کشمیر جل رہا ہے، نریندر مودی کا بھیانک چہرہ مظلوم کشمیریوں کے خون سے لہو لہان ہے، فطرت کی حسین وادیوں میں پھولوں کی خوشبوؤں کے بجائے باردو کی بدبو پھیلتی جا رہی ہے۔ خواتین کی عصمت دری،بچوں کا قتل عام اور بوڑھوں کی سسکیاں اب عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔کشمیر کے درو دیوار چیخ چیخ کر اپنے غم کا احساس دلا رہے ہیں اگر خاموش ہے تو عالمی ضمیر۔ظلم پر قہقہے ہیں تو نریندر مودی کے حواریوں کے جو ہر ظلم کو جائز اور ہر ناجائز دستور کو اپنا قانون سمجھتے ہیں۔مودی طاقت کے نشے میں دھت اپنے ظالمانہ اقدامات کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔اس وقت کشمیر کے لالہ زاروں میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ وہاں کے مکینوں سے بزور طاقت حق خودارادیت اور اظہار رائے کی آزادی چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے۔کئی دنوں سے بدترین کرفیونافذ ہے۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار کا کوئی اندازہ نہیں۔انسانی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور گل پوش وادیوں کے باسی بھارتی ہتھیاروں کے وار اور خطرناک گیسوں سے ان گنت موذی امراض کا شکار ہو کر زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں مگر ان حریت پسندوں کے جذبوں اور عزم میں اب تک کوئی لرزش نہیں آئی ہے۔لاکھوں آزادی پسند سری نگر کے چوک چوراہوں پرجمع ہو کر پاکستان کے پرچم تلے''کشمیر بنے گا پاکستان''کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں تو کھا رہے ہیں مگر ہندو بنیوں کے دلوں اور سماعتوں پر لفظ ''پاکستان''کا بم بھی گرا رہے ہیں ایسے میں پاکستانیوں کی بھر پور ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سفارتی اور اخلاقی حمایت کے لئے آگے بڑھیں اور بھارت کو ہر محاذ پر پسپائی سے دو چار کرتے ہوئے کشمیر کا مقدمہ بھر پور انداز میں لڑیں۔اس وقت پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مقدمے کی جنگ مؤثر دکھائی دے رہی ہے، اس کا عملی مظہر مسئلہ کشمیر پر عشروں بعد سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنا ہے۔سکیورٹی کونسل کا اجلاس مثبت پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ وزیرِاعظم عمران خان کا حالیہ دورئہ امریکہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اب اقوام متحدہ و دیگر عالمی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے انسانی بنیادوں پر نریندر مودی سے غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کریں۔ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کا خاتمہ کشمیر پر موجود اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے برعکس ہے۔
بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام پر پاکستان بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بھارتی جارحیت کو مسترد کیا گیا۔گلگت بلتستان کے تمام 14 اضلاع میں ریلیاں نکالی گئیں جب کہ 14 اگست جشن آزادی کو کشمیریوں سے یکجہتی کے طور پر منایا گیا۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے احکامات کی روشنی میں 15 اگست کو یوم سیاہ منایا گیا۔جگہ جگہ لاکھوں لوگوں نے نریندر مودی کا پتلا نذر آتش کیا اور بھارتی جارحیت کے خلاف اور کشمیریوں کی ہمدردی میں فلک شگاف نعرے بھی لگائے۔ اسی طرح یومِ دفاع کے موقع پر بھی گلگت بلتستان کے عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔ الغرض یہاں کے عوام ہر قومی تہوار اور اہم مواقع پر وطنِ عزیز کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کی وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان بھی تنازعہ کشمیر کی ایک اکائی ہے اور مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے پاکستان نے انہی عالمی قراردادوںکے احترام میں گلگت بلتستان کو ہنور اپنے آئین کا حصہ نہیں بنایاجبکہ بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر اور لداخ کی خصوصی حیثیت بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بدل دی جو کہ افسوسناک ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا مظلوم کشمیریوں کے حق میں ریلیاں اور جلسے نیک شگون ہیں اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بھارت کو سبق سکھانے کے لئے قومی سطح پر 'اتحاد و اتفاق' یعنی ایک ہی بیانیہ تشکیل دیا جائے، قومیتوں اور مسلکی خول سے باہر نکل کر عالمی دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اور ایمانی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ دشمن کی گولی یہ نہیں دیکھتی کہ ہم کس قوم، کس مسلک اور کس علاقے سے ہیں بلکہ وہ تو ہمیں بلاتفریق چیر پھاڑ کر نکلتی ہے۔ اس نازک مرحلے میں قومی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کسی بھی ناگہانی وقت کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ شاطر دشمن کی چالیں گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہیں اور نریندر مودی کے منصوبے مرحلہ وار ہیں ایسے میں ہماری حکومت اور فوج کے لئے بھی سپیریئر بیانیہ اور منصوبے تیار کرنا ناگزیر ہے۔
تبصرے