''56انچ کے سینے والے'' بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ان کی حکومت نے ایک طرف ملک میں نسلی امتیازاور ہندو توا کی پالیسی سے معاشرے کو شدید تقسیم کا شکار کردیا ہے اور کووڈ19بحران سے نمٹنے میں تاریخی نااہلی دکھاکر بھارت کو بے گور وکفن لاشوں کا قبرستان بنا دیا ہے تو دوسری طرف خارجی محاذ پر ایسی بری کارگردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ''ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت'' کی شبیہہ رکھنے والا بھارت خطے میں مسلسل تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کے پاکستان، چین، نیپال اور ایران کے ساتھ تعلقات میں حالیہ برسوں میں ایسی دراڑیں پڑی ہیں کہ بھارت اب ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ہرممکن پہل کر رہا ہے لیکن خارجی پالیسی میں نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کی دوغلی حکمت عملیوں کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان تعلقات میں بہتری لانا اس کے لئے نہایت مشکل ثابت ہورہا ہے جبکہ بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان جہاں کئی دہائیوں سے بھارت کا اثرورسوخ تھا ، وہ بھی اس کے دائرہ اثر سے نکل رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام میں بھارت کے خلاف غم وغصہ اور ناراضگی بڑھ رہی ہے جس کا اظہار مودی کے حالیہ دورہ بنگلہ دیش میں بھی ہوا جس میں ان کے دورے کے خلاف بڑے پیمانے پرمختلف پرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اپنے اس دورے میں مودی نے ایک بار پھر اپنی تقریر میں اقرار کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھارت کی سازشوں کی بناء پر ممکن ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقصد کے لئے کوششیں کرنا ان کی اپنی زندگی کی پہلی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کی مجرمانہ سازشوں کا اقرار وہ پہلے بھی کئی مرتبہ کر چکے ہیں اور وہ ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کا وجود بھارت کی مدد اور پشت پناہی کے بغیر ناممکن تھا۔لیکن شومئی قسمت کہ بنگلہ دیش اس وقت بھارت کے حلقہ اثر سے نکل کر چین سے قربتیں بڑھا رہا ہے اور بھارت کی اس ملک میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کی پالیسی ناکام ہورہی ہے۔اس کا اظہار پچھلے سال ہونا شروع ہوا جب بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بھارتی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود انھیں ملاقات کے لئے وقت نہیں دیا۔ اس دوران عالمی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ حسینہ کی حکومت کا جھکائو چین کی طرف ہورہا ہے اور وہ ملک میں بھارتی سرمایہ کاری کے بجائے چینی سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس دوران بھارتی خدشات کے باوجود بنگلہ دیش نے سلہٹ میں ایک ائیرپورٹ ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا۔ کرونا وائرس وباء کے ابتدائی دنوں میں جب بھارت نے بنگلہ دیش کی مدد کی تو جواب میں بنگلہ دیشی حکومت نے اپنا سردمہر رویہ برقرار رکھا اور اس نے بھارتی حکومت کو تعریفی نوٹ تک نہیں بھیجا۔ اب بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس دورے کے لئے پہلے سے باقاعدہ زمین تیار کی گئی جس میں دسمبر 2020میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان ورچوئل رابطہ ہوااور پھر بھارتی وزیر برائے خارجہ امور ایس جے شنکر نے 4مارچ کو بنگلہ دیش کا دورہ کرکے مودی کے دورے کے لئے انتظامات مکمل کئے۔ جہاں مودی نے بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں کرتا پاجامہ کے ساتھ ''مجیب جیکٹ'' پہن کر شرکت کرکے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے لئے عقیدت کا اظہار کرنے کے علاوہ یہ دعویٰ کیا کہ دونوں ممالک کے ٹھوس تعلقات ہیں جو کسی قسم کی سفارتکاری کا شکار نہیں بنیں گے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بھرمیں عوام نے ان کے دورے اور بھارت کے خلاف مظاہرے کئے اور ملک میں بھارتی اثرورسوخ کی خواہش کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بنگلہ عوام اب اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھارت سے تعلقات میں کمی لائے اور اس کے بجائے چین کو اہمیت دے۔ حسینہ حکومت کی حالیہ پالیسیوں اور بنگلہ دیشی عوام کے رویے کو دیکھ کر صاف ظاہر ہے کہ بھارت اب بنگلہ دیش کا پسندیدہ ملک نہیں رہا۔ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات پہلے بھی پائے جاتے تھے لیکن اب ان میں وسعت آرہی ہے جس کی بڑی وجہ مودی کی ناقص پالیسیاں ہیں۔معروف بنگلہ دیشی انسانی حقوق کارکن شاہین حق نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا ''بنگلہ دیش میں مودی مخالف جذبات اب بھارت مخالف جذبات میں بدل گئے ہیں۔ '' مودی کی بھارت میں مسلمانوں سے نفرت بھری پالیسی نے مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کو بھی ان سے بدظن کردیا ہے۔اس کے علاوہ بھارت میں حالیہ ریاستی انتخابات میں جب وزیرداخلہ اور مسلم مخالف پالیسی کے معمار امیت شاہ نے یہ بیان دیا کہ غیرقانونی مہاجرین ''دیمک '' ہیں اور ان کی حکومت ان دراندازوں کو ایک ایک کرکے آبنائے بنگال میں پھینکے گی، تو اس سے بھی بنگلہ دیش میں زبردست اشتعال نے جنم لیا اور اس کے نتیجے میں بھارت کے کئی وزارتی دورے منسوخ کرنے پڑے۔بھارت اور بنگلہ دیش 54دریاؤں کے پانی میں مشترک حصہ رکھتے ہیں جو سارے بھارت سے گزر کر بنگلہ دیش کی طرف بہتے ہیں۔ دریائے گنگا کے علاوہ ان میں سے کسی بھی دریاپر کوئی معاہدہ نہیں ہے اور اس معاملے پر بھارت کی مضبوط پوزیشن بھی بنگلہ عوام کو بدظن کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو جب 1971میں بھارتی سازشوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا تو اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے شیخی بگھاری کہ ''ہم نے ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے '' اور''ہم نے دوقومی نظریے کوخلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔''لیکن تاریخ نے ثابت کردیا کہ مشرقی بنگال کو توڑ کر بھارت کے مغربی بنگال سے جوڑنے کی خواہش صرف خواہش ہی رہی اور ایسٹ بنگال نے بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد وطن کے قیام کا اعلان کردیا اور اس طرح خطے میں ایک اور اسلامی ریاست وجود میں آگئی جس سے دو قومی نظریہ ختم ہونے کے بجائے اسے مزید تقویت ملی۔ مزید برآں، اندرا گاندھی کی چالبازیوں نے خطے میں عدم استحکام کے علاوہ خود اپنے ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کو بھی جنم دیا جس کے نتیجے میں اگست 1975میں شیخ مجیب الرحمن اور پھر چند سال بعد خود اندراگاندھی کو قتل کر دیا گیا۔
2014میں اقتدار میں آنے کے بعد جب نریندر مودی نے بھارت کی خارجہ پالیسی میں مزید جارحیت لائی اور ''پڑوس پہلے'' کا نعرہ لگایا تو بھارتی مبصرین ابتداء میں مودی کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے اور کہا جانے لگا کہ مودی کی خارجہ پالیسی پہلے مراحل آزادی سے لبرلائزیشن پالیسی (پہلی جمہوریہ) اور سرد جنگ کا اختتام (دوسری جمہوریہ) سے نکل گئی ہے اور اب یہ ''تیسری جمہوریہ'' کا آغاز ہے ۔
بھارتی پالیسی ساز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اور امریکہ کی چین کے گرد حصار باندھنے میں بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی پالیسی نے بھارت کے لئے بڑے مواقع پیدا کر دئیے ہیں کہ وہ خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھائے۔ لیکن شاید مودی نے اب ان مواقع کو گنواناشروع کردیا ہے۔ نہ تو وہ اب تک چین کے گرد کوئی حصار باندھ سکا ہے اور نہ ہی پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے میں کامیاب ہوا ہے ، البتہ خود تیزی سے تنہائی کی جانب گامزن ہے۔ چین خطے کے اہم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، ایران اور سری لنکا کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈانیشیٹیو (بی آر آئی) کے ذریعے خطے کے ممالک کو اپنے ساتھ جوڑ رہا ہے اور آگے ساری دنیا سے روابط قائم کر رہا ہے جبکہ اس نے افغانستان میں بھی اپنی موجودگی بڑھا لی ہے اور افغان حکومت اور طالبان دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ 2014میں بھارت کا بھوٹان کے لئے فیول سبسڈیز ختم کرنے کے بعد اس ملک سے بھی تعلقات کمزور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور چین یہاں بھی بھارت کی جگہ لے رہا ہے۔ بھوٹان بھارت کی وجہ سے 'بنگلہ دیش،نیپال ، بھارت، بھوٹان چار ملکی موٹر وہیکل معاہدے' سے بھی نکل گیا ہے اور اس نے اپنے ہاں بھارت کے بجائے چینی سرمایہ کاری کے لئے دروازے کھول دئیے ہیں جس میں بھوٹان کی جی ڈی پی میں دوسری بڑی اہمیت رکھنے والا شعبہ سیاحت نمایاں ہے۔ اب جب امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے تو اس فوجی انخلاء میں سب سے اہم کردار پاکستان کا رہا ہے جوامریکہ،طالبان مذاکرات کے بعد بین الافغان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مستقبل کے منظرنامے میں افغانستان پاکستان کا اتحادی بنتا نظر آرہا ہے اور بھارت کی افغانستان میں ''تعمیر نواور جمہوریت'' کے نام پر سرمایہ کاری اور اثرورسوخ بڑھانے کا زمانہ لد رہا ہے۔صاف نظر آرہا ہے کہ مودی کی ''جنوبی ایشیاء پالیسی'' کو چین اور پاکستان کی جانب سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ واشنگٹن کا پراکسی بننے کے باوجود خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ ||
مضمون نگار ایک معروف صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے