کرنل مجیب شہید کے حوالے سے اُن کے والدگرامی میرافضل خان، بھائیوں اور بیٹے سے فیض ﷲ فراق کی گفتگو
گلگت بلتستان کے بلند بالا پہاڑوں کی طرح یہاں کے مکینوں کے حوصلے بھی اونچے ہیں۔ جس قدر سرکشی یہاں کے کوہ قراقرم میںہے اس سے زیادہ دلیری یہاں کے لالک جان شہید اور میجر وہاب شہیدنے دکھائی ہے۔کوہ ہندوکش بھی اس خطے کی جرأت و بہادری کی دلیل ہے توسلسلہ ہمالیہ اپنی رفعتوں کی بدولت علامہ اقبال کی شاعری کا انمٹ استعارہ بن جاتا ہے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ تینوں پہاڑی سلسلے جس سنگم پر آکر یکجا ہوتے ہیں وہاں دریائے سندھ کی موجیں جہاں انڈس تہذیب کی روایت کو آگے بڑھاتی ہیں وہاں ان موجوں کے ظاہر و باطن کا جلال دھرتی گلگت بلتستان کی رگوں میں موجودمخلصی، دریا دلی اور دیانت کو آشکار کرتا ہے۔ پریوں کا دیس دیامر ہو یا جھیلوں کی ملکہ غذر،لینڈ آف جیولز کے روپ میں ہنزہ ہو یا امن کی زمین بلتستان یہاں کا چپہ چپہ شہدا کے لہو سے سیراب ہے ۔ یہاں کی قبروں پر سبز ہلالی پرچم یقین کو مزید تقویت اور ایمان کے جذبے کو پختہ کرتا ہے۔
انہوں نے جواب دیا کہ کرنل مجیب شہید کی شہادت کی خبر میرے بڑے بیٹے کرنل حبیب الرحمن نے بذریعہ فون مجھے دی تھی۔ میرا بڑا بیٹا خبر دیتے ہوئے جذبات پرقابو نہیں پا سکا تھا مگر میں نے خبر سنتے ہی جائے نماز بچھا کر دورکعت نماز نفل پڑھی اورا للہ کے فیصلے کواللہ پر چھوڑتے ہوئے صبر و شکر کادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک دلیر بیٹے کی جدائی یقینا ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے
گلگت بلتستان کے کڑیل،نوجوان اور خوبرو افسران کی ناقابل فراموش قربانیاں نہ صرف یہاں کے لوگوں کے لئے قابل فخر ہیں بلکہ پورے ملک کے ان نوجوانوں کے لئے بھی مشعل راہ ہیں جو دفاع وطن اور شہادت کے جذبے سے لبریز ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان (ٹانک)کے مقام پر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا تعاقب کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے علاقہ بونجی کے سپوت کرنل مجیب الرحمن نے اپنی جان مٹی کے حوالے کر کے دھرتی کاقرض اتارا۔ شہید کرنل مجیب الرحمن گلگت بلتستان کی معتبر شخصیت سابقڈی آئی جی پولیس میر افضل خان کے فرزند تھے۔ شہید کے دواور بھائی کرنل حبیب الرحمن خان اور میجر تہذیب بھی پاک فوج سے وابستہ ہیں۔ شہید نے اپنے پسماندگان میں بیوی،ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔ ماہنامہ ہلال کے لئے شہید کے گھر والوں سے خصوصی گفتگو پیش خدمت ہے۔
شہید کے والدِ گرامی سے میں نے پوچھا کہ کرنل مجیب شہید کی موت کی خبر کس نے اور کب دی تھی؟
انہوں نے جواب دیا کہ کرنل مجیب شہید کی شہادت کی خبر میرے بڑے بیٹے کرنل حبیب الرحمن نے بذریعہ فون مجھے دی تھی۔ میرا بڑا بیٹا خبر دیتے ہوئے جذبات پرقابو نہیں پا سکا تھا مگر میں نے خبر سنتے ہی جائے نماز بچھا کر دورکعت نماز نفل پڑھی اورا للہ کے فیصلے کواللہ پر چھوڑتے ہوئے صبر و شکر کادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک دلیر بیٹے کی جدائی یقینا ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے ملک کے دفاع میںاپنی جان قربان کی اور شہادت کا رتبہ پایا۔ا للہ ایسی موت کم لوگوں کو نصیب کرتا ہے۔ میرا بیٹا مرا نہیں بلکہ دنیا اور اخرت میں امر ہو گیاہے۔
میرے اس سوال پر کہ آپ خود بھی ایک پولیس سے ریٹائرڈ افسر ہیں اور تین بیٹوں کو بھی فوج میں بھرتی کرایا۔ وردی سے وابستگی کا شوق گھر میں کیسے پیدا ہوا؟ انہوں نے بتایا میرے اندر بچپن سے ہی ملک کے دفاع کا جذبہ تھا۔ 1947 کے انقلاب گلگت کے وقت میں بہت چھوٹا تھا مگر ڈوگرہ کے خلاف لڑنے کا ارمان دل میں موجزن تھا۔ جب ہم گلگت میں پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے اس وقت گلگت سکاوٹس کی پریڈ صبح کے وقت دیواروں سے جھانک کر دیکھتے تھے۔ کاندھے پرپھول سجا کر وطن کی خدمت کا شوق اس زمانے سے تھا اس لئے میں نے خود بھی دو دفعہ پاک آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کا ٹیسٹ دیا مگر دونوںبار ناکامی ہوئی، لیکن بعد ازاں بیٹوں نے میرا ارمان پورا کیا۔ خاص طورپر کرنل مجیب شہید نے۔ مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔ اس نے اپنا آج ملک کے کل پر قربان کیا ہے۔ کرنل مجیب نے میرے خاندان کو شناخت کی نئی جہت عطا کی ہے۔ میں ایک شہید کا باپ بن چکا ہوں اور میرا بیٹا زندہ ہے بس صرف آنکھوں سے اوجھل ہے۔
کرنل مجیب الرحمن شہید کی بچپن کی یادوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کرنل مجیب شہید بچپن سے دلیر انسان تھے۔ فٹ بال کرکٹ وغیرہ شوق سے کھیلتے تھے اور پاک فوج میںشمولیت بھی صرف دشمن کے خلاف لڑنے کے لئے کی تھی کیونکہ جب کرنل مجیب الرحمن شہید پی ایم اے کاکول سے پاس آؤٹ ہوئے اور ان کی پوسٹگ آرمی سروسز کور میں ہوئی بعد میں اُس نے انفنٹری جوائن کرلی۔
میرے اس سوال پر کہ کرنل مجیب کی شہادت پر جہاں گلگت بلتستان اور پورے پاکستان کی قوم نے عظیم قربانی پر خراج تحسین پیش کیا ہے وہاں پر پاک فوج نے بھی آپ کو دلاسہ دیا ہے اس حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ انہوں نے کہامیں سب سے پہلے پاک فوج کو سلام پیش کرتا ہوں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خود مجھے فون کیا اور بیٹے کی شہادت پر نہ صرف تعزیت کی بلکہ مجھے بے پناہ حوصلہ بھی فراہم کیا۔ آرمی چیف میرے بیٹے کی عظیم قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میرے غم میں برابر شریک ہوئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ '' ہم ہوں یا نہ ہوں پاکستان سلامت رہے گا، قائم و دائم رہے گا اور کرنل مجیب شہید کا نام قیامت تک وطن کی سلامتی کے ساتھ زندہ رہے گا۔'' اس کے علاوہ ملک بھر سے ان گنت اعلیٰ عسکری وسول قیادت وزیراعظم پاکستان، حکومت گلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کے کونے کونے سے ہزاروں افراد نے رنگ، نسل ، ذات پات کی تفریق کے بغیر ہمیں دلاسہ دیا۔
گلگت بلتستان اور پورے پاکستان کے جوانوں کو کیا پیغام دینا پسند فرمائیں گے؟ میرے اس سوال پر وہ گویا ہوئے۔ گلگت بلتستان کے لوگ ملک کے سر کے تاج ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے ہر دور میں ملکی دفاع اپنے خون کی سرخی سے کیا ہے۔ جب بھی دھرتی کو کسی کے لہو کی ضرورت پڑی ہے میری دھرتی کے سپوتوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اپنے تمام نوجوانوںکو یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ وہ تمام تر تفرقات سے باہر نکل کر آگے بڑھیں اور کرنل مجیب الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قابل تقلید مثالیں بن جائیں ۔
کرنل حبیب الرحمن(شہید کے بڑے بھائی) سے میں نے پوچھا کہ آپ چھوٹے بھائی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا کہ کرنل مجیب مجھ سے عمر میں 8 برس چھوٹے تھے اور سروس میں بھی 7 یا 8 سال جونئیر تھے مگر آج وہ بہت بڑا ہوگیا ہے اتنا بڑا کہ اب میںشہید کامقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔ شہید ہمارا فخر ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم پاک فوج جیسے عظیم ادارے سے منسلک ہیں۔ بھائی کی شہادت نے ہمیںقابل شناخت بنایا دیا ہے۔ ہمارے گاؤں بونجی کے بے شمار فوجی افسران ہیں مگر شہادت کا رتبہ اس گاؤں کے ایک ہی خوش قسمت کو نصیب ہوا ہے وہ کرنل مجیب الرحمن شہید ہیں۔
شہید کے دوسرے بھائی میجر تہذیب نے اپنے بھائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہمیشہ آگے رہتے تھے اور شہادت کا جذبہ لے کر آگے بڑھتے تھے۔ وہ مرنے کے لئے جیتے تھے اور جینے کے لئے مرے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ آج لوگ ہمیں شہید کا بھائی کہتے ہیں اور اس بات پر زیادہ خوشی ہے کہ میرے بھائی کے نام کے ساتھ مرحوم نہیں بلکہ شہید لکھا جائے گا۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے شہادت کی تلاش میں ہوں مگر نصیب میں نہیں ہے۔
عتیق الرحمن شہید کا جڑواں بھائی ہے انہوں نے اپنے بھائی سے تعلق کے حوالے سے کہا جب میں نے اپنے بھائی کی شہادت کا سنا تو مجھے ایک لمحے کے لئے ایسا لگا کہ میری دنیا اجڑ گئی ہے مگر دوسرا لمحہ پھر صبر کا آتا ہے کیونکہ میرے بھائی تو شہید ہوئے ہیں۔ میرابھائی دلیری کا استعارہ تھا۔ میری ان سے خاص قسم کی محبت تھی، جڑواں ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے بچپن میں لڑتے بھی تھے۔
شہید کا 11 سالہ بیٹامصطفی افضل خان سے میں نے پوچھاآپ کے اس جملے نے جو کمانڈنگ افسر سے کہا تھا ''انکل میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو مت بتانا کہ ابو کوکچھ ہوا ہے''نے جہاں پوری دنیا کو اداس کر دیا وہاں نوجوان نسل کو دلیری اور حوصلے کا پیغام بھی دیا ہے اس پر آپ کیا کہنا چاہو گے؟ کے جواب میں وہ کہنے لگا
میرے شہید ابو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ دشمن کے خلاف اکھٹے لڑیں گے مگر ابو اکیلے شہید ہوئے، جس پر میں ابو کی میت سے لپٹ کرروتا رہا اور ابو سے کہا کہ مجھ سے چیٹنگ کیوں کی ؟میں ابو کا بدلہ لے کر چھوڑوں گا۔ میں بڑے ہو کر پاک فوج میں جاؤں گا اور ان بدبختوں کا پیچھا کروں گا جو میری دھرتی کو خون آلود کرناچاہتے ہیں، جو میرے وطن کی جڑوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ پھر کمانڈنگ افسر کو اس لئے کہا کہ بہن بھائیوں کو مت بتانا کیونکہ وہ چھوٹے ہیں پریشان ہو جائیں گے۔
[email protected]
تبصرے