اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 22:19
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے
Advertisements

الطاف حسن قریشی

مضمون نگار سینئر صحافی و کالم نویس ہیں۔ [email protected]

Advertisements

ہلال اردو

جنگِ ستمبرکی انمٹ اور روح پَرور یادیں

ستمبر 2020

جب پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ دفاعِ وطن میں سینہ سپر تھی
میں نے جنوری  میں جنگِ ستمبر کی یادیں کے عنوان سے کتاب مرتب کی جس کا بنیادی مقصد اپنی نئی نسل کو اس روح پرور فضا میں لے جانا تھا جس میں پاکستان کی مسلح افواج نے عوام کی بے پایاں حمایت سے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیئے تھے جس کے باعث اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی تھی۔1965  کی سترہ روزہ جنگ میں ہماری افواج کا جو عظیم جذبہ جہاد اور عوام اور فوج کے مابین اعتماد اور جاں نثاری کے جو گہرے رشتے اور قومی یک جہتی کی جو ایمان پرور کیفیتیں ابھر کر سامنے آئی تھیں، وہ آج بھی ہمارے اندر ایک نئی امنگ، ایک نیا عزم اور اپنے روشن مستقبل پر ایک عظیم الشان سطوتِ اعتبار پیدا کرتی ہیں۔ مجھے چھمب جوڑیاں سے لے کر کھیم کرن اور چونڈہ سے مونا باو ٔتک ہر محاذ پر جانے اور افواجِ پاکستان کا دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے اور عوام کے اپنی افواج پر اپنی جانیں چھڑکنے کے ناقابلِ یقین واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور معتبر شاہدین سے سننے کے ان گنت مواقع ملے۔ انہیں میں ضبطِ تحریر میں لاتا رہا جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں تفصیل سے شائع ہوتے رہے۔



6 ستمبر کو دن کے گیارہ بجے صدرِپاکستان فیلڈمارشل ایوب خان نے اردو میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں لا الہ الا اللہ کی صدا گونج رہی ہے، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نہیں کر دی جاتیں۔ یہ تقریر سنتے ہی پورا ملک نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا اور لوگوں کے اندربے پناہ جوش اور ولولے کی ایک برقی رو دوڑ گئی۔ لاہور کے نوجوان اپنی فوج کی مدد کے لئے واہگہ بارڈر کی طرف دوڑے اور قصور کی طرف پیش قدمی کرنے والے نوجوان قافلوں کی تعداد لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ریڈیو پاکستان پر خبریں نشر ہو رہی تھیں کہ دشمن بیک وقت واہگہ اور قصور پر حملہ آور ہوا ہے۔ سول ڈیفنس سے وابستہ تربیت یافتہ جوان حرکت میں آ گئے اور شہریوں کو نظم و ضبط میں ڈھالتے گئے۔ اِس سے قبل کوئی دس بجے کے قریب پورا لاہور ایک ہولناک دھماکے سے لرز اٹھا تھا جس سے وقتی طور پر خوف و ہراس پھیلا اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ حسنِ اتفاق سے کوئی پندرہ بیس منٹ بعد مجھے ایک دوست کا فون آیا جو چند ماہ پہلے تک پاکستان ایئرفورس سے وابستہ تھے۔ اس نے بتایا کہ ہمارے جنگی طیارے نے ایئرہائیٹس (Sound Barriers)کی حدیں عبور کی تھیں جس سے زوردار دھماکہ ہوا، چنانچہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔ اہلِ محلہ دھماکے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں جمع ہو گئے تھے جو سمن آباد میں واقع تھا۔ جب انہیں حقیقت کا علم ہوا، تو وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی عملی تدابیر کا جائزہ لینے لگے۔
ریڈیو پاکستان کے ذریعے معلوم ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں نے صدر ایوب خاں کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے پورے تعاون کا یقین دلایا ہے اور ان کے مابین ملاقات طے پا گئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام سیاسی اختلافات کافور ہوتے گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کا جذبہ بے اختیار ہر سو جلوہ گرہوگیا۔ خبریں آ رہی تھیں کہ ہمارے جنگی طیارے دشمن پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے اور ہماری آرٹلری بڑی مہارت سے دشمن کے ٹینک تباہ کرتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں دشمن فوج کی پیش قدمی رک گئی ہے اور اسے بی آر بی نہر سے پرے روک دیا گیا ہے۔ ہماری فوج میں افسروں سے لے کر جوانوں تک ناقابلِ شکست جذبوں سے سرشار تھے اور سردھڑ کی بازی لگا کر شجاعت و ایثار کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ افواجِ پاکستان جو بھارتی افواج کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم تھیں، انہوں نے شوقِ شہادت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت کی بدولت ہر مقام پر دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چونڈہ میں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا تھا، کھیم کرن، سلیمانکی ہیڈورکس اور مونا باؤ کے محاذوں پر پیش قدمی کی اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
دوسرا اِیقان افروز اور دل نشین منظر یہ تھا کہ عوام زندگی کے ہر موڑ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ غیرمعمولی استقامت کے ساتھ کھڑے تھے۔ جن جن شہروں اور قصبوں کے قریب سے فوجی قافلے گزرتے وہاں وہاں بچے، جوان اور بوڑھے ان پر گل پاشی کرتے اور ان کے آگے کھانے پینے کی اشیا کے ڈھیر لگا دیتے۔ خواتین گھروں میں فوجیوں کے لئے تحائف کے پیکٹس تیار کرتیں جو کمال شوق اور سرتوڑ کوششوں سے محاذوں پر پہنچائے جاتے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سول ڈیفنس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور خون دینے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرتے۔ عام شہریوں میں ڈسپلن قابلِ دید اور حددرجہ قابلِ رشک تھا۔ ہر نوع کے جرائم بالکل ختم ہو گئے تھے اور پورے معاشرے میں مثالی امن قائم ہو چکا تھا۔ غیرملکی صحافی آتے، تو پاکستانی شہریوں میں نظم و ضبط اور ان کی بلند حوصلگی پر عش عش کر اٹھتے۔ شہریانِ لاہور کی بے خوفی کا عالم یہ تھا کہ وہ پاکستانی ہوا بازوں کی دشمن طیاروں کے ساتھ ڈاگ فائٹ کا چھتوں سے نظارہ کرتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ عوام کا حوصلہ بلند رکھنے میں گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کسی پروٹوکول کے بغیر لاہور شہر میں گھومتے پھرتے اور مغربی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی چکر لگاتے تھے۔
دراصل جنگِ ستمبر کے دوران ہماری تاریخ اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان میں اتر آئی تھی اور اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کے باعث جنگِ بدر کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ اِس معرکہ آرائی نے قوم کی سوئی ہوئی صلاحیتوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی شاعری اور نیا ادب وجود میں آیا جس میں پاکستانی قومیت اور اس کی اسلامی شناخت اولین حیثیت اختیار کر گئی۔ چوٹی کے ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دانش وروں نے افواجِ پاکستان کی سرفروشی اور عوام کی ایثارکیشی کے گیت گائے اور وطن پر قربان ہونے کا جذبہ داخلی شعور کے ساتھ بیدار کیا۔ اِس بیش بہا تخلیقی عمل میں ہر مکتبہ فکر کے اہلِ قلم اور شاعر شامل رہے۔ جناب صفدر میر جو   'زینو' کے قلمی نام سے لکھتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ناقد سمجھے جاتے تھے، انہوں نے پہلا ترانہ چلو چلو واہگہ چلو لکھا جو اسی وقت آن ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ۔
اِس ترانے کے بعد ملی نغموں کی رِم جھم شروع ہو گئی۔ فیض احمد فیض، جمیل الدین عالی، صوفی غلام مصطفی تبسم، جسٹس ایس اے رحمن، احمد فراز، ناصر کاظمی، احسان دانش، مجید امجد، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، منیر نیازی، ادا جعفری، قیوم نظر، ابنِ انشا، نعیم صدیقی، سید ضمیر جعفری، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، طفیل ہوشیارپوری اور ظہیر کاشمیری کے نغمے، ترانے اور گیت ہماری فوج اور ہمارے عوام کے فقید المثال جذبوں اور سرفروشیوں کی آبیاری کرتے رہے۔ اِس ناگہانی جنگ کے دوران حیرت انگیز روحانی، اخلاقی، فکری اور عملی یک جہتی کے جو نایاب تجربے ہوئے، انہیں ڈاکٹر حسن فاروقی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، سلیم احمد، شاہد احمد دہلوی، خدیجہ مستور، نسیم حجازی، حجاب امتیاز علی، اختر جمال، مسعود مفتی اور جیلانی بی اے نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا اور جوانوں کو ایک نئی منزل کا سراغ دیا۔
اِس ضمن میں یہ امر بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے بلند پایہ اہلِ دانش اور اہلِ قلم نے اپنی تحریروں میں عوام اور فوج کے مابین قائم ہونے والے ہم آہنگی کے رشتوں کو لازوال بنا دیا۔ آج ان تحریروں سے اکتسابِ فیض کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ ان عظیم جذبوں سے قوم کے اندر کامل یک جہتی، گہری مفاہمت اور مستقل ایثارکیشی کی روح تروتازہ رہے۔ ان اعلیٰ جذبوں کو ہماری قومی نفسیات میں راسخ کرنے کا عظیم کارنامہ الطاف گوہر، ملا واحدی، مدیرِ نقوش محمد طفیل، سید وقار عظیم، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، ڈاکٹر وزیر آغا، حفیظ الرحمن احسن اور مختار صدیقی نے سرانجام دیا تھا۔
ہمیں ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کی عظیم الشان خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے جن کی سحرآفریں آواز نے ہمارے فوجیوں میں وطن کی آن پر نچھاور ہونے کا ولولہ زندہ اور تابندہ رکھا۔ ہمیں یہ داستانِ حریت باربار دہرانا اور گاہے گاہے ملی نغمے نشر کرتے رہنا چاہئے کہ جنگِ ستمبر نے ہمیں جن غیرمعمولی کیفیات سے روشناس کیا تھا، ان کے مثبت اثرات زائل نہ ہونے پائیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ بھارت نے ہم پر یہ جنگ اِس لئے مسلط کی تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بین الاقوامی قانون کے عین مطابق بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد ہونے کی کوشش کی تھی۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلامی کی زنجیروں اور ان کی جاں گسل آزمائشوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دراصل تقسیمِ ہند کا ایجنڈا ابھی تک تشنۂ تکمیل ہے۔ اِس کی تکمیل کے لئے ہمیں ضربِ کلیمی سے کام لینا ہو گا۔ شاعرِ مشرق حضرتِ اقبال نے فرمایا تھا   
ع  عصا نہ ہو تو کارِ کلیمی ہے بے بنیاد
 عصرِحاضر میں عصا کی شکلیں تبدیل ہو گئی ہیں، چنانچہ اِس بنا پر اہلِ دانش کو انہیں دریافت کرتے رہنا چاہئے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آئی ایس پی آر ہر سال ایک نیا حیات آفریں نغمہ ترتیب دیتا ہے جو قوم کی غیرت کو مہمیز لگاتا اور قوتِ ایمانی میں بے انتہا اضافہ کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اندر تحریکِ مزاحمت میں ایک نیا جوش ابھارتا ہے۔ ||


مضمون نگار سینئر صحافی و کالم نویس ہیں۔
[email protected]
 

الطاف حسن قریشی

مضمون نگار سینئر صحافی و کالم نویس ہیں۔ [email protected]

Advertisements