حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں جب امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ڈیموکریٹک حریف جوبائیڈن کے ساتھ صدارتی مباحثے میں بھارت کو ایک'' گندہ ''ملک قرار دے دیا تویہ تبصرہ بھارتی حکام اور شہریوں کے لئے یکساں طور پر ایک دھچکا تھا، کیونکہ دونوں ممالک کو اسٹریٹجک اتحادی سمجھا جاتا ہے اور بھارتیوں کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کیمسٹری ''زبردست'' ہے اور دونوں کے دمیان ذاتی قسم کا گہرا تعلق بھی موجود ہے۔ ٹرمپ کے اس تبصرے پر بھارت میں یوں تو بہت تنقید ہوئی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تنقید بے جا تھی یاپھر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ موقف درست ہے کہ بھارت درحقیقت ایک آلودہ ملک ہے ؟دیکھا جائے تو بھارت واقعی ایک آلودہ ملک ہے کیونکہ گزشتہ سال دنیا کے 30آلودہ ترین شہروں میں بھارت کے 21شہر شامل رہے۔ سال2016کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں کم از کم 140ملین افراد ایک ایسی فضا میں سانس لیتے ہیں جو کہ عالمی ادارہ صحت کے حفظان صحت کے معیارسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ آلودہ ہے۔ بھارت میں صنعتی سرگرمیاں 51فیصد، گاڑیاں 27فیصد، فصلوں کا جلانا 17فیصد اور آتش بازی 5فیصد آلودگی پیدا کرتی ہے۔ ہرسال 2ملین بھارتی شہری فضائی آلودگی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ بھارت امریکہ اور چین کے بعد سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج کرتا ہے ،لیکن ان دونوں ممالک کے برعکس اس کی آلودگی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کی پالیسیاں کمزور ہیں۔ دہلی ہارٹ اینڈ لنگز انسٹیٹیوٹ (Dehli Heart and lungs Institute)کے مطابق بھارت میں دو ملین سے زائد بچے،جن میں ایک ملین بچوں کا تعلق دہلی سے ہے، پھیپھڑوں کے عارضوں میں مبتلا ہیں۔بھارت میں فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ کا مر ض عام ہے جس سے صحت کے کئی دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
ایک مطالعے کے مطابق بھارت میں آلودگی کی شرح اتنی بڑھ گئی ہے کہ اگر وہ آلودگی پر قابو پانے کی موجودہ پالیسیوں اور ضوابط کی پاسداری کربھی لے توپھر بھی 2030تک 674ملین سے زائد بھارتی شہری ایک آلودہ فضا میں ہی سانس لیں گے۔
آسٹریلیا میں ایپلائیڈ سسٹمز انیلیسز(آئی آئی اے ایس اے) اور بھارت میں کونسل برائے توانائی ، ماحولیات و پانی(سی ای ای ڈبلیو) کی جانب سے جاری کئے گئے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے تک صرف 833ملین شہری National Ambient Air Quality Standardsپر پورا اترنے والے علاقوں میں رہائش پذیر رہیں گے۔ اس مطالعے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، بہار اور مغربی بنگال کی ریاستوں میں آلودگی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کو پھیپھڑوں کے لئے مضر گرین ہاؤس گیس، جو کہ اسموگ کا باعث بھی بنتی ہے ، کو قابو کرنے کے لئے ملکی سطح پر مربوط نظام وضع کرنا ہوگا۔ وسطی بھارت آلودہ فضا کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ایسی فضا انسانی صحت ، جانوروں اور اگائی جانے والی سبزیوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر بھارت نے بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو نہیں پایا تو 2050 تک ہر سال دس لاکھ سے زائد افراد قبل از وقت موت کا شکار ہوں گے۔ کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی(Colorado State University) سے تعلق رکھنے والے لجی ایم ڈیوڈ نے بھارتی ماہر ماحولیات اے آر روی شنکر کے ہمراہ ایک مقالے میں کہا ہے کہ ''ہمیں بھارت میں آلودگی کی سطح پر پریشان ہونا چاہئے۔''انھوں نے کہا ہے کہ بھارت میں پیدا ہونے والی آلودگی سے نہ صرف بھارت خود بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان بھارت میں پیدا ہونے والی آلودگی سے شدید متاثر ہونے والا ملک ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا صوبہ پنجاب ہر موسم سرما میں سموگ میں ڈوب جاتا ہے جس کی بڑی وجہ بھارت کی صنعتی اور زرعی آلودگی ہے۔ اس سموگ کی وجہ سے یہاں دمے اور اس سے متعلقہ بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ہر سال سموگ کے دوران نہ صرف ہزاروں افراد مختلف بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ سموگ سے پیدا ہونے والی شدید دھند کے باعث ٹریفک حادثات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا زندگی بھر کے لئے معذور ہوجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں پیدا ہونے والی آلودگی پورے خطے پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہم جنوبی ایشیا کا جائزہ لیں تو یہ مختلف النوع ماحولیاتی زونز پر مشتمل ہے اور اسے مختلف ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ اس خطے میں پانی کی دستیابی میں بہت اتارچڑھائو آتا ہے اور زیادہ درجہ حرارت ، دریاؤں کی سطح میں تبدیلی اور سیلاب کی وجہ سے اس کی دستیابی خطرے میں پڑتی رہتی ہے۔ یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلی، پینے کے پانی کی قلت، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور خوراک کی قلت جیسے خطروں کا شکار ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی جنگلاتی ماحولیاتی نظام اوربھارت اور بنگلہ دیش کے خط ساحل پر آباد خوبصورت جنگلات سب سے زیادہ زد میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل اس خوبصورت جنگلی علاقے میں مینگرو درختوں کی مختلف اقسام کے علاوہ دیگر 200قسم کے درخت، 400سے زائد انواع کی مچھلیاں، 300سے زائد قسم کے پرندے ، رینگنے والے جانوروں کی 35اقسام، 42اقسام کے ممالیہ جانوروں کے علاوہ لاتعداد قسم کے بیکٹیریا اور فنجی پائے جاتے ہیں جو کہ خطے کے ماحولیاتی نظام کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ جنگلات طوفانوں کو روکنے اور ان کی شدت بھی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیںاور یہ تقریباً 400ملین افراد کے لئے'' قدرتی محافظ ''کہلائے جاتے ہیں۔اس جنگلاتی خطے کی تمام برادریاں اپنی زندگی گزارنے کے لئے ماہی گیری سے لے کر شہد کی پیداوار تک ان جنگلات اور یہاں کے پانیوں پر براہ راست انحصار کرتی ہیں۔ یہاں کی تقریباً 85فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے ۔لیکن خطے اور بالخصوص بھارت میں پیدا ہونے والی شدید آلودگی ان جنگلات پر بھی منفی اثرات مرتب کررہی ہے اور اس سے خطے کی خوبصورتی اور مستقبل دونوں خطرے میں ہیں۔
2018میں ماحولیات کے عالمی ادارے آئی پی سی سی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں عالمی درجہ حرارت کو 0.1سیلسئیس تک محدود رکھنے پر زور دیا گیاہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لئے حکومتوں کو 2030تک گرین ہاؤس گیسوںکے اخراج میں 30فیصد تک کمی لانا ہوگی۔تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ چار سال میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی ہونے کے بعد اس میں اب پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ماحولیاتی ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیںکہ زمین نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ بچاؤ کے اقدامات کرنے میں کوئی بھی تاخیربہت نقصان دہ ہوگی۔ یہ نقصان کیا ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیہ اور ہندوکش کے سلسلہ ہائے کوہ میں واقع گلیشیئرز کو لاحق خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی موجودہ رفتار پر قابو نہیں پایا گیا تو ان گلیشیئرز کا دو تہائی حصہ ختم ہوسکتا ہے، ماہرین کے مطابق کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کے پہاڑ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں خالی چٹانوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ فضائی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے برف پگھلنے کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، بھارت، بھوٹان، چین ، میانمار اور نیپال براہ راست متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ ہمالیہ اور ہندوکش کے گلیشئیرز دنیا کے اہم ترین دریاؤں، سندھ، گنگا، ییلو، می کانگ اور اراوادی کو پانی مہیا کرنے کے علاوہ اس خطے کے اربوں لوگوں کے لئے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدن کا بھی ذریعہ ہیں۔ ایک اور سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کرہ ارض پر موجود30فیصد حشرات کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ خیال رہے حشرات الارض انسانی زندگی کے لئے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں اور یہ70فیصد تخم کاری کا باعث بنتے ہیں ،یہ مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرر رساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی کی صرف دو تباہ کن مثالیں ہیں، اس وقت پوری زمین ماحولیاتی تبدیلی کی زد میں ہے، اورآئے روز اس سے متعلق قدرتی آفات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان متعدد تنبیہات کے باوجود بھی بھارت اس شعبے میں سنجیدگی دکھانے کو قطعی تیار نہیں ہے اور وہ نام نہاد ترقی کی دوڑ میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا جارہا ہے اور خطے میں شدید آلودگی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے اپنے شہری مختلف مسائل اور قبل از وقت موت کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک اور افراد بھی گوناگوں مسائل سے دوچار ہورہے ہیں۔ ||
مضمون نگار ایک معروف صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے