بھارت کی خطے میں خارجہ پالیسی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ چین، پاکستان، نیپال، ایران کے ساتھ تعلقات میںمزید دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں اور بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان اس کے اثر ورسوخ سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چند سال قبل جارح مزاج بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کرنے کے اعلانات کرتے پھر رہے تھے اور بھارت کو ایسی بڑی طاقت سمجھ رہے تھے جس کا اثرورسوخ خطے کے ممالک پر بڑھ رہا تھا ۔ لیکن اب اچانک چین کے ساتھ سرحدی تنازعے نے شدت اختیار کرلی اور وادی گلوان میں ایک عسکری جھڑپ کے دوران اس کے تقریباً20فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ نیپال کے ساتھ لیپولیکھ تنازعے نے ایک بار پھر سر اٹھایا جس کے بعد تعلقات میں کشیدگی اس نہج پر پہنچ گئی کہ دونوں ممالک کے وزراء نے ہندو اور بدھ مت مذہبی ہستیوں رام او ر سدھارتھ کی جائے پیدائش کے بارے میں متضاد دعوے کرنا شروع کردئیے جس میں دونوں ممالک ان ہستیوں کو اپنا اپنا تاریخی اثاثہ سمجھ رہے ہیں۔ ایران نے بھی بھارت کو چا بہار ریل پراجیکٹ سے نکال باہر کردیا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرو ل پر کشیدگی کے علاوہ کاروباری، معاشی اور سفارتی تعلقات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں ۔
پاکستان کی مدد سے ہی 29فروری کو قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے بننے کی امید ہے جس میں بھارت کا اثرو رسوخ متاثر ہوگا، بلکہ طالبان کی موجودگی بھارت کے لئے انتہائی ناپسندیدہ ہوگی اور بھارت کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اس کی افغانستان میں دو دہائیوں کی ریاضت ضائع ہونے لگی ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ نئی حکومت دوطرفہ تعلقات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دے گی۔
اس ساری صورتحال میںاس وقت تین ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان خطے میں بھارتی اثر ورسوخ کے مستقبل کا تعین کرنے کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ہم اس مضمون میں ان تینوں ممالک کے بھارت کے ساتھ بدلتے تعلقات کا جائزہ لیں گے:
بھوٹان بھارتی حلقہ اثر سے نکل کر چین کے قریب ہورہا ہے:
اس وقت بھارت کی پاکستان کے بعد خطے میں سب سے بڑی کشیدگی چین کے ساتھ پائی جارہی ہے ۔ بھوٹان کا چین اور بھارت کے تعلقات میں تاریخی کردار رہا ہے۔ بھوٹان کے جغرافیے پر نظر ڈالی جائے تو شمال میں اس کی سرحد چین کے خود مختار خطے تبت سے ملتی ہے۔ اس کے مغرب میں بھارتی ریاست سکیم اور جنوب اور مشرق میں بھارتی ریاستیں آسام، مغربی بنگال اور ارونا چل پردیش واقع ہیں۔ اس طرح یہ ملک چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے اور ان دونوں بڑے ممالک نے ہمیشہ خطے میں اپنے اثرورسوخ کے لئے اسے اپنے اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ابتداء میں بھارت کا اس پر مکمل اثرورسوخ تھا اور اس نے 1962کی چین -بھارت جنگ میں بھی کھل کر بھارت کا ساتھ دیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب بھوٹان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ناخوشگوار رہے ہیں اور ان دونوں ممالک کی 477کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد پر کئی بار علاقائی تنازعات پیدا ہوئے ہیں ۔ لیکن اب پچھلے کچھ عرصے سے چین اور بھارت دونوں کی کوشش ہے کہ بھوٹان کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئیں، یہی وجہ تھی کہ 2014میں انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنا سب سے پہلا غیرملکی دورہ بھوٹان کا ہی کیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ بھوٹان باضابطہ طور پر چین کے حلقہ اثر میں جارہا ہے۔ 2014 کے جب شان ژی مذاکرات کے دوران چین نے بھوٹان کے ساتھ متنازع علاقوں کا مشترکہ فیلڈ سروے کرانے کی پیشکش کی توبھارت نے بھوٹان کو دی جانے والی فیول سبسڈیز ختم کردیں جس کی وجہ سے وہاں ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں جگمے تھنلے کی حکومت کا خاتمہ ہوا جس نے چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھوٹان چین کے ساتھ سرحدی تنازع حل کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی بھوٹان نے اقوام متحدہ میں خشکی میں گھرے ممالک کی حیثیت پر بھارتی مؤقف کا ساتھ نہیں دیا اور وہ بنگلہ دیش، بھوٹان ، بھارت اور نیپال کے درمیان موٹر وہیکل معاہدے سے دستبردار ہوگیا۔ ہائیڈروپاور کا شعبہ بھوٹان کی جی ڈی پی میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے بھارتی شرائط سے بھی ناخوش ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت اب بھی اس کے خارجی امور پر اثرانداز ہونے کی مسلسل کوششیں کرتا رہتا ہے اور یہ بھی بھوٹانی حکام کی ناراضی کا سبب ہے۔ اس صورتحال میںچین نرم طاقت کی سفارتکاری کے ذریعے بھوٹان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے کوشاں ہے اور وہ اس کے جی ڈی پی میں دوسرے نمبر پر اہم شعبہ سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سلسلے میں بھوٹان جانے والے چینی سیاحوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔بھوٹان کی موجودہ حکومت بھارت کے زیرسایہ رہ کر بیروزگاری کی شرح اور بھارتی قرضے میں اضافے سے پریشان ہے اور چین اس کی اسی پریشانی کو استعمال کرکے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے اور بھوٹانی عوام اور نجی کاروباری ادارے بھارت کو چھوڑ کرچینی سرمایہ کاری میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
امریکہ -طالبان معاہدے کے بعدافغانستان میں بھارت کی دو دہائیوں کی ریاضت دریا برد ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے:
2001میں جب امریکی حملے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوگئی اور حامد کرزئی نے عنانِ حکومت سنبھالی تو وہاں بھارتی اثرورسوخ میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ بھارت نے افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا شروع کی اور کرزئی حکومت کو پوری طرح سے اپنے حصار میں لینا شروع کردیا۔کرزئی کے بعد اشرف غنی حکومت نے بھی اپنا وزن بھارتی پلڑے میں ڈالا۔ اس دوران افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد پر فائرنگ اور افغان حکام کے پاک مخالف بیانات معمول بن گئے۔ لیکن جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا اعلان کیاتو خطے کی گیم میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی اور امریکہ ، افغانستان ، روس ، ایران اور افغان مسئلے میں دلچسپی رکھنے والے دیگر ممالک کے لئے پاکستان کی اہمیت میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا اور اس طرح پاکستان کی مدد سے ہی 29فروری کو قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے بننے کی امید ہے جس میں بھارت کا اثرو رسوخ متاثر ہوگا، بلکہ طالبان کی موجودگی بھارت کے لئے انتہائی ناپسندیدہ ہوگی اور بھارت کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اس کی افغانستان میں دو دہائیوں کی ریاضت ضائع ہونے لگی ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ نئی حکومت دوطرفہ تعلقات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دے گی۔
بنگلہ دیش کی قربتیں چین اور پاکستان سے بڑھ رہی ہیں، بھارت سے فاصلے پیدا ہورہے ہیں:
بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں ، لیکن جولائی میں یہ اطلاعات سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ گزشتہ چار ماہ سے بھارتی ہائی کمشنر کی جانب سے کئی درخواستوں کے باوجود ملاقات نہیں کر رہی ہیں۔ اس دوران ڈھاکہ سے شائع ہونے والے سرکردہ بنگالی اخباربھورر کاگوج نے رپورٹ دی کہ 2019میں بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کی انتخابات میں دوبارہ کامیابی کے بعد سے ملک میں جاری بھارتی منصوبوں میں سستی آنا شروع ہوگئی ہے جبکہ چینی انفراسٹرکچر منصوبوں کو ڈھاکہ کی زیادہ حمایت مل رہی ہے۔بھارتی خدشات کے باوجود بنگلہ دیش نے سلہٹ میں ایک ائیرپورٹ ٹرمینل تعمیر کرنے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دے دیا ہے۔ اخبار کے مطابق بنگلہ دیش نے کروناوائرس وباء کے دوران بھارتی امداد پر بھارتی حکومت کو تعریفی نوٹ تک نہیں بھیجا۔معتبر بھارتی اخبار دی ہندو نے اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ڈھاکہ کی پاکستان اور چین کے ساتھ قربتیں بڑھنے کی عکاسی ہوتی ہے۔جبکہ چین نے بنگلہ دیش کو اربوں ڈالر کے منصوبے دینے کے علاوہ بنگلہ دیش کے سامان کو مختلف ٹیکسوں سے چھوٹ دے دی ہے۔اس دوران پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور بنگلہ وزیراعظم حسینہ کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی اور دونوں رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کی جو کہ حالیہ تاریخ میں ایک غیرمعمولی بات سمجھی جارہی ہے۔اگرچہ دونوں رہنماؤں کی اس گفتگو کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن ماہرین کے مطابق خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں یہ ایک اہم رابطہ ہے اوراب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی آسکتی ہے۔
صاف نظر آرہا ہے کہ چین، ایران،افغانستان، بنگلہ دیش،نیپال اور بھوٹان جن کے اب تک بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، اب اس سے دور ہوتے نظر آرہے ہیں اور بھارت آہستہ آہستہ خطے میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ ||
مضمون نگار ایک معروف صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے