تیرے حکم سے ترے شہید لازوال''
شاعر ضیا جالندھری کے الفاظ کے ساتھ ساتھ گلوکار کی آواز میں ایک درد ہے، سوز ہے اور عزم بھی۔۔۔ اسی لیے ہر لفظ سامعین کے دل میں اترتا گیا۔ ریڈیو پاکستان کراچی ' لاہور اور ڈھاکا سے نشر ہونے والے ملّی ترانے مشرقی پاکستان کے مختلف محاذوں پر ڈٹے ہوئے فوجی بھائیوں کو بتارہے تھے کہ قوم کے فنکار ایک بار پھر اپنی غیور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔
منظر ایوبی کے الفاظ اور نسیمہ شاہی ' ایس بی جون ا ور ساتھیوں کی آوازوں میں جہاں کو بتارہا تھا :
'' ہاں سلامت رہیں میرے شہہ زور … تجھ کو کوئی خطر نہیں جیسور ''
اسی طرح تابش دہلوی نے بھی اپنا قلم نذرِ مشرقی پاکستان اس طرح کیا کہ :
''جیسور کے جیالو! ڈھاکا کے رہنے والو!
رکھے گی یاد دنیا تم جس طرح لڑے ہو
میدانِ جنگ میں تم جس شان سے بڑھے ہو
ہر جیت ہے تمہاری اپنے قدم جمالو ''
5نومبر کو بھارتی ریڈیو آکاش وانی نے پاکستان کے خلاف ایک گیت میں ہرزہ سرائی کی تو ریڈیو پاکستان کراچی میں بیٹھے ٹرانسکرپشن سروس کے نگراں سید سلیم گیلانی کو شدید غصہ آیا ، وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور اپنے کمرے میں ٹہلنے لگے ، انھوں نے کچھ پرانے بھارتی گیتوں کے ریکارڈ طلب کیے جو جنگِ ستمبر سے قبل ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں لائبریرین آفتاب ریکارڈ لے آئے تو سلیم گیلانی نے اپنے کمرے ہی میں رکھے گراموفون پر وہ ریکارڈ لگائے اور غور سے سننے لگے اور کاغذ پر کچھ لکھتے رہے۔ اُس کے بعد انھوں نے پروڈیوسر عظیم سرور' مہدی ظہیر اور موسیقار نہال عبداللہ کو بلوایا اور انھیں اپنا پلان بتایا ۔ اُس رات سلیم گیلانی دفتر ہی میں رہے اور اگلے دن دوپہر کے وقت انھوں نے موسیقار نذر جمال کو بلوایا اور کہا '' نذر صاحب ! آپ طرزیں فوراََ بنا لیتے ہیں ' یہ تو بنی بنائی طرزیں ہیں ، آپ انھیں فوراََ مرتب کریں اور مجھے بتائیں … اب بھارت سے بات اُسی کی زبان میں کرنی ہوگی ۔''
نذر جمال نے فوراََ یہ ذمہ داری قبول کی اور سٹوڈیو چلے گئے ۔ رات تک چار پانچ گانوں کی طرزیں بن چکی تھیں اسی لیے سلیم گیلانی نے فنکاروں کا انتخاب کرنا بھی شروع کردیا ۔ جس کے لیے شہناز بیگم کو انھوں نے فوراََ ہی منتخب کرلیا تھا ۔ شہناز بیگم نے یہ نغمات نہایت پرجوش انداز میں گائے تو فوراََ ریکارڈ کرلیے گئے جو دراصل بھارتی گانوں کی پیروڈی تھیں جن میں سلیم گیلانی نے بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اور بھارتی آرمی چیف سین مانک شا کے تصوراتی مکالمے بھی شامل کیے کیونکہ جنرل سین مانک شا لڑنے سے کترارہا تھا کہ اس طرح حملہ کرنا کوئی بہادری نہیں ہوتی۔ شہناز بیگم کی آواز میں تین پیروڈی نغمات یہ تھے
٭ میرا سُندر سپنا ٹوٹ گیا ، میں جیتی بازی ہارگئی
٭ وہ جنتا کہاں سے لاؤں اور کس کس کو لڑواؤں
٭ ہم ایسے دیش کے نیتا ہیں ، جس دیش میں گنگا بہتی ہے ( احمد رشدی کے ساتھ )
اسی طرح شہناز بیگم نے دورانِ جنگ کاؤنٹر پراپیگنڈا نغمات بھی ریکارڈ کروائے جنھیں سلیم گیلانی نے ہی تحریر کیا تھا، جن میں '' گیدڑ بھپکی کیا دیتے ہو، رن میں اتر کر دیکھو آج ' سیدھی بات کرو مہاراج '' بے حد مقبول ہوا ۔
جیسور ' کھلنا اور کمال پور سیکٹر میں گھمسان کی جنگ جاری تھی ، پاکستان کے مٹھی بھر فوجی اور رضا کار غداروں اور بھارتی فوج سے مدمقابل تھے ۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان کراچی سے الطاف پرواز کا تحریر کردہ نغمہ نشر ہوتا ہے :
'' ہلچل ہے بحر و بر میں کہ فوجِ خدا چلی
ہم بڑھ رہے ہیں نعرہ لگا کے علی علی ''
جسے ریڈیو پاکستان پر نذر جمال کی موسیقی میں نسیمہ شاہین' سلامت علی اور ساتھیوں نے گایا تھا ۔کمال پور سیکٹرمیں بھی پاک فوج کی لازوال داستانِ شجاعت ہے جہاں پاک فوج کے صرف ایک یونٹ نے بھارت کے پورے بریگیڈ کو روکے رکھا اور بھارت کے طاقتور ٹینک ان کی ہمتوں کے آگے پورس کے ہاتھی ثابت ہوتے رہے ۔ میجر ضمیر جعفری ( ر) مرحوم نے کمال پور کے نام اپنی نظم '' کمال پور کا دلیر دستہ '' تحریر کی ۔یہ نظم جنگِ دسمبر کے نغمات میں ایک مقبول نظم تھی جس میں پاک فوج کو شاندار خراجِ تحسین پیش کرکے نسلِ آئندہ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ جنگ ہم ہارے نہیں تھے :
'' ہمیشہ روشن ہمیشہ زندہ …کمال پور کا دلیر دستہ
وہ شیر لشکر کا شیر دستہ
عدو کے بریگیڈ کے مقابل وہ کچھ سجیلے جری جیالے
وہ روشنی کے اٹل ارادے ' وہ زندگی کے اَن مٹ اجالے
متاعِ ایمان کے ذخیرے ، ثبات و ایمان کے جزیرے
وطن کی خاطر ہتھیلیوں پر' سروں کی مشعل جلانے والے ''
اس نظم کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا '' ضمیر کی یہ نظم محاذ اور بے سرو سامانی کو سامنے رکھتے ہوئے دل سے پڑھی یا سنی جائے تو اُن مجاہدوں کے لیے بے اختیار آنسو امڈ آئیں۔ '' ضمیر جعفری کا تحریر کردہ یہ نغمہ کراچی ریڈیو پر نسیمہ شاہین ' ظفر علی اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا تھا ۔
مشرقی پاکستان میں ہلّی بوگرہ سیکٹربھی ایک محاذ ِ کامران تھا جہاں میجرمحمد اکرم اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ اندرونی اور بیرونی دشمن سے نبرد آزما تھے۔ اس محاذ پر22 نومبر سے5 دسمبر تک گھمسان کا رن پڑا ۔ پاک فوج کی صرف ایک کمپنی تھی جس کے پچاس جوان جن میں رضا کار بھی شامل تھے، بھارتی ٹینکوں کے آگے سینہ سپر تھے ۔ 4 دسمبر کو میجر محمد اکرم اور اُن کے ساتھیوں کے پاس خوراک بھی ختم ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجودمیجر محمد اکرم اور اُن کی کمپنی جو صرف42 جوانوں پر مشتمل تھی' نے ہلّی بوگرہ سیکٹر میں بھارت کے 540 سپاہیوں کو جہنم واصل کیا تو قوم میں ایک نئی جان آئی۔ اسی لیے منظور حسین جھلانے ایک شاندار ترانہ نذرِ افواجِ پاکستان کیا جس کے بول کچھ یوں تھے :
'' غازی اُتّے کرم نبیۖدا ' رب دے رنگ نیارے نیں
ساڈے صرف بِتالی شیراں پنج سو چالی مارے نیں ''
اس نغمہ کو ریڈیو پاکستان لاہور پر عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے نہایت جوشیلے انداز میں گایا
……٭٭……
بھارت کے حملے کا جواب ابھی زور و شور سے جاری تھا کہ صبح تقریباََ 11 بجے شاعر نصیر ترابی ریڈیو پاکستان کراچی کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی احمد رشدی اُن کا ہاتھ تھام کر کینٹین لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے ترانہ لکھ دیں، نصیر ترابی جو کچھ دن قبل ہی ڈھاکا سے آئے تھے اُن کی آنکھوں میں تمام مناظر اور بھارتی جارحیت تازہ تھی چنانچہ وہ وہیں بیٹھے مکھڑا لکھتے ہیں کہ ''میری سرحد کو میرا لہو چاہیے میرے کھیتوں کو میری نمو چاہیے۔'' ترابی صاحب نے ترانہ لکھ دیا تو احمد رشدی کاغذ تھامے سیدھا سٹوڈیو گئے اور خود بھی طرز پر محنت کرنے لگے یہاں تک کہ سلیم گیلانی کی پیشکش میں اُسی دن یہ عزمیہ ورزمیہ ترانہ تقریباََ سہ پہر 4 بجے مکمل ہوگیا جو ساڑھے پانچ بجے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں نشر ہونے کے لیے تیار تھا۔
4دسمبر کو باضابطہ حملے کے بعد سب سے پہلے تاج ملتانی اور سلامت علی نے آواز کا مورچہ سنبھالا اور پہلا ترانہ نذرِ وطن کیا جس کے بول کچھ یوں تھے :
'' اے دشمنِ عیار! کس قومِ سرافراز کو للکا ررہا ہے
کس مُلک کی سرحد کی طرف ہے تیری پرواز ''
اس کے بعد تاج ملتانی نے دورانِ جنگ بے شمار ملّی ترانے گائے جن میں منظر ایوبی کا تحریر کردہ نغمہ '' پرچم دعاؤں کا بھی نشانوں کے ساتھ ہے ' ملّت تمام اپنے جوانوں کے ساتھ ہے '' روزانہ ریڈیو پاکستان کے تمام سٹیشنوں سے نشر ہوتا تھا ۔
5 دسمبر1971 ء کو ریڈیو پاکستان کراچی پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں بھی بھارت کو اپنی آواز سے للکارنے آگئے اور انھوں نے اُسی دن موج لکھنوی کا تحریر کردہ نغمہ '' میں مُغنّی ہوں سُر ہیں میرا سرمایہ … اب میں چھیڑوں گا اپنے جوش سے سرگم '' اپنی ہی مرتب کردہ موسیقی میں ریکارڈ کروایا جو جنگ کے اختتام تک روزانہ ریڈیو کی پہلی مجلس میں سب سے پہلے نشر ہوتا تھا ۔اسی طرح شہنشاہِ غزل نے مشرقی پاکستان کے جانباز مجاہدوں کے نام ساقی جاوید کا تحریر کردہ ایک پرجوش نغمہ بھی گایا جس کے بول کچھ یوں تھے :
'' وطنِ پاک جانباز سپاہی تو نے' وطنِ پاک کی حفاظت کی ہے
تُو نے جیسور کی گلیوں کو دیا اپنا لہو 'تو نے ڈھاکہ کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ''
ان کے علاوہ شہنشاہِ غزل نے دورانِ جنگ یہ ملّی ترانے گاکر قومی فرض ادا کیا :
٭ کافر سے جنگ ہو تو مسلمان ایک ہے ( شاعر : سلیم گیلانی )
٭ ہم حیدری ہیں ہم میں زورِ غضنفری ' مولا علی نے ہم کو سکھائی ہے صفدری (شاعر : سلیم گیلانی ، ایس بی جون اور ساتھیوں کے ساتھ )
٭ میری دعائیں ساتھ ہیں جہاں جہاں بھی جاؤ گے ( شاعر : محشر بدایونی ، موسیقی : غلام قادر )
٭ اب سرزمینِ ہند پہ آکے کھڑے ہیں ہم ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : غلام قادر خان )
مشرقی پاکستان سے آئی ہوئی فنکارہ منّی بیگم نے بھی اسد محمد خاں کا تحریر کردہ نغمہ '' موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے '' بھی دورانِ جنگ ہی ریکارڈ کروایا جسے بعد میں شہناز بیگم نے سہیل رعنا کی طرز پر پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے گاکر امر کردیا تھا ۔
………………٭٭٭………………
5 دسمبر1971 کو ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک ہلچل مچی تھی ، ایک طرف ہنگامی خبریں تو دوسری طرف ریڈیو پاکستان سے خصوصی نشریات کی تیاریوں کا شور … جبکہ ریڈیو کا عملہ ابھی ایک فنکارہ کے آنے کا منتظر تھا اسی لیے سٹوڈیوز میں تمام ہی سازندے بیٹھے اُن کا انتظارر کررہے تھے ۔
دوپہر کو وہ فنکارہ ریڈیو پاکستان کراچی چلی آئیں تو عملے نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اورسٹوڈیو میں شور مچا کہ ملکۂ ترنم نورجہاں ترانے ریکارڈ کروانے آگئی ہیں !!
نورجہاں نے سید سلیم گیلانی سے مختصر بات کی اور اُن سے منتخب ترانے لے لیے اور سٹوڈیو آگئیں ۔ جہاں استاد نذر حسین نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا ۔ اُس دن نورجہاں نے ریڈیو پاکستان میں بیٹھ کر ایک ساتھ چھ ترانوں کی ریہرسل کیں اور اگلے دن انھوں نے وہ نغمات ایک ساتھ ہی ریکارڈ کروادیئے'جن کی تفصیلات کچھ یوں ہیں :
٭ پھر شیرخدا جاگے پھر وقتِ جہاد آیا ( شاعر : ساقی جاوید ، موسیقی نذر حسین )
٭ میدان تمہارے ہاتھ رہے اللہ کی رحمت ساتھ رہے ( شاعر : حفیظ ہشیارپوری، موسیقی نذر حسین )
٭ اے شیر دل جوانو ! ہم ساتھ ہیں تمہارے ( شاعر : جون ایلیا ، موسیقی : نذر حسین )
٭ صورت بھی خوب ہے سیرت بھی نیک ' میرا سپاہی ہے لاکھوں میں ایک (شاعر : حمید نسیم ، موسیقی : نذر حسین )
٭ اے سوہنا سانوں پیارا نی' ایہہ دیس دی اکھ دا تارہ نی ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : نذر حسین )
٭ وہ فنکار نہیں جس کو اپنے وطن سے پیار نہیں ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : نذر حسین )
( اس طرح یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں نے جنگِ ستمبر 1965کی طرح جنگِ دسمبر1971 میں حصہ نہیں لیا تھا )
………………٭٭٭………………
ریڈیو پاکستان کراچی کی طرح ریڈیو پاکستان لاہور نے بھی شاندار اور پرجوش قومی نغمات تخلیق کیے جہاں سب سے پہلے عنایت حسین بھٹی نے آواز کا محاذ سنبھالا تھا اور سب سے پہلے شوکت علی کے ساتھ مل کر '' جھوٹ بولیے نی جھوٹیے آکاش وانی '' جیسا نغمہ گایا ۔ پھر عنایت حسین بھٹی نے دورانِ جنگ چار نغمات گاکر بھارت کو للکارا تو شوکت علی نے گھرج دار آواز سے دشمن پر صوتی بم برسائے ۔عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں اختر کاشمیری کا لکھا ہوا ترانہ '' رکھ جگراتے ہو جا ہن تگڑا ' مٹ جائے کفر دا جھڑا … بھلا جی ہن دھر رگڑا '' اس جنگ کا ایک مشہور ترانہ ثابت ہوا جس کی گونج آج بھی برقرار ہے۔
منیر حسین اور ساتھیوں نے ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم کا تحریرکردہ نغمہ '' تم ایک بھی سو پہ بھاری ہو '' اور اشفاق احمدکا قلمی شاہکار '' دشمن اج للکاریا ساڈے دیس دے جاںنثارا نوں '' بھی نذرِ عوام و افواجِ پاکستان کیا ۔
جنگِ ستمبر میں اپنی آواز سے قوم کو بیدار کرنے والے مسعود رانا بھی ا س جنگ میں کسی سے پیچھے نہ رہے اور انھوں نے بھی نغماتِ وطن گاکر اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالا جن کی تفصیل یہ ہے :
٭ قوم کے پیارے محافظ تجھے ہو میرا سلام ( شاعر : خواجہ پرویز ، موسیقار : تصدق علی خان )
٭ اے قوم کے مجاہدو ! اے غازیو ! بہادرو ! ( معہ اداکار ندیم ، شاعر : خواجہ پرویز، موسیقار : تصدق علی خان )
٭ پاکستان آبادرہے گا ( شاعر : ناصر کاظمی ، موسیقار : خلیل احمد، پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز )
اس جنگ میں بھی جنگِ ستمبر کی طرح بے شمارقومی نغمات ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہوئے جو ہمارے قومی نغمات کی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے قومی فنکاروں نے ہمیشہ اپنے وطن کی آواز پر لبیک کہہ کر اپنا فن نذرِ وطن کیا ۔ ||
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]
تبصرے