جب پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ دفاعِ وطن میں سینہ سپر تھی
میں نے جنوری میں جنگِ ستمبر کی یادیں کے عنوان سے کتاب مرتب کی جس کا بنیادی مقصد اپنی نئی نسل کو اس روح پرور فضا میں لے جانا تھا جس میں پاکستان کی مسلح افواج نے عوام کی بے پایاں حمایت سے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیئے تھے جس کے باعث اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی تھی۔1965 کی سترہ روزہ جنگ میں ہماری افواج کا جو عظیم جذبہ جہاد اور عوام اور فوج کے مابین اعتماد اور جاں نثاری کے جو گہرے رشتے اور قومی یک جہتی کی جو ایمان پرور کیفیتیں ابھر کر سامنے آئی تھیں، وہ آج بھی ہمارے اندر ایک نئی امنگ، ایک نیا عزم اور اپنے روشن مستقبل پر ایک عظیم الشان سطوتِ اعتبار پیدا کرتی ہیں۔ مجھے چھمب جوڑیاں سے لے کر کھیم کرن اور چونڈہ سے مونا باو ٔتک ہر محاذ پر جانے اور افواجِ پاکستان کا دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے اور عوام کے اپنی افواج پر اپنی جانیں چھڑکنے کے ناقابلِ یقین واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور معتبر شاہدین سے سننے کے ان گنت مواقع ملے۔ انہیں میں ضبطِ تحریر میں لاتا رہا جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں تفصیل سے شائع ہوتے رہے۔
6 ستمبر کو دن کے گیارہ بجے صدرِپاکستان فیلڈمارشل ایوب خان نے اردو میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں لا الہ الا اللہ کی صدا گونج رہی ہے، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نہیں کر دی جاتیں۔ یہ تقریر سنتے ہی پورا ملک نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا اور لوگوں کے اندربے پناہ جوش اور ولولے کی ایک برقی رو دوڑ گئی۔ لاہور کے نوجوان اپنی فوج کی مدد کے لئے واہگہ بارڈر کی طرف دوڑے اور قصور کی طرف پیش قدمی کرنے والے نوجوان قافلوں کی تعداد لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ریڈیو پاکستان پر خبریں نشر ہو رہی تھیں کہ دشمن بیک وقت واہگہ اور قصور پر حملہ آور ہوا ہے۔ سول ڈیفنس سے وابستہ تربیت یافتہ جوان حرکت میں آ گئے اور شہریوں کو نظم و ضبط میں ڈھالتے گئے۔ اِس سے قبل کوئی دس بجے کے قریب پورا لاہور ایک ہولناک دھماکے سے لرز اٹھا تھا جس سے وقتی طور پر خوف و ہراس پھیلا اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ حسنِ اتفاق سے کوئی پندرہ بیس منٹ بعد مجھے ایک دوست کا فون آیا جو چند ماہ پہلے تک پاکستان ایئرفورس سے وابستہ تھے۔ اس نے بتایا کہ ہمارے جنگی طیارے نے ایئرہائیٹس (Sound Barriers)کی حدیں عبور کی تھیں جس سے زوردار دھماکہ ہوا، چنانچہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔ اہلِ محلہ دھماکے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں جمع ہو گئے تھے جو سمن آباد میں واقع تھا۔ جب انہیں حقیقت کا علم ہوا، تو وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی عملی تدابیر کا جائزہ لینے لگے۔
ریڈیو پاکستان کے ذریعے معلوم ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں نے صدر ایوب خاں کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے پورے تعاون کا یقین دلایا ہے اور ان کے مابین ملاقات طے پا گئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام سیاسی اختلافات کافور ہوتے گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کا جذبہ بے اختیار ہر سو جلوہ گرہوگیا۔ خبریں آ رہی تھیں کہ ہمارے جنگی طیارے دشمن پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے اور ہماری آرٹلری بڑی مہارت سے دشمن کے ٹینک تباہ کرتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں دشمن فوج کی پیش قدمی رک گئی ہے اور اسے بی آر بی نہر سے پرے روک دیا گیا ہے۔ ہماری فوج میں افسروں سے لے کر جوانوں تک ناقابلِ شکست جذبوں سے سرشار تھے اور سردھڑ کی بازی لگا کر شجاعت و ایثار کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ افواجِ پاکستان جو بھارتی افواج کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم تھیں، انہوں نے شوقِ شہادت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت کی بدولت ہر مقام پر دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چونڈہ میں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا تھا، کھیم کرن، سلیمانکی ہیڈورکس اور مونا باؤ کے محاذوں پر پیش قدمی کی اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
دوسرا اِیقان افروز اور دل نشین منظر یہ تھا کہ عوام زندگی کے ہر موڑ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ غیرمعمولی استقامت کے ساتھ کھڑے تھے۔ جن جن شہروں اور قصبوں کے قریب سے فوجی قافلے گزرتے وہاں وہاں بچے، جوان اور بوڑھے ان پر گل پاشی کرتے اور ان کے آگے کھانے پینے کی اشیا کے ڈھیر لگا دیتے۔ خواتین گھروں میں فوجیوں کے لئے تحائف کے پیکٹس تیار کرتیں جو کمال شوق اور سرتوڑ کوششوں سے محاذوں پر پہنچائے جاتے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سول ڈیفنس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور خون دینے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرتے۔ عام شہریوں میں ڈسپلن قابلِ دید اور حددرجہ قابلِ رشک تھا۔ ہر نوع کے جرائم بالکل ختم ہو گئے تھے اور پورے معاشرے میں مثالی امن قائم ہو چکا تھا۔ غیرملکی صحافی آتے، تو پاکستانی شہریوں میں نظم و ضبط اور ان کی بلند حوصلگی پر عش عش کر اٹھتے۔ شہریانِ لاہور کی بے خوفی کا عالم یہ تھا کہ وہ پاکستانی ہوا بازوں کی دشمن طیاروں کے ساتھ ڈاگ فائٹ کا چھتوں سے نظارہ کرتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ عوام کا حوصلہ بلند رکھنے میں گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کسی پروٹوکول کے بغیر لاہور شہر میں گھومتے پھرتے اور مغربی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی چکر لگاتے تھے۔
دراصل جنگِ ستمبر کے دوران ہماری تاریخ اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان میں اتر آئی تھی اور اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کے باعث جنگِ بدر کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ اِس معرکہ آرائی نے قوم کی سوئی ہوئی صلاحیتوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی شاعری اور نیا ادب وجود میں آیا جس میں پاکستانی قومیت اور اس کی اسلامی شناخت اولین حیثیت اختیار کر گئی۔ چوٹی کے ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دانش وروں نے افواجِ پاکستان کی سرفروشی اور عوام کی ایثارکیشی کے گیت گائے اور وطن پر قربان ہونے کا جذبہ داخلی شعور کے ساتھ بیدار کیا۔ اِس بیش بہا تخلیقی عمل میں ہر مکتبہ فکر کے اہلِ قلم اور شاعر شامل رہے۔ جناب صفدر میر جو 'زینو' کے قلمی نام سے لکھتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ناقد سمجھے جاتے تھے، انہوں نے پہلا ترانہ چلو چلو واہگہ چلو لکھا جو اسی وقت آن ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ۔
اِس ترانے کے بعد ملی نغموں کی رِم جھم شروع ہو گئی۔ فیض احمد فیض، جمیل الدین عالی، صوفی غلام مصطفی تبسم، جسٹس ایس اے رحمن، احمد فراز، ناصر کاظمی، احسان دانش، مجید امجد، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، منیر نیازی، ادا جعفری، قیوم نظر، ابنِ انشا، نعیم صدیقی، سید ضمیر جعفری، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، طفیل ہوشیارپوری اور ظہیر کاشمیری کے نغمے، ترانے اور گیت ہماری فوج اور ہمارے عوام کے فقید المثال جذبوں اور سرفروشیوں کی آبیاری کرتے رہے۔ اِس ناگہانی جنگ کے دوران حیرت انگیز روحانی، اخلاقی، فکری اور عملی یک جہتی کے جو نایاب تجربے ہوئے، انہیں ڈاکٹر حسن فاروقی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، سلیم احمد، شاہد احمد دہلوی، خدیجہ مستور، نسیم حجازی، حجاب امتیاز علی، اختر جمال، مسعود مفتی اور جیلانی بی اے نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا اور جوانوں کو ایک نئی منزل کا سراغ دیا۔
اِس ضمن میں یہ امر بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے بلند پایہ اہلِ دانش اور اہلِ قلم نے اپنی تحریروں میں عوام اور فوج کے مابین قائم ہونے والے ہم آہنگی کے رشتوں کو لازوال بنا دیا۔ آج ان تحریروں سے اکتسابِ فیض کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ ان عظیم جذبوں سے قوم کے اندر کامل یک جہتی، گہری مفاہمت اور مستقل ایثارکیشی کی روح تروتازہ رہے۔ ان اعلیٰ جذبوں کو ہماری قومی نفسیات میں راسخ کرنے کا عظیم کارنامہ الطاف گوہر، ملا واحدی، مدیرِ نقوش محمد طفیل، سید وقار عظیم، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، ڈاکٹر وزیر آغا، حفیظ الرحمن احسن اور مختار صدیقی نے سرانجام دیا تھا۔
ہمیں ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کی عظیم الشان خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے جن کی سحرآفریں آواز نے ہمارے فوجیوں میں وطن کی آن پر نچھاور ہونے کا ولولہ زندہ اور تابندہ رکھا۔ ہمیں یہ داستانِ حریت باربار دہرانا اور گاہے گاہے ملی نغمے نشر کرتے رہنا چاہئے کہ جنگِ ستمبر نے ہمیں جن غیرمعمولی کیفیات سے روشناس کیا تھا، ان کے مثبت اثرات زائل نہ ہونے پائیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ بھارت نے ہم پر یہ جنگ اِس لئے مسلط کی تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بین الاقوامی قانون کے عین مطابق بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد ہونے کی کوشش کی تھی۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلامی کی زنجیروں اور ان کی جاں گسل آزمائشوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دراصل تقسیمِ ہند کا ایجنڈا ابھی تک تشنۂ تکمیل ہے۔ اِس کی تکمیل کے لئے ہمیں ضربِ کلیمی سے کام لینا ہو گا۔ شاعرِ مشرق حضرتِ اقبال نے فرمایا تھا
ع عصا نہ ہو تو کارِ کلیمی ہے بے بنیاد
عصرِحاضر میں عصا کی شکلیں تبدیل ہو گئی ہیں، چنانچہ اِس بنا پر اہلِ دانش کو انہیں دریافت کرتے رہنا چاہئے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آئی ایس پی آر ہر سال ایک نیا حیات آفریں نغمہ ترتیب دیتا ہے جو قوم کی غیرت کو مہمیز لگاتا اور قوتِ ایمانی میں بے انتہا اضافہ کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اندر تحریکِ مزاحمت میں ایک نیا جوش ابھارتا ہے۔ ||
مضمون نگار سینئر صحافی و کالم نویس ہیں۔
[email protected]
تبصرے