کووڈ 19- کے بارے میںایک خیال یہ بھی ذہن میں تھا کہ کسی بہت بڑے سرمایہ کار نے یہ وائرس انسانوں کو اپنے بس میںکرنے کے لئے چھوڑا ہے، اپنی کسی چِپ کے چکر میں۔ ان حضرات کو یہ بھی یقین تھا کہ اگر یہ ناہنجار وائرس ہمارے ہاں وارد ہو بھی گیا تو دار چینی، ادرک، لہسن اور ثناء مکی کے گرم قہوے سے اس کی وہ ٹکور ہوگی کہ اسے رفو چکر ہونا ہی پڑے گا۔ مگر اب تک جو ہوا وہ اس کے بالکل الٹ ہوا۔ اب کچھ دنوں سے لوگ ان پیشین گوؤں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو بار بار انہیں یہ یقین دلا رہے تھے کہ یہ سال اچھا ہے !
ان پر ہی کیا موقوف، ہمارے ہاں کے وزیر مشیر اور ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن جیسے دنیا کے معتبر ترین ادارے مصر تھے کہ اس سال بھی گلوبلائزیشن اور گلوبل اکانومی میں اضافہ ہوگا۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ووہان شہر میں دریافت ہوئے وائرس کا جادو اس قدر اور اس انداز میں دنیا کے سر چڑھ کر بولا ہے کہ سب ٹھاٹھ پڑا چوٹیں سہلا رہا ہے ، بلکہ ایک زمانہ اس کے دوسرے فیز کے شروع ہونے کے ڈر سے کانپ بھی رہا ہے۔
دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد اب ایک کروڑ کے لگ بھگ اور جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد لاکھوں میںہے۔ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں کووڈ19 پہنچ چکا ہے، دکھائی نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے پوری دنیا کی اکانومی اور معاشرت میں وہ وہ تبدیلیاں دکھائی دی ہیں جن کے بارے میں بڑے سے بڑے فکشن رائٹرز نے بھی یوں نہیں سوچا ہوگا۔
دور کیا جانا، کس کے گمان میں ہوگا کہ اپنے ملک میں جون کے مہینے میں درجنوں شہروں میں جزوی لاک ڈائون ہوگا۔ معیشت کا حال یہ کہ ابھی چند مہینے قبل تک اس سال جی ڈی پی کی شرح نمو تین فیصد کے لگ بھگ کی توقع تھی مگر کووڈ 19 کی آمد نے سب بدل کر رکھ دیا۔ بجٹ سے قبل پاکستان اکنامک سروے آف پاکستان کا اعلان کرتے ہوئے مشیرِ خزانہ نے بتلایا کہ سال 2020 جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو منفی 0.38% رہی۔ کووڈ 19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید کساد بازاری نے ایک اندازے کے مطابق 18 ملین افراد کو بے روزگاری کے چنگل میں دھکیل دیا۔ تمام صوبوں میں لاک ڈائون کے بعد معاشی سرگرمیاں مرحلہ وار شروع ہوئی تو ہیں مگر کرونا کے پھیلائو نے جگہ جگہ ہاٹ سپاٹ بنا لئے ہیں۔
ایسے میں حکومت نے بارہ سو ارب روپے کا امدادی پیکیج دے کر شدید متاثرین عوام اور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ سٹیٹ بنک نے مارک اپ کی شرح میں کمی ، قرضوں کی واپسی میں چھوٹ ، تین ماہ کی تنخواہوں کے لئے رعایتی قرض سمیت بہت سے اقدامات سے معیشت کو فوری سہارا دینے کے اقدامات کئے۔ معیشت جون میں کچھ سنبھلی ہے مگر دنیا بھر میں جاری شدیدکساد بازاری کے ماحول میں اگلی ششماہی تک اقتصادی حالات پر مندی کے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔
اس نادیدہ وائرس نے گلوبل اکانومی کو وہ زخم لگائے ہیں کہ ماہرین ان زخموں کا تقابل 1930 کی مہیب کساد بازاری سے کر رہے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے گلوبلائزیشن میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ دنیا میں تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت کے میدان میں حیران کن وسعت اور تیزی آئی ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک لیپ ٹاپ اور اڑھائی تین سو گرام کے موبائل فون میں سمو دیا۔ ٹیکنالوجی نے پیداوار، سفر اور کام کے انداز ہی بدل ڈالے۔ گلوبلائزیشن کے اس انقلاب کے بعد حضرت انسان اب مزید قلانچیں بھرنے کی دھن میں تھا کہ یہ نادیدہ وائرس کووڈ 19نازل ہوا ۔ ایک ہی وار میں گلوبلائزیشن کو ایسا کاری وار لگا ہے کہ اب ہر کوئی اپنی پیشین گوئی پر مصر ہے کہ دنیا پھر کبھی بھی ویسی نہ ہو سکے گی یعنی The world would never be the same again !
جون کے دوسرے ہفتے میں جاری ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق رواں سال میں دنیا کی اقتصادی ترقی کی شرح سکڑ کر منفی 5.7% رہنے کی توقع ہے۔ اس شدید سکڑائو کے نتیجے میں فی کس آمدنی میں 1870 کے بعد یہ سب سے بھاری کمی ہو گی۔ کووڈ 19 کا زور اگر طول پکڑ گیا تو دنیا کی اقتصادی ترقی کی شرح میں منفی آٹھ فی صد تک کمی ہو سکتی ہے۔
دنیا کے معروف ترین کنسلٹنگ ادارے میکنزی کے مطابق دنیا بھر کی حکومتوں نے اپنی اپنی اکانومی کو سہارا دینے ، کاروبار کا پہیہ رواں رکھنے ، لوگوں کے روزگار قائم رکھنے اور ان کی آمدنی کے اسباب کے لئے 13 ٹریلین ڈالرز جھونک ڈالے ہیں ۔ حالات نے مجبور کیا تو حکومتیں کئی ہزار ارب ڈالرز مزید خرچ کرنے پر مجبور ہوں گی۔ میکنزی کے اندازے کے مطابق اگر یہ نادیدہ وائرس حسبِ توقع ایک دو سہ ماہی کے بعد قابو میں آ بھی گیا تو بھی دنیا بھر کی حکومتوں کے جھولی میں 2023 تک کے لئے 30 ٹریلین ڈالرز خسارے کے برابرچھید چھوڑ جائے گا۔
گلوبل اکانومی کا پہیہ تجارت اور سرمایہ کاری کے زور پر گھومتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اشیاء کی تجارت یعنی Merchandize Trade میں 13-32% کمی متوقع ہے۔ اگر کووڈ 19 کا دورانیہ طوالت پکڑ گا تو یہ کمی 44-80% بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ میں دنیا بھر میں 30-40% کمی متوقع ہے۔ یہ حیران کن اندازے ہیں مگر سفاک سچ ثابت ہورہے ہیں۔ دنیا میں انٹرنیشنل ٹریولنگ میں دو تہائی سے زائد کمی ہو چکی ہے ۔ ایر لائنز، ہوٹلز، سفری سہولتوں سمیت تمام منسلک کاروبار اسی کمی کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر ہیں۔
یورپ، امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اب اس نئی ابتلاء کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنے پر کمر بستہ ہیں۔ امریکہ اور برازیل جیسے ممالک نے تو اس وباء کے پھیلائو کے باوجود اکانومی کے بیشتر حصے جاری رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ دنیا کے بیشتر ممالک جہاں سخت ترین لاک ڈائون روا رکھے گئے وہاں بھی اب دھیرے دھیرے احتیاطی تدابیر کے ساتھ معیشتوں کو مرحلہ وار کھولنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران مختلف دواؤں اور تجربات کی حوصلہ افزاء خبریں بھی ہیں۔ ویکسین کی تیاری میں البتہ ایک سال کے لگ بھگ کا عرصہ متوقع ہے۔ ہیلتھ کیئر پر پڑنے والے دبائو اور اب تک کے سبق دنیا کے کام آرہے ہیں۔ عام زندگی میں چہرے پر ماسک، سماجی فاصلہ اور بار بار ہاتھ دھونے یا سینی ٹائز کرنے کا چلن نئی معاشرت کا عنوان بن گیا ہے۔
کووڈ 19 کے ان اقتصادی اور معاشرتی اثرات نے گلوبل اکانومی اور گلوبلائزیشن کو جو شدید جھٹکا دیا ہے اس کی وجہ سے ماہرین کے خیال میں گلوبلائزیشن اور گلوبل اکانومی میں کئی دور رس اور بنیادی تبدیلیاں رونما ہو ں گی، بلکہ ان میں سے کئی ایک کی جھلکیاں ہمیں ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ موجودہ گلوبلائزیشن مربوط بین الممالک سپلائی چین پر استوار ہے۔ کووڈ 19نے گلوبل سپلائی چین میں شدید شگاف اور خلیج پیدا کردی ہے۔بہت سے ممالک کی روزمرہ کی عام اشیائ، حتیٰ کہ ٹائلٹ پیپر اور ہیلتھ ورکرز کے لئے ماسک تک کے لئے، دوسرے ممالک پر انحصار نے ماہرین اور حکومتوں کو سپلائی چین کی ترتیب اور ترکیب ِ نو پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ گلوبلائزیشن اور گلوبل اکانومی کی گزشتہ چار دِہائیوں کی بہت سی کامیابیوں پر اب نظرثانی ہو گی۔ مختلف ممالک اپنے اپنے تجربات کے مطابق اس نظرثانی اور ترتیبِ نو کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنائیں گے۔ ٹریڈ، سرمایہ کاری اور گلوبل سپلائی چین کے نین نقش میں واضح تبدیلیاں متوقع ہیں۔ وباء کے ان دنوں میں لاک ڈائون اور وائرس سے بچائو کے لئے خود حصاری یعنی isolation نے آن لائن ٹیکنالوجی اور آن لائن کاروبار کو ایک نیا جہان اور انداز دیا ہے۔ ریٹیل سیکٹر میں بزنس کا بڑا حصہ اب آن لائن کی جانب شفٹ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ روایتی طور پر ایک دوسرے سے سماجی اور کاروباری میل ملاپ اور میٹنگز کے لئے اب آن لائن چلن زیادہ قابل ترجیح اور قبولیت اختیار کر گیا ہے۔
چند ماہ کے اندر اندر دنیا میں اس قدر اور اس نوعیت کی تبدیلیاں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ ابھی تو یہ نادیدہ وائرس ہر روز نت نئی حیرانیاں دے رہا ہے۔ اللہ کرے کہ بدترین منظرنامے کے اندازوں کی نوبت ہی نہ آئے لیکن یہ بات طے ہے کہ نادیدہ وائرس کے ہاتھوں زخم زخم گلوبل اکانومی تادیر اپنے زخموں کو سہلاتی رہے گی۔
پاکستان ایک کثیر آبادی کا ملک ہے، معیشت کی نبض پہلے ہی اتار چڑھائو کا شکار ہے۔ برآمدات میں اضافہ کئی سالوں سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ درآمدات کم کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات بڑھانے کا کام اب مزید مشکل ہو گیا ہے۔ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کی واپسی کی وجہ سے ترسیلات ِ زر میں کمی کا اندیشہ کرنٹ اکائونٹ پر اثر انداز ہوگا۔ اقتصادی شرح نمو میں ترقی کا ٹارگٹ تو بجٹ میں طے ہے مگر چہار سو پھیلی ملکی اور عالمی اقتصادی مشکلات کے ہوتے ہوئے اس شرح نمو کا حصول بہت مشکل ہوگا۔ ایسے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور پہلے سے موجود بے روزگاری سے نمٹنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وطنِ عزیز اور اس کے باسیوں کو حفظ و امان میں رکھے اور معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے اسباب پیدا کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے