13 اگست1954 … وہ تاریخ ہے جب ہمارا سرکاری قومی ترانہ ریڈیو کی صوتی امواج سے نشر ہوکر ہر پاکستانی کی سماعتوں سے ٹکرایا تو اس کے ساز اور الفاظ ہر دل میں جاگزیں ہوگئے … قوم کو ایک نیا احساس ملا ' احساس کو ایک نیا جذبہ ملا اور جذبے کو نئی توانائی جو ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے ضروری تھی … یہ قومی ترانہ جسے ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے تحریر کیا تھا اس کی دھن 1949ء میں احمد جی چھاگلہ نے مرتب کی تھی جو مغربی اور مشرقی موسیقی سے بخوبی واقف تھے ۔ تاہم نئی مملکت میں درپیش مسائل کی وجہ سے قومی ترانے کا معاملہ التواء کا شکار رہا ، پھر جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی تاجر عبدالغنی نے اعلان کیا کہ قومی ترانہ فوری طور پر تیار کیا جائے جس کے لیے وہ شاعر اور موسیقار کو اپنی جانب سے پانچ پانچ ہزار روپے اعزازیہ دیں گے۔ اس اعلان کے بعد قومی ترانہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ شیخ محمد اکرام تھے جبکہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں سردار عبدالرب نشتر پیرزادہ عبدالستار 'زیڈ اے بخاری ' جسیم الدین کوی ' پروفیسر چکرورتی ' اے ڈی اظہر اور حفیظ جالندھری شامل تھے ۔
قومی ترانہ ریکارڈ کراتے وقت میں بتا نہیں سکتی کہ کیااحساسات تھے … وہ ملک جس کے لیے ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ، وہ ملک جس کے لیے میرا اکلوتا بھائی قربان ہوا،اسی ملک کے قومی ترانے میں آوازکا شامل ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے ۔ مجھ سے جب اس کے معاوضے کے لیے ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ ای ایم آئی نے کانٹریکٹ سائن کروانا چاہا تو میں نے معاوضہ لینے سے صاف انکار رکردیا ، پھر مجھے دیکھتے ہوئے تمام فنکاروں نے بھی منع کردیا یوں ہم سب نے قومی جوش سے اس ترانے کو پڑھا جو آج دنیا کے بہترین ترانوں میں شمار ہوتا ہے ۔
14اگست 1954ء کو حفیظ جالندھری کا تحریر کردہ قومی ترانہ منظور ہوگیا تو اب اُس کی تیاری ہونے لگی کیونکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے احکامات تھے کہ اس سال یومِ ِ پاکستان پر قومی ترانہ قوم کے لیے تحفہ ہوگا ۔ چنانچہ ریڈیو پاکستان کراچی میں اس پر تیزی سے کام شروع ہوگیا اور اس کے لیے فنکار بھی منتخب کرلیے گئے یہ وہ فنکار تھے جو اب قومی فنکار بننے والے تھے، اسی لیے ہر فنکار ہی اس میں اپنی آواز شامل کروانے کا خواہش مند تھا ۔4 اگست کو ریڈیو پاکستان کراچی میں ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان جناب زیڈ اے بخاری نے حفیظ جالندھری کے تحریر کردہ ترانے کی ٹرانسکرپشن منگوائی تو اسے فنکاروں کو بھی دکھایا گیا اور جس کی آواز موزوں سمجھی گئی اسے منتخب کرلیا گیا ۔ ان میں ایک نوجوان فنکارہ ایسی بھی تھیں جو اردو ادب میں گہری دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ فارسی سے بھی شناسا تھیں ، وہ فنکارہ صرف گلوکارہ ہی نہیں بلکہ ایک علمی گھرانے کی چشم و چراغ بھی تھیں جن کے آباؤ اجداد نے ہندوستان میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کارنامے انجام دیئے۔ ان کے والد دہلی کی صحافتی اور دینی شخصیت تھیں جو قائدِ اعظم محمد علی جناح اوراُن کے مشن یعنی پاکستان کے لیے دل و جان سے حاضر تھے ۔ ان کا علمی مرتبہ یہ تھا کہ دہلی میں خواجہ حسن نظامی اور شاہد احمد دہلوی جیسی معتبر شخصیات ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھیں ۔ وہ قومی فنکارہ جن کا نام قومی نغمات میں مثلِ نجم بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا، وہ نجم آراء ہیں جو الحمدللہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جن کے پاس تحریکِ پاکستان کے ایام سے لیکر ریڈیو پاکستان کے ابتدائی ایام کی یادوں کا ذخیرہ موجود ہے بلکہ انھیں اس وقت ریڈیو پاکستان کے ابتدائی دور کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
ہم نے اُن سے تفصیلی گفتگو کی، جوآپ سب کی نذر ہے۔
ہم کراچی کے علاقے پیپر مارکیٹ ناظم آباد میں واقع اُن کی رہائش گا ہ پر گئے تو انھوں نے ہمارا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا اور '' ہلال '' اور پاک فوج کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اُن کی خدمات کو یاد رکھا ۔ آئیے ملتے ہیں پاکستانی قومی ترانے کی قومی گلوکارہ نجم آراء صاحبہ سے ۔
سوال : ( رسمی کلام کے بعد ) نجم آپا …! ہمیں سب سے پہلے آپ اپنی بابت بتائیے کہ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں اور آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق کہاں سے ہے ؟
جواب : میں 1938ء میں شیخ احسان الحق کے گھر دہلی میں پیدا ہوئی ۔ ہمارا خاندانی تعلق میرٹھ سے ہے جہاں میرے والد کے نانا خان بہادر الٰہی بخش انگریزوں کے دور میں سول انجینیئراورٹھیکیدار تھے ۔ ان کی تعمیرا ت کا معیار دیکھتے ہوئے انگریزوں نے انھیں جنگِ آزادی کے بعد خان بہادر کے لقب سے نوازا ان کے بھائی خان بہادر حافظ عبدالکریم، بھی انگریزوں کے دور میں تعمیرات کے ٹھیکیدار تھے جنھوں نے میرٹھ میں کئی یادگار عمارتوں کے علاوہ وہاں ٹاؤن ہال بھی تعمیر کروایا ۔ میں یہاں یہ واقعہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں جسے نور احمد میرٹھی نے اپنی کتاب ''مشاہیرِ میرٹھ '' میں اور انگریزوں کے سرکاری فارسی گزٹ' ' صحیفۂ زریں '' میں بھی لکھا ہے کہ جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلم دشمنی کا انتقام لیتے ہوئے جامع مسجد دہلی میں نماز پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک حصے کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنادیا تھا جس سے ہند بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ اُس وقت خان بہادر حافظ عبدالکریم جن کے پاس سرکاری ٹھیکے تھے، انگریزوں کی جانب ساڑھے چار لاکھ روپے نکلتے تھے ۔ انھوں نے انگریزوں سے کہہ دیا کہ میرے ساڑھے چار لاکھ روپے (جو اس زمانے میں انتہائی خطیر رقم تھی ) کے بجائے جامع مسجد دہلی کا تقدس بحال کیا جائے …!! ملک پر قابض انگریز جو پہلے ہی دولت کے لالچی تھے، فوراََمان گئے تو حافظ عبدالکریم صاحب نے وہاں نماز بحال کرواتے ہوئے پہلی نمازِ جمعہ خود اپنی امامت میں ادا کروائی ۔ اس وقت اہلِ دہلی نے اُن کی خوب پذیرائی کی اور اُن کے نام کی تختی لگانے کے لیے بھی کہا جس پر حافظ صاحب نے صاف منع کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ کام میں نے مسلمانوں اور اپنی آخرت کے لیے کیا ہے ۔اس طرح ہمارے خانوادے کا نام دہلی میں عزت و احترام سے لیا جانے لگا ۔ میرے دادا دہلی منتقل ہوئے تو میرے والد بھی دہلی آگئے اس طرح ہم میرٹھ سے دہلی کے ہوگئے ۔ میرے والد احسان الحق جو دہلی میں بھیا احسان کے نام سے مشہور تھے، ایک علمی شخصیت تھے جو شاعر اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ جامع مسجد دہلی کے ٹرسٹی بھی تھے۔ ان کی دوستی خواجہ حسن نظامی اور شاہد احمد دہلوی کے ساتھ خوب تھی بلکہ شاہد احمد دہلوی کو ہم شاہد چچا ہی کہتے تھے اور ریڈیو میں بھی لوگ یہی سمجھتے تھے کہ میں ان کی حقیقی بھتیجی ہوں ۔ والد نے بطورِ صحافی دہلی سے اپنے اخبارات بھی جاری کیے جن میں میرٹھ سے '' اسوۂ حسنہ '' جاری کیا، پھر دہلی سے صوفیانہ رسالہ '' وحدت و محبت '' نکالا۔ اس کے بعد شاہدرہ سے '' خوش بخت '' نکالا جس میں انھوں نے پہلی بار '' اردو معمہ '' یعنی پزل شائع کیے جس پر مُلا واحدی جیسے ادیب نے کہا کہ لوگ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ اردو معموں کے موجد بھیا احسان ہیں …!! ۔ اس کے بعد دہلی سے ''دین و دنیا '' نکالاجو قیامِ پاکستان کے وقت تک جاری رہا ۔
سوال : آپ نے پاکستان کا قیام اور اس کی تحریک بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ' آزادی کے ان لمحوں میں ہمیں ان دنوں کی کچھ یادیں ضرور بتائیں ؟
جواب : تحریکِ پاکستان کاآغاز ہوا تو اس وقت میں بہت کم سن تھی مگر مجھے بہت کچھ یاد ہے کیونکہ میرے اکلوتے بھائی عرفان الحق شبلی تحریکِ پاکستان کے پرزور حامی ہونے کے ساتھ ساتھ دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن بھی تھے جو دہلی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں نظمیں پڑھتے تھے ، پھر انھوں نے ملّی نطمیں خود بھی لکھنا شروع کردی تھیں ۔ وہ دہلی سے اتنے مقبول ہوئے کہ انھیں آل انڈیا مسلم لیگ ' مشرقی بنگال نے بھی بلوالیا جہاں وہ نواکھلی میں تھے تو انھیں نظمیں پڑھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ انھیں ایذائیں پہنچائی گئیں اور پھر انھیں اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ آئندہ نظمیں نہیں پڑھیں گے ۔ وہ سخت بیمار ہوکر واپس آئے مگر پاکستان عشق بن کر ان کی رگوں میں دوڑرہا تھا' وہ دہلی آئے تو انھوں نے پھر نظمیں اور جوش سے پڑھیں۔ دہلی جسے مسلمانوں نے ہندوستان کا پایۂ تخت بنایا تھا اب اسی کی گلیوں اور گھروں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا تھا … وہ افراد جو پاکستان کا نام بھی لیتے ان پر زندگی تنگ کردی جاتی …!! میرے اکلوتے بھائی پر انگریز سرکار نے جھوٹا مقدمہ بنا کر اسے تحریکِ پاکستان کے حامی ہونے کی پاداش میں گرفتار کرلیا جس پر مشہور ادیب اور '' ناقابلِ فراموش '' کے مصنف سردار دیوان سنگھ مفتون نے ان کی ضمانت کروائی ۔ بھائی جب واپس گھر آئے تو ان کے جسم پہ تشدد کے نشانات تھے مگر وہ جیسا کہ آپ کو بتایا کہ پاکستان تو ایک عشق تھا اسی لیے بھائی کو دیکھتی تو وہ مسکرا کر کہتے کہ یہ زخم پاکستان کے لیے آئے ہیں اسی لیے میں ذرا بھی باز نہیں آؤں گا کیونکہ پاکستان ہمارا مقصد اور ہماری منزل ہے ۔ پھر جیسے جیسے قیامِ پاکستان کے دن قریب آرہے تھے تو گلیوں میں خون خرابہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اگست 1947ء میں تو واقعتا دہلی میں مسلمانوں کا خون اس طرح بہا جیسے عیدِ قرباں ہو …!! لیکن یہ عید ہی تو تھی جو خون کے ساگر کے پار تھی … ایسی عید جس نے غلامی کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈبودیا اور اس کے لیے بے شمار قربانیاں جو بیان کرنا بھی مشکل اور جو میں صرف دس برس کی عمر میں دیکھ رہی تھی … جبکہ روزانہ امرتسر ' جالندھر اور مشرقی پنجاب و بہار کے دیگر حصوں سے بھی مسلمانوں کی شہادتوں کی خبریں آتی تھیں ۔
سوال : پھر آپ پاکستان کب اور کیسے آئیں ؟
جواب : جیسا کہ آپ کو بتا چکی ہوں کہ پاکستان ہماری رگوں میں دوڑ رہا تھا ، اگست 1947ء کے شروع میں جب ہنگامے اپنے عروج پر تھے تو دہلی میں ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر دہلی کے ایک محلے میں مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ، مسلمان نہتے تھے اسی لیے اُن کا خون بہتا رہا اور سرکاری پولیس سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی ، یہ بات ہمارے محلے میں پتہ چلی تو محلے کے کچھ مسلمان لاٹھیاں اور ڈنڈے لے کر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو گئیجس سے ہندو اور سکھ بلوائی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن پولیس جو مکمل جانبدار تھی اُس نے بجائے بلوائیوں اور مسلمانوں کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے ،مدد کرنے والے مسلمانوں کو ہی گرفتار کرلیا ۔ اس وقت وہ بستی خون کا منظر پیش کررہی تھی، ہتھکڑیاں مظلوموں کے ہاتھ میں تھی جن میں میرا اکلوتابھائی عرفان الحق شبلی بھی شامل تھا ۔ اسے دہلی کی سینٹرل جیل میں لے جایا گیا جہاں اس پر انگریز افسر کے کہنے پر شدید تشدد کیا گیا ۔ وہ بالکل نڈھال ہوچکا تھا لیکن اس کی زبان پر صرف اللہ کی حمد اور پاکستان کے الفاظ تھے ۔ دیوان سنگھ مفتون کو پتہ چلا تو وہ فوراََ وہاں پہنچے اور کہا کہ عرفان الحق، بھائی احسان کا نہیں بلکہ میرا بیٹا ہے، بھائی کو ضمانت پر صرف اس شرط پر رہا کیا گیا کہ آج ہی ملک چھوڑ دے ۔ بھائی جب گھر واپس آیا تو محلے کے ہندوؤں کو پتہ چل چکا تھا کہ شبلی گھر میں آچکا ہے لہٰذا اس گھر کا صفایا کردیا جائے …!! یہ بات کسی طرح خواجہ حسن نظامی کے کانوں تک پہنچ گئی ، وہ سیدھا والد کے پاس آئے اور وہاں سے فوراََ نکل جانے کو کہا ۔ ہم نے جلدی جلدی ضروریات کا سامان باندھا اور ہم نکل کھڑے ہوئے ، بھائی جس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا پاکستان جانے کا سن کر گویا اس میں نئی طاقت آگئی ۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ہم سامان باندھ رہے تھے تو میں نے گراموفون ریکارڈ کا ڈبا بھی اٹھالیا جس پر والدہ نے چھین کر واپس رکھ دیا اور کہا کہ یہاں ہم سب اثاثہ چھوڑے جارہے ہیں اور اس کو دیکھو کہ ریکارڈز کا ڈبا اٹھارہیہے ۔ والد کا نایاب کتب پر مشتمل ایک بڑا کتب خانہ تھا وہ بھی وہیں چھوڑا اور ہم اس گھر سے نکل کر محفوظ جگہ پہنچ گئے ۔ تشدد کی وجہ سے بھائی شدید زخمی تھا اسی لیے ٹرین کا سفر ناممکن تھا چنانچہ ہم نے دہلی سے لاہور جانے والی فلائٹ بک کروائی اور ہم قیامِ پاکستان کے پہلے ہفتے ہی لاہور پہنچ گئے ۔
سوال : پاکستان آکر کیسا محسوس ہورہا تھا ؟ اور پھر قیام کہاں رہا ؟
جواب : ہم لاہور پہنچے تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم اپنے خوابوں کی زمین اور اپنے مقصد کے جہاں یعنی پاکستان پہنچ گئے ہیں … دہلی جو کبھی اسلامی تہذیب کا گہوارا تھا اسے آج چھوڑنا پڑا … دکھ کے ساتھ ساتھ یہ بھی خوشی تھی کہ ہم اسلامی ریاست کے نام پر اہلِ ہجرت میں سے تھے ۔ لاہور میں ہم نے پندرہ دن قیام کیا ۔ ہماری بڑی بہن عارفہ بشریٰ جو شادی کے بعد کراچی آگئی تھیں، ان کے شوہر قمر الاسلام دواؤں کا کاروبار کرتے تھے اور کراچی میں ایچی سن روڈ پر اسٹینڈرڈ میڈیکل سٹور کے نام سے ان کا ایک بڑا میڈیکل سٹور تھا ۔ وہ یہاں گارڈن ایسٹ پر سینٹ لارنس کالج کے سامنے ایک بنگلے میں مقیم تھے تو انھوں نے ہم پورے اہلِ خانہ کو اپنے گھر ہی بلا لیا اور پھر ہم یہیں رہنے لگے ۔ یہ تھا ہمارا دہلی سے کراچی تک کا سفر … اور اب میں کراچی میں ہی مقیم ہوں ۔
سوال : یہاں آئے تو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟
جواب : پاکستان ہماری منزل تھی اور منزل کی راہ میں مشکلات تو آتی ہی ہیں ، مگر ہمارے گھر سمیت کتنے ہی گھروں کے چراغ بجھے تو یہ اجالا ہوا ۔ پاکستان آئے تو انگریزوں اور ہندوؤں کے تشدد کے سبب میرے اکلوتے بھائی کی صحت مسلسل گرتی ہی جارہی تھی ۔ اللہ نے اسے اولاد سے بھی نوازا ۔ پاکستان آنے کے بعد اس کی تکلیف بڑھی ۔ والد نے اسے حیدرآباد بھجوادیا لیکن اس پر کئے گئے تشدد کی وجہ سے اس کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی تھی ، پھر11ستمبر1948ء کو قائدِ اعظم کی وفات کی خبر سنی تو بھائی کو شدید صدمہ پہنچا اور اسے حیدر آباد میں ہی برین ہیمرج ہوگیا ، اسے کراچی لایا گیا تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور18 ستمبر کو بھائی کی وفات ہوگئی ۔ یوں تحریکِ پاکستان میں میرے اکلوتے بھائی کا خون بھی شامل ہے ۔اس کی وفات پر والد نے ایک کتاب '' وداعِ شبلی'' بھی تصنیف کی تھی ۔بھائی کی وفات کے بعد اب سب کچھ والد کے کاندھوں پر تھا ، ادھر میری بہن عارفہ شمسہ بھی تعلیم حاصل کررہی تھیں ، تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم والد کے بازو بنیں گے ۔
سوال : یادوں کی امانت تو یقینا بہت ہے اور یقینا آپ پاکستان کے ابتدائی دور کی بہترین عکاسی کرسکتی ہیں ، مگر قارئین کو یہ بتائیے کہ ریڈیو پاکستان میں بطور فنکار ' وابستگی کیسے ہوئی ؟ کیونکہ گانا تو شاید آپ کے یہاں معیوب سمجھا جاتا ہو ۔
جواب : ( مسکراتے ہوئے ) بالکل ٹھیک کہا … ہمارے یہاں گانا بجانا تو بالکل ہی معیوب سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ مین بچپن ہی سے فلمی گیت گنگناتی تھی ' ہمارے گھر میں گراموفون بھی موجود تھا مگر خود گانا بہرحال اس کا تصور نہیں تھا لیکن مجھے بچپن ہی میںبہت سا کلامِ اقبال اور مسدس حالی تقریباََ یاد ہوگئی تھی ، مسدس حالی جسے '' مدوجزرِ اسلام '' بھی کہا جاتا ہے، دہلی میں ایک متبرک تصنیف سمجھی جاتی تھی اور گھروں میں خواتین محفلِ میلاد وغیرہ میں اسے مختلف طرزوں سے پڑھا کرتی تھیں ، میں نے بھی خود اپنے طور پر اس کی طرزیں بناکر اسے یاد کرنا شروع کردیا ۔ گارڈن ایسٹ کے بنگلے کے قریب میں ملکہ ترنم نورجہاں جو ان دنوں نئی نئی پاکستان آئی تھیں، وہ بھی رہ رہی تھیں ۔ ایک بار انھوں نے مجھے سنا تو میری بہت تعریف کی ۔ مگر ریڈیو آمد کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک دن ہم والد کے دوست اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری صاحب کے گھر گئے ۔ اس وقت میری عمر13برس ہوگی ۔ والد نے ان کو یونہی بتادیا کہ میری بیٹی گانے اچھے گاتی ہے ۔ بخاری صاحب کومیں نے مسدس حالی سنائی تو انھوں نے کہا کہ اسے تو ریڈیو پر ہونا چاہیے۔ والد صاحب نے تردد کا اظہار کیا تو بخاری صاحب نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں میں یہ کہہ دوں گا کہ نجمہ میری بھتیجی ہے… پھر وہاں شاہد احمد دہلوی بھی موجود تھے ۔ اگلے دن بخاری صاحب نے گاڑی بھیج کر مجھے ریڈیو بلوالیا تو وہاں کا عملہ کہنے لگا لگتا ہے اس نئی لڑکی کے لیے ریڈ کارپٹ بچھانا پڑے گا ۔ بخاری صاحب کے ریفرنس کی وجہ سے آڈیشن کا تو سوال ہی نہ تھا پھر بھی مہدی ظہیر نے میری آواز سنی تو بخاری صاحب سے کہا کہ میں اسے اپنے پروگرام '' سنی ہوئی دھنیں '' کے لیے لیکر جا رہا ہوں ۔ یہ پروگرام دراصل فلمی دھنوں پرنئے کلام پر مشتمل تھا ۔چنانچہ پہلے دن ہی میں نے ریڈیوپر گانا گالیا ۔ پھر آہستہ آہستہ آواز پختہ ہونے لگی تو بخاری صاحب نے مجھ سے غزلیں بھی گوائیں جن میں سے اکثر کی طرز وہ خود بناتے تھے ۔ بخاری صاحب پریہ عقدہ کھلا کہ میں فارسی بھی جانتی ہوں تو انھوں نے میری آوازفارسی کلام میں بھی شامل کرنا شروع کردی جہاں میں نے امیرخسرو سے لیکر مرزا غالب اور علامہ اقبال کے کلام بھی پڑھے ۔ رفتہ رفتہ فارسی کی وجہ سے میری آواز ریڈیوکے سامعین میں مقبول ہونے لگی اور میری کٹیگری بھی بڑھ گئی ۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میرا اصل نام عارفہ نجمہ ہے لیکن جب ریڈیو میں گانا شروع کیا تو بخاری صاحب نے میرا نام نجم آراء کردیا اورپھر لوگ مجھے اسی نام سے جاننے لگے ۔
سوال : ریڈیو پاکستان کراچی جو اس وقت ہیڈکوارٹر بھی تھا، یہاں کون کون سے فنکار تھے کیونکہ تاحال ریڈیو پاکستان کی مفصل تاریخ بھی مرتب نہیں ہوئی ہے اسی لیے آپ ایک مستند حوالہ ہیں ۔
جواب : اس وقت ریڈیو پاکستان کراچی ابتدائی مراحل میں تھا ، یہ ریڈیو صرف ریڈیو نہیں تھا بلکہ ایک نئی مملکت کی تہذیب و ثقافت بھی وضع کررہا تھا پھر کراچی میں ہندوستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے افرادبھی موجود تھے جن کا تعلق ریڈیو سے بن چکا تھا تو اب پاکستانی ثقافت جنم لے رہی تھی ۔ اس وقت موسیقاروں میں مہدی ظہیر ' بندو خان ' امراؤبندو خان اور نہال عبداللہ کے علاوہ معروف مصنف و ادیب شاہد احمد دہلوی بھی تھے جو ایس احمد کے نام سے گاتے تھے اور موسیقی کا پروگرام '' سر دریا '' بھی پیش کرتے تھے ۔ ایس بی جون ' زوار حسین ' غلام دستگیر وغیرہ مجھ سے تھوڑا سینیئر تھے جبکہ خواتین میں نذیر بیگم ' خورشید بیگم اور رشیدہ بیگم کے علاوہ بہادر شاہ ظفرکے خانوادے کی دو لڑکیاں کوکب جہاں تیموری اور تنویر جہاں تیموری بھی تھیں ۔ مہناز کی والدہ کجن بیگم ایک پختہ میوزیکل آرٹسٹ تھیں ۔ احمد رشدی ہمارے سامنے ہی آئے ، مسرور انور جو کاپی ایڈیٹر اور کمرشل سروس سے وابستہ تھے، انھوں نے مجھے اپنی بہن بنالیا اور وہ رشتہ عمر بھر نبھایا ۔ سید سلیم گیلانی جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان بنے وہ ان دنوں شعبۂ خبر سے منسلک تھے ۔ ان کے علاوہ اختر وصی علی اور ناصر جہاں بھی ایک اچھے میوزک پروڈیوسر اور گلوکار تھے ۔
سوال : آپ کے لیے سب سے بڑا قومی اعزاز قومی ترانے میں آپ کی آواز کا شامل ہونا ہے ، اس بارے میں ہمارے قارئین کو تفصیل سے بتائیے ۔
جواب : قومی ترانے کی پہلی ریکارڈنگ میں شامل ہونا بلاشبہ میرے لیے اعزاز اور فخر ہے ۔ حفیظ جالندھری کا تحریر کردہ قومی ترانہ جب منظور ہوگیا تو ڈائریکٹر جنرل بخاری صاحب نے تمام فنکاروں کو بلوایا اور سب کی آوازیں ٹیسٹ کرنے لگے۔ انھوں نے یہ کام مہدی ظہیر کوتفویض کیا تھا۔ میں نے اپنی بابت بخاری صاحب سے پوچھا تو پتہ چلا کہ میرا نام تو پہلے ہی شامل ہے ۔ مجھے ٹرانسکرپشن دی گئی تو وہ ترانہ میں نے اسی دن ہی یاد کرلیا اوریوں پاکستان کی پہلی فنکارہ بن گئی جس نے قومی ترانہ حفظ کیا ہو ۔ میرے ساتھ کوکب جہاں ' شمیم بانو' نسیمہ شاہین ' خورشید بیگم ' رشیدہ بیگم ' تنویر جہاں شامل تھیں جبکہ مردوں میں احمد رشدی جو ان دنوں نئے نئے آئے تھے کے علاوہ امراؤ بندو خان ' غلام دستگیر ' زوار حسین ' اختر وصی علی 'اختر عباس اور انور ظہیر شامل تھے ۔ ہم 6 اگست کو کراچی ریڈیو کے سٹوڈیومیں ریہرسل پر گئے ۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان ایک فوجی بیرک میں تھاجہاں ہم صرف ریہر سل کررہے تھے ۔ ریہرسل کی نگرانی مہدی ظہیر خود کررہے تھے جبکہ یہ تمام تر کام بخاری صاحب کی نگرانی میں ہورہا تھا ، یہاں یہ بھی بتانا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ قومی ترانہ کمیٹی نے سیکڑوں ترانوں میں سے تین ترانوں کا انتخاب کیا تھا جو دھن پر صحیح بیٹھ رہے تھے ان میں زیڈ اے بخاری اور حکیم احمد شجاع صاحب کے تحریرکردہ ترانے بھی تھے ۔
7اگست کو ہم نے ریہرسل کی تو ہمیں بتایا گیا کہ قومی ترانے کی فائنل ریکارڈنگ کراچی کے این جے وی سکول کی عمارت میں ہوگی جہاں کاہال یکارڈنگ کے لیے موزوں ترین تھا ۔ وہاں ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ گراموفون کمپنی ای ایم آئی نے بھی اپنا ریکارڈنگ سیٹ اپ لگایا تھا کیونکہ انھوں نے ہی اس کی ڈسک تیار کرنا تھیں ۔ 9 اگست کو ہم فائنل ریکارڈنگ پر گئے تو میں سب سے آگے کھڑی تھی ۔ پہلے ٹیک پر میری آواز سب سے زیادہ نمایاں ہورہی تھی تو مہدی ظہیر نے کہا اس لڑکی کو پیچھے بھیجو ورنہ لگے گا یہ لیڈنگ سنگر ہے کیونکہ میری گونج اور آواز کی لوچ بہت نمایاں تھی ۔ چنانچہ مجھے پچھلی صف میںبھیج دیا گیا ، آگے احمد رشدی ' خورشید بیگم اور اور انور ظہیر تھے جبکہ میرے ساتھ امراؤ بندو خان کے علاوہ اختر عباس ' شمیم بانو ' کوکب جہاں اور تنویر جہاں تھیں۔ جبکہ بالکل پچھلی صف میں بقیہ فنکار … ریہرسل میں استاد معشوق علی خان بھی موجود تھے لیکن فائنل ریکارڈنگ والے دن نہیں تھے ۔ شاید ان کی آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ صبح سات بجے سے ریکارڈنگ شروع ہوئی تو وہ شام چھ بجے تک مکمل ہوگئی ۔
سوال: قومی ترانہ ریکارڈ کروانے کے بعد کیا احساسات تھے ؟
جواب : قومی ترانہ ریکارڈ کراتے وقت میں بتا نہیں سکتی کہ کیااحساسات تھے … وہ ملک جس کے لیے ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ، وہ ملک جس کے لیے میرا اکلوتا بھائی قربان ہوا،اسی ملک کے قومی ترانے میں آوازکا شامل ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے ۔ مجھ سے جب اس کے معاوضے کے لیے ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ ای ایم آئی نے کانٹریکٹ سائن کروانا چاہا تو میں نے معاوضہ لینے سے صاف انکار رکردیا ، پھر مجھے دیکھتے ہوئے تمام فنکاروں نے بھی منع کردیا یوں ہم سب نے قومی جوش سے اس ترانے کو پڑھا جو آج دنیا کے بہترین ترانوں میں شمار ہوتا ہے ۔
سوال : حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے پر آپ کو کسی اعزاز سے نوازا ؟
جواب : پاکستان کے لیے کچھ گانا ہی اعزاز ہے ۔ لیکن تاحال سرکاری سطح پر کوئی ایوارڈنہیں ملا جس کا مجھے شکوہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سب نے یہ اپنے اعزازکے لیے پڑھا نہ کہ کسی سرکاری ستائش کے لیے …ہاں البتہ ای ایم آئی نے ہم تمام فنکاروں کو اعزاز ی سرٹیفیکیٹ دیئے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور یہی میرا بہت بڑا سرمایہ ہے ۔
سوال : آپ نے قومی ترانے کے علاوہ اور کون کون سے قومی نغمات گائے ؟
جواب : قومی ترانے کے لیے1955ء میں ارم لکھنوی کا تحریر کردہ نغمہ '' اپنے وطن کی شان یہی ہے ' اے نذرِ وطن ' اے نذرِ وطن '' گایاجس میں نمایاں آواز میری ہی تھی جبکہ میرے ساتھ کورس میں پارسی برادری سے تعلق رکھنے والی مس پرویز دستور اور کوکب جہاں تیموری بھی تھیں ۔ اس کے بعد 1957ء میں یونس سیٹھی صاحب کا لکھا ہوا نغمہ جوقومی ترانے کے بعد قومی نغموں میں میری پہچان بنا وہ '' کس درجہ دل فریب وطن کی ہیں وادیاں' مہکی ہوئی فضاء سے گذرتے ہیں کارواں '' ہے، جس میں سننے والوں کو میڈم نورجہاں کا گمان ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ جب اسے سنتے تو نورجہاں ہی کہتے ہیں۔ ان نغموں کی دھنیں مہدی ظہیر نے ہی بنائی تھیں اور یونس سیٹھی والا نغمہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے پچاس کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کراچی کا سب سے مقبول قومی نغمہ ہونے کا اعزاز بھی ملا ۔ اس کے بعد جب اکتوبر 1958ء میں انقلاب آیا تو اس کے بعد یومِ پاکستان کے موقع پر حمید نسیم صاحب کا تحریر کردہ نغمہ '' صبحِ نو آگئی مسکراتی ہوئی ' جشنِ جمہور کے گیت گاتی ہوئی '' بھی اختر عباس کے ساتھ گایا اور وہ نغمہ صدر ایوب خان کے ترقیاتی کاموں پر مشتمل ریڈیو ڈاکیومنٹری '' نئی کرن '' میں بھی شامل ہوا ۔
سوال : ہمارے قارئین اور عوامِ پاکستان کو کیا پیغام دیں گی ؟
جواب : میرا یقین کریں کہ پاکستان ایک بہت بڑی دولت ہے … اسی کے دم سے ہم سب ہیں … نئی نسل کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم نے کتنی قربانیوں اور مصائب کے بعد یہ ملک حاصل کیا … کہنے کو یہ ایک جملہ ہی لگتاہے جو اب رسمی جملہ ہی بنتا جا رہا ہے مگر جس طرح ٹی وی یا ریڈیو پر بتایا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ مصائب ہم نے جھیلے ہیں اور پھر قائدِ اعظم کی قیادت میں یہ ملک ہم نے حاصل کیا ۔میرا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی مسلح افواج سے محبت ہی نہیں بلکہ عقیدت بھی کرنی چاہیے کیونکہ انہی کے دم سے پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں قائم ہیں، ہمارے فوجی جوان اگلے مورچوں پر اس وقت پہرہ دیتے ہیں جب ہم سو رہے ہوتے ہیں یا اپنی خوشی میں مگن ہوتے ہیں مگر یہ لوگ گھروں سے دور صرف ہماری خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کرکے امن قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ میرے نزدیک افواجِ پاکستان کے خلاف بولنے اور سوچنے والا مخلص پاکستانی نہیں یا پھر اسے پاکستانی ہونے کا صحیح شعور نہیں ۔ اسی لیے پاکستان کے سلامتی اداروں سے محبت اور عقیدت رکھیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے خود کو بھی اپنے اپنے شعبوں کا سپاہی ہی سمجھیں ۔
یاد رہے قومی ترانے کے سمعی اور بصری مواد (آڈیو اینڈ ویڈیو کانٹینٹ) کی ازسرِنو تیاری کا جائزہ لیا جارہا ہے۔اس حوالے سے وفاقی وزارتِ اطلاعات کے زیرِ اہتمام ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے سربراہ سابق وفاقی وزیر جاوید جبارہیں۔یوں قومی ترانہ نئے مناظر اور نئی آوازوں کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں آرمی سکول آف میوزک کے بینڈ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔ قومی ترانے کی ازسرِ نو تیاری میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی جانب سے بھی مکمل معاونت فراہم کی جائے گی۔ ||
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]
تبصرے