'انتہا پسندی' کا لفظ سنتے ہی ہمارے اذہان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کا تاثر ابھرتا ہے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ انتہا پسندی اور شدت پسندی ایک ہی نظریہ کے دو نام ہیں۔ یہ دونوں مہلک برائیاں کئی دہائیوں سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہوئے دہشت گردی کا موجب بنتی آرہی ہیں۔ میرے نزدیک انتہا پسندی کا مطلب زندگی کے کسی بھی معاملے اور نظریے میں انتہا کی روش اختیار کرنا ہے۔ ہر وہ عمل جو کسی نہ کسی طور پر انتشار پھیلانے اور معاشرے کی مجموعی صورت حال میں بگاڑ لانے کا باعث بنے، انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔
انتہا پسندی کے لیے قرآن کریم میں لفظ "غلو" استعمال ہوا ہے۔ یہ تباہ کن جارحیت سننے میں جتنی تکلیف دہ ہے ، سہنے میں اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے۔ اس کا تاوان آنے والی نسلوں کو جان و مال کی قربانی دے کر چکانا پڑتا ہے۔
انتہا پسندی کسی ایک ملک نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ایسا المیہ جو پوری انسانیت کی تذلیل کا سبب بنتا رہا ہے۔ انتہا پسندی بنی نوع انسان سمیت حیوانات و نباتات کی بقا کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
انتہا پسندی بہت سے روپ دھارے ہمارے معاشرے میں سانس لیتی دکھائی دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ سیاسی، سماجی، دینی، نسلی، مسلکی فرقہ واریت ہو یا نفسیاتی مسائل۔۔۔ انتہا پسندی جس صورت میں بھی ہو، معاشرے کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ حق کے لیے لڑنے اور انصاف کا بول بالا کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کو انتہا یا شدت پسند نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ انتہا پسند تو وہ ہیں جو معاشرے اور انسانیت کی بھلائی کے لیے متعین کردہ قوانین کو للکارتے، حدود سے تجاوز اور انحراف کرتے ہیں۔ پھر اپنے قول و عمل سے رائج حدود و قیود کے تقدس کو پاش پاش کرتے ہیں۔۔۔ اور اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی جارحانہ کوشش کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔۔۔ عدم رواداری کے ایسے رویے بالآخر جرائم کی شرح میں بڑھاوے کا باعث بن کر معاشرتی انتشار کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
انتہا پسندی کے اسباب
انتہا پسندی کے بیسیوں اسباب ہیں۔ ان میں سے چند ایک انفرادی اور زیادہ تر معاشرتی و سماجی ہیں۔
٭مادہ پرستی اور خود غرضی۔ خواہش نفس کے غلام انتہا پسند ہوتے ہیں۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے اپنے اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
٭احساس محرومی- یہ کئی نفسیاتی الجھنوں کو جنم دیتا ہے۔ احساس محرومی کا شکار افراد موقع ملتے ہی اپنا حق چھین لو، سب سے آگے بڑھو، سب سے زیادہ کامیاب بنو کی تفسیر بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دوسروں کا حق مارنے اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
٭دین اسلام سے دوری- دین انفرادی اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق اسلامی تعلیمات کو سمجھنا گمراہی کی جانب لے جاتا ہے۔ جب کہ بے جا اور بلاضرورت فتوے بازی انتہا پسندی کو ہوا دینے کا باعث بنتی ہے۔ خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے نازیبا کلمات اور تنگ نظری کے مظاہرے انتہا پسندی کا فروغ اور ہجوم کو گمراہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
٭نا انصافی- یہ ایسا ناسور ہے جو فرد واحد اور معاشرے کے لیے خاموش قاتل ہے۔ معاشرے میں بہت سی برائیوں کی جڑ انصاف کے دوہرے معیار ہیں۔ طاقت ور اور کمزور کے لیے انصاف کے مختلف پیمانے کمزورافراد کو آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی طرف جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
٭افراط و تفریط کی غیر منصفانہ تقسیم- رویوں میں شدت پسندی کا باعث بن کر انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔
٭حقوق و فرائض کا عدم توازن- معاملات زندگی میں بگاڑ لاتا ہے اور یہ بگاڑ گھریلو سطح پر انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔ اس کے اثرات معاشرے میں بھی جابجا دکھائی دیتے ہیں۔
٭ریاستی قوانین اور سماجی اقدار سے انحراف- قوانین اور اخلاقیات سے باغی افراد معاشرے کے دوسرے افراد پر زبردستی مسلط ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ناکامی پر وہ کسی بھی قسم کا انتہائی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے۔
٭عدم برداشت اور صبر و تحمل کی کمی- عدمِ برداشت چاہے حکومتی معاملات میں ہو یا معاشرے کے افراد میں اس کا راستہ انتہا پسندی کی طرف ہی جاتا ہے۔ امن و امان کی ناقص صورت حال میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بروئے کار نہ لانا اور فوری ردعمل انتہا پسندی کے مظاہرے کی صورت سامنے آتے ہیں۔
انتہا پسندی کا سد باب
٭دین اسلام کی تعلیمات- صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے اور عمل کرنے میں ہی انتہا پسندی کا توڑ چھپا ہے۔ دین اسلام انتہا پسندی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ مومنین کو فتنہ اور فساد سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ نبی پاکۖ نے فرمایا "نرمی اختیار کرو اور غلو سے بچو۔" آپۖ کو اللہ پاک نے معلم اور آسانیاں پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا۔ دین اسلام میانہ روی، درگزر اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ حقوق العباد کو حقوق اللہ پر فوقیت دی گئی۔ انھی بیش قیمت تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی معاشرے کی بھلائی ہے۔
٭فلاحی ریاست کا قیام۔ ایسا معاشرہ جس میں سب کو بلا امتیاز و تفریق بنیادی حقوق میسر ہوں۔ انصاف کی فراہمی یقینی ہو۔ کوئی کسی کا حق نہ مارے اور نہ ہی ظلم کرے۔ ایسے مثالی معاشرے کے افراد نفسیاتی طور پر صحت مند اور مضبوط ہوتے ہیں۔۔۔ سوچ، معاملات اور اختیارات میں توازن ہی انتہا پسندی کو شکست دے سکتا ہے۔
٭معاشرتی اصلاح اور درست تعلیم و تربیت- معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایسی تعلیم و تربیت اشد ضروری ہے جو اچھا انسان اور متوازن شخصیت بننے میں مددگار ثابت ہو۔ تاکہ عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے افراد صحیح غلط کی بروقت تخصیص کر سکیں۔
٭اعتدال پسندی- ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال پسند بننا ہے۔ کیونکہ انتہا پسندی کی ضد اعتدال پسندی ہی ہے۔ انتہا پسند دوسروں کو ایذا پہنچاکر، رکاوٹ کھڑی کرکے اور بے توقیر کر کے محظوظ ہوتے ہیں۔ ایسے افراد حیوان اور درندے تو کہلا سکتے ہیں مگر انسان نہیں۔
٭نفسیاتی صحت پر توجہ- ہمارے معاشرے میں اس امر کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نفسیاتی مسائل اور گرہیں وقت پر نہ سلجھائی جائیں تو زندگی کے لیے پھندہ بن جاتی ہیں۔ ذرا سی محنت سے منفی سوچیں، جذباتیت اور غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭بچوں کی اچھی اور متوازن تربیت- تربیت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے مگر اس کے منفی اور مثبت اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کو اولاد کی سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔ بچوں کو جیت کے ساتھ ساتھ ہار سہنا بھی سکھائیں۔ بدلہ لینا اور مقابلہ بازی کی منفی فضا سے دور رہنا بھی سکھانا ہے۔ یہی بچے بڑے ہو کر معاشرے کی اساس اور دوسروں کا خیال و احساس کرنے والے افراد بنیں گے۔
ہم سب مل کر انتہا اور شدت پسندی کاخاتمہ اپنے مثبت رویے اور عمل سے کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی منفی سوچ اور غیر معتدل رویوں کو بدلنا ہو گا۔ حسن سلوک، صبر و برداشت اور مساوات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی کہ جیسے افراد ہوں گے ویسا ہی معاشرہ تعمیر ہو گا۔ انسانیت اور اعتدال پسندی کا عملی مظاہرہ کر کے ہی ہم انتہا پسندی کو شکست فاش دے سکتے ہیں۔ ||
تبصرے