ایس بی جون جن کا اصل نام سنی بنجمن جون تھا 1932 کو کراچی میں پیدا ہوئے، خاندانی طور پر ان کا تعلق گوا کے مسیحی گھرانے سے تھا جو ایک عرصے سے کراچی میں مقیم تھے ۔ ایس بی جون کو گلوکاری کا بچپن ہی سے شوق تھا اسی لیے وہ مشنری سکول میں تعلیم کے دوران ہی چرچ میں مذہبی گیت بھی گاتے تھے ۔ ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انھیں ایک مقامی ہندو استاد کے پاس بٹھادیا جہاں سے ایس بی جون نے موسیقی اور گلوکاری کے رموز سیکھے ۔ قیامِ پاکستان کے وقت ایس بی جون تحریکِ پاکستان ہی کے حامی تھے کیونکہ مسیحی برادری نے نام نہاد سیکولر بھارت میں رہنے کے بجائے اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ایس بی جون نے چرچ مشن سکول کی طرف سے کوائر میں ایک قومی نغمہ بھی گایا تاہم ایس بی جون کی منزل ابھی نہیں آئی تھی ۔
20 مئی 1950 کو ایس بی جون ریڈیو پاکستان کراچی پہنچے جہاں مہدی ظہیر نے اُن کا آڈیشن لے کر پاس کیا اور اسی دن انھوں نے ایک غزل بھی گائی۔ اس طرح اب ایس بی جون مستند فنکاروں میں شمار ہونے کی قطار میں لگ چکے تھے ۔ اسی سال انھوں نے 13 اگست1950 کو قومی نغمہ گایا تو وہ پاکستان کے پہلے مسیحی گلوکار بن گئے جنھوں نے پاکستان کے نام نغمۂ وطن گایا ہو ، اس اعزاز کا علم ایس بی جون کو بھی بعد میں ہوا جب راقم الحروف نے قومی نغمات پر تحقیق کے بعد ان کا یہ منفرد اعزاز انھیں بتایا تھا ۔
جنگِ ستمبر سے قبل ایس بی جون کا شمار قومی نغمات کے حوالے سے مقبول گلوکاروں میں ہوچکا تھا اسی لیے 6 ستمبر1965 کو جنگ کا طبل بجا تو آواز کے مورچہ سنبھالنے والے دیگر فنکاروں کے ساتھ ایس بی جون بھی ریڈیو پاکستان پہنچ گئے ۔ وہ کراچی ریڈیو پر آواز کا محاذ سنبھالنے والے پہلے مسیحی گلوکار تھے جبکہ ریڈیو پاکستان لاہور پر یہی محاذ سب سے پہلے سلیم رضا نے سنبھالا تھا ۔ ایس بی جون نے جنگ کے دوسرے ہی دن تاج ملتانی اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر اختر شیرانی کا کلام '' اٹھ ساقی اٹھ تلوار اٹھا '' ریکارڈ کروایا ، اس کے بعد انھوں نے احسان دانش کا تحریر کردہ پرجوش جنگی ترانہ ''مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو '' بھی کورس کے انداز میں گایا ۔ مگر ان کا پہلامقبول ترانہ سیف الدین سیف کی تحریرکردہ نظم بعنوان '' الحماسہ '' تھی جس کایہ شعر آج بھی مقبول ہے :
'' اے وطن تو نے پکارا تو لہوکھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں''
جنگِ ستمبر کے پہلے ہفتے ایس بی جون گھر ہی نہیں گئے بلکہ انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی کو ہی اپنا ٹھکانا بنایا ہوا تھا۔ انھوں نے امید فاضلی کا تحریر کردہ نغمہ '' ہم اپنے رہبر کے یقیں کا نشان ہیں … آگے بڑھیں تو موج رکیں تو چٹان ہیں '' ریکارڈ کروایا ۔ یہ نغمہ نشر ہوتے ہی مقبول ہوگیا ۔ اس نغمے میں ایس بی جون نے اپنی پرجوش آواز میں بھارت کو للکارتے ہوئے کہا تھا
'' ہم امن کے سفیر وفا کا جمال ہیں
لیکن بوقتِ جنگ خدا کا جلال ہیں
تقدیسِ ارض پاک کے ہم رازدان ہیں
ہم کو اجل بھی دیتی ہے نذرانۂ حیات
ہم غزنوی کا روپ ہیں اے ارضِ سومنات
جو بت کدوں میں گونجی ہیں ہم وہ اذان ہیں
آگے بڑھیں تو موج رکیں تو چٹان ہیں ''
اس نغمے پر بعد از جنگ ایس بی جون کو تمغۂ خدمت سے بھی نوازا گیا ۔ ایس بی جون نے جنگ کے دوران ہی شاد امرتسری کا تحریر کردہ نغمہ '' ہم سے وطن کی شان رہے'' بھی گایا تھا، اسی طرح انھوں نے کورس کے ساتھ مل کر یوسف ظفر کا تحریر کردہ ملی نغمہ '' یہ دیس میرا دیس '' بھی گایا تو اُس نغمے کو ایک عجیب اتفاقی اعزاز حاصل ہوگیا ، وہ یہ کہ یہی نغمہ لاہور ریڈیو پر سلیم رضا اور ساتھیوں نے گایا اور جب پاکستان ٹیلی ویژن پر اسے نئی طرز سے ہم آہنگ کیا گیا تو اسے اے نیر نے گایا اس طرح ایک نغمے کو جب بھی مختلف طرزوں میں گایا گیا تو ہمیشہ ہی یہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے گلوکار ہی کے حصے میں آیا …!!
جنگِ ستمبر کے آخری دنوں میں ایس بی جون کی آواز میں افضل منہاس کا تحریر کردہ نغمہ ''' میرا نام ہے پاکستان '' بھی نشر ہوگیا جس میں پہلی بار شاعر نے از خود پاکستان بن کر ارضِ پاک کا احساس بتایا ہے اور اس کے ا شعار بھی خوب ہیں کہ
میں دنیا میں زندہ رہوں گا ' ظلمت میں تابندہ رہوں گا
حشر تلک رخشندہ رہوں گا ' سن لو میرا یہ اعلان
میرے مجاہد شیرِ الٰہی ' غازی مرد دلیر سپاہی
کفر کی خاطر ہیںیہ تباہی ' اب نہ رکے گا یہ طوفان
میرا نام ہے پاکستان
اس ترانے نے بھی قومی نغمات کے ضمن میں ایس بی جون کو مقبول قومی گلوکار بنادیا اور جنگ کے بعد اس ترانے کو '' جمہور کے گیت '' میں بھی شامل کیا گیا اور اسے ایس بی جون نے این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ بھی گایا ۔
جنگِ ستمبر میں پاک فضائیہ کے شاہیں صفت جوانوں کے بال و پر بھی کھلے اور انھوں نے شجاعتوں کا نیا باب تحریر کیا ۔ پاک فضائیہ کے اسی کارنامے پر معروف شاعر رئیس امروہوی نے ایک شاندار ترانہ '' فضائیہ کو یہ فتحِ مبیں مبارک ہو '' تحریر کیا جسے ایس بی جون نے انفرادی طور پر ریکارڈ کروایا ۔ اس ترانے پر پاک فضائیہ نے بھی گلوکار کو خصوصی سند سے نوازا کیونکہ یہ پاک فضائیہ کا '' نغمۂ فتح '' بن چکا تھا ۔اسی طرح ایس بی جون نے ادا جعفری کا تحریر کردہ نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جس کے بول یوں تھے :
'' رضائے حق کے لیے سوئے کارزار بڑھے … یقین و عزم کے پیکر ' شہسوار بڑھے ''
17ستمبر کو عاشور کاظمی کا تحریر کردہ نغمہ '' مرحبا عزم و شجاعت کے علم بردارو !'' بھی ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کے تحت ریکارڈ ہوا جسے اقبال علی جیسے گلوکار لیڈ کررہے تھے ، لیکن اس کے کورس میں بھی ایس بی جون اپنی نمایاں آواز کے ساتھ موجود تھے ۔ اسی طرح انھوں نے جون ایلیا کے تحریر کردہ نغمے '' ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں '' میں بھی حصہ لیا ۔ یہ دونوں نغمات جنگ ِ ستمبر کے مقبول ترین نغمات میں شمار ہوتے ہیں ۔
جنگِ ستمبر کے بعد دسمبر1971 میں قوم پر ایک بار پھر آزمائش کا وقت آیا تو اس وقت بھی ایس بی جون کراچی میں مقیم تھے ، وہ خبر سنتے ہی کراچی ریڈیو پہنچ گئے اور انھوں نے پہلے دن ہی نغمہ سرائی شروع کردی ۔ پہلے دن انھوں نے تاج ملتانی کے ساتھ مل کر محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ '' اے دشمنِ عیار … کس قومِ سرفراز کو للکار رہا ہے '' گایا تو یہ جنگِ دسمبر1971 کا پہلا ترانہ بھی ثابت ہوا ۔ ریڈیو پاکستان کے اس صوتی مورچے پر ایس بی جون نے اپنی آواز سے دشمن پر صوتی بم برسائے اور جنگ کے دوران کئی پرجوش ترانے ریکارڈ کروائے ۔ ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کے نگراں سید سلیم گیلانی کا تحریر کردہ نغمہ '' ہم حیدری ہیں ہم میں ہے زورِ غضنفری … مولا علی نے ہم کو سکھائی ہے صفدری '' جسے شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے گایا تھا اُس کے کورس میں بھی ایس بی جون کی آواز نمایاں تھی ۔ اس کے علاوہ اسی جنگ میں ایس بی جون نے انفرادی طور پر محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ بھی گایا جس کے اشعار کچھ یوں تھے :
''کسی کو ہے ناز اپنی تیغِ دو دم پر
کوئی لڑ رہا ہے محاذِ قلم پر
گھر ہو کہ بازار ' دفتر یا خندق
میرا سر ' بلند ہے ہر اک مورچے پر
میری قوم کا ہر جواں ہے سپاہی ''
دورانِ جنگ ہی ایس بی جون نے وطن کے نام ساقی جاوید کا تحریر کردہ وہ نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جو آج اُن کی پہچان اور ملی نغمات کے ضمن میں ان کا حوالہ بن چکا ہے ۔ یہ ایسا استفہامیہ نغمہ ہے جس میں وطن کا ہر فرد اور بالخصوص ایک سپاہی وطن کی مٹی کو گواہ بنا کر پوچھتا ہے کہ
'' اے ارضِ وطن تو ہی بتا تیری صدا پر
کیا ہم نے کبھی فرض سے انکار کیا ہے
اے جانِ وفا تو ہی بتا ترے پیار کے آگے
کیا ہم نے اپنی جاں سے کبھی پیار کیا ہے ''
یہ پرفکر اور پرجوش قومی نغمہ ایس بی جون نے اپنی ہی موسیقی میں تیار کیا تھاا ور یہ جنگِ دسمبر کے بعد بھی ریڈیو سے نشر ہوتا رہا بلکہ1974 میں پہلی اقلیتی کانفرنس منعقد ہوئی تو اُس میں ایس بی جون نے اسے پیش کیا۔ اسی اقلیتی کانفرنس کے موقع پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاکستانی اقلیتی برادری کے لیے بھی ایک قومی نغمہ بنانے کا فیصلہ ہوا جس کا گیت اسلامی سربراہی کانفرنس کی طرح جمیل الدین عالی مرحوم نے ہی تحریر کیا ۔ اس گیت کے موسیقار استاد نذر حسین تھے تاہم گلوکاروں کے لیے تمام اقلیتی گلوکاروں کا انتخاب ہوا تو ایس بی جون اُن میں سرفہرست تھے لہٰذا دیگر فنکار جن میں آئرین پروین ' باربرا مسیح بھی شامل تھیں ۔ نغمہ کچھ یوں تھا :
پاکستان ہمارا … پاکستان ہمارا
نکھرا نکھرا ستھرا ستھرا ' پیارا ایک نظارہ
جھلمل جھلمل جگ مگ جگ مگ سب کی آنکھ کا تارہ
ہندو' پارسی ' بدھ' عیسائی … بھائی بھائی
گرنت صاحب کے شیدائی … بھائی بھائی
ہم سب اس میں بسنے والے 'بھائی بھائی
ہم سب اس کے ہیں رکھوالے' بھائی بھائی
پیار کا ساتھی سنگت ہے یہ پرچم اپنا
اسلامی انصاف کا سایہ پرچم اپنا
اس پرچم کے سائے میں رہتا ہے تاریخ کا دھارا
پاکستان ہمارا … پاکستان ہمارا
ستر کی دہائی کے بعد ایس بی جون اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے ریڈیو پاکستان میں کم ہی گاتے مگر ریڈیو سے اُن کا رشتہ برقرار رہا اور وہ بطورِ موسیقار ریڈیو سے وابستہ رہے اور اس دوران انھوں نے کئی فنکاروں کو تربیت بھی دی ۔1985 میں انھوں نے صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی فرمائش پر ایک بار پھر قومی نغمہ گانے کے لیے ریڈیو پاکستان کا انتخاب کیا اور سینٹرل پروڈکشن ریڈیو پاکستان کراچی پر افضل تحسین کا تحریر کردہ نغمہ '' سب کی عزت سب کی دولت ارضِ پاکستان '' ریکارڈ کروایا جس کی موسیقی پیر بخش نے ترتیب دی تھی ۔
1998میں پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا تو اس موضوع پر بھی نغمات بننا شروع ہوئے ۔ ایس بی جون ایک عرصے بعد قومی نغمے کے لیے پھر ریڈیو کے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں ا ئے اور انھوں نے اپنی مرتب کردہ پرجوش نغمے کی صدا بندی کرائی جس کے الفاظ یہ تھے :
'' یہ شکوہِ ملتِ اسلامیہ کا دور ہے
اس صدی کے جاتے جاتے ایک دھماکا اور ہے
ہر مسلماں ہے امینِ عالم اس لیے
ہر جوابِ دشمن انسانیت فی الفور ہے
ہے جہاد اپنی عبادت ' امن اپنا طور ہے ''
یہ نغمہ جس کا متن ہی جذبۂ اسلامی کا مظہر ہے ایس بی جون نے خود گا کر اور کمپوز کرکے بتا دیا کہ پاکستان میں بسنے والا اقلیتی برادری کاہر فرد خود کو کتنا محفوظ اور اسلام کے اس قلعہ یعنی پاکستان کے لیے کیسے جذبات رکھتا ہے …!! انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا جو ان کی خدمات کا سرکاری اعتراف بھی ہے ۔
بلاشبہ وہ پاکستان کی ایک منفرد آواز تھے جو قومی نغمات کی صورت میں بھی ہماری قومی تاریخ میں زندہ رہیں گے ۔ ||
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]
تبصرے