دریائے سندھ کے کنارے آباد قدیم ترین شہر اور ایک عہد میں عالمی علم و فنون کا مرکز ''چلاس'' گلگت بلتستان کے گیٹ پر واقع ہے ۔اس شہر کی تاریخ اس خطے میں سب سے پرانی ہے ۔ پروفیسر دانی کے مطابق اس شہر کے کئی ادوار اور نشیب و فراز ہیں۔ یہ شہر جہاں تاریخی حوالوں سے انتہائی اہم ہے وہاں تہذیبی لحاظ سے بھی منفرد ہے ۔ اس شہر میں پتھروں پر کندہ تصویری عبارتوں سے یہاں کی تاریخ کا پتہ ملتا ہے ۔ ماہر آثار قدیمہ کارل جیٹ مار نے ان تمام آثار کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہاں کی تاریخ کو بھی یکجا کیا ہے ۔ اس شہر کے پتھروں پر 5000 قبل مسیح کی کندہ کاری موجود ہے۔ اس علاقے سے متصل داریل اور تانگیر اپنی قدیم تاریخ میں علم و فنون کا مرکز تھے ۔
تہذیب و تمدن اور علم کے فروغ میں یہ علاقے ماضی کے ادوار میں پیش پیش رہے ۔ زمانہ قدیم میں داریل کے علاقے میں بدھ مت یونیورسٹی پوری دنیا کے لئے نمونہ تھی۔ اس یونیورسٹی میں مذہب، اخلاقیات، تاریخ اور دیگر علوم پڑھائے جاتے تھے ۔ اس یونیورسٹی میں مشرق اور مشرق بعید سے علم کے پیاسے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے مہینوں پیدل سفر کر کے آتے تھے ۔چلاس کی جدید تاریخ 1700 اور 1800 سے شروع ہوتی ہے ۔
پروفیسر لیٹنر نے اس علاقے پر کافی تحقیق کی ہے اور یہاں کی تاریخ کے کئی موڑ ان کی کتاب '' دردستان'' میں موجود ہیں۔ چلاس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے جس کا اندازہ یہاں کے مقامی مکینوں کو بھی نہیں ہے اور نہ ہی باہر سے آنے والے سیاحوں کو ہے ۔ باہر کا چلاس اجڑا ہوا،ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا' رویوں میں عدم توازن پر مبنی بیانیے کا شکار ہے۔ باہر کا چلاس دہشت اور خوف کی مصنوعی چادر اوڑھے ہوئے علم اور تعلیم سے عاری ہے جبکہ تاریخ کا چلاس ان تمام حوالوں سے منفرد ہے ۔ تاریخ کا چلاس ٹیکسلا کی تہذیب اور فنون کے مقابلے کا ہے ۔ تاریخ کا چلاس علم اور تحقیق سے لیس ہے لیکن بدقسمت دور اس وقت شروع ہوا جب چند سو سال قبل ایک نام نہاد مذہبی و قبائلی سوچ نے علمی و تحقیقی سوچ کو دبوچ لیا اور یہ شہر علم سے کھنڈرات میں بدل گیا۔ کئی سیاسی ادوار آئے۔ کئی اصلاحاتی دور گزرے، اَن گنت مقامی حکومتیں بنیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر یہ تاریخی اور قدیم شہر پستی کی جانب گامزن رہا۔ لوگ علم و تحقیق سے جی چرا نے لگے اور جو علم کئی ارتقائی منزلیں پانے میں کامیاب ہوا تھا، وہ اب دوبارہ صفر سے شروع ہونے لگا۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت چلاس شہر میں خواتین کی شرح خواندگی 3 فیصدجبکہ مردوں کی 40 فیصد ہے۔اس شہر کی مٹی کی اہمیت اب بھی وہی ہے جو زمانہ قدیم میں تھی۔ دیامر بھاشا ڈیم جیسا میگا منصوبہ اس مٹی کے سینے پر بن رہا ہے جبکہ نانگا پربت کا عظیم پہاڑ اس دھرتی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔
یہ علاقہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا گیٹ وے اور اہم سٹیک ہولڈر بھی ہے مگر علم و تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے ہے جس کی وجہ اپنوں کی لاپروائی اور غیروں کی چیرہ دستیوں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی محدود سوچ اور رویے بھی ہیں جبکہ دوسری جانب معیاری تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی بھی تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہے ۔ 2000 میں اس اہم علاقے میں کیڈٹ کالج کے قیام کا فیصلہ ہوا جو اس علاقے کے مکینوںکے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس کالج کے قیام میں بھی کئی تاخیری حربے اپنائے گئے جس وجہ سے کالج کی اصل عمارت ہنوز سوالیہ نشان ہے مگر مقامی ضروریات اور یہاں کی نوجوان نسل کی صلاحیت کو مثبت راستہ فراہم کرنے کے لئے 2013 میں چلاس شہر کے وسط میں ایک متبادل عمارت میں کیڈٹ کالج فعال کیا گیا اور پہلی انٹری بھی مذکورہ سال ہوئی جس کے تحت 60 بچوں کو داخلے دیئے گئے چونکہ مزید رہائشی سہولت کی قلت کی وجہ سے 60 طلبہ کی ایک اور انٹری ہی ممکن ہو سکی اس کے بعد گزشتہ 4 برسوں سے کوئی نئی انٹری نہ ہوسکی۔ گلگت بلتستان بالخصوص چلاس کے مکینوں کے لئے کیڈٹ کالج چلاس صحرا میں پھلدار پودے کی مانند ہے ۔ اس کالج کے معیار کا اندازہ گزشتہ دنوں اس وقت ہوا جب اپریل کے مہینے میں پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں پاس آؤٹ ہونے والی بانی انٹری کے طلبہ نے شاندار مہارتوں کا مظاہرہ کیا۔ چلاس شہر کے مکینوںکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔تقریب کے مہمان خصوصی فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل احسان محمود خان تھے جبکہ میزبانی کے فرائض پرنسپل کیڈٹ کالج چلاس لیفٹیننٹ کرنل محمد شاہد خان انجام دے رہے تھے ۔ پرنسپل کیڈٹ کالج نے اپنے خطاب میں مقامی نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں کو سراہا اور کالج کی سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ حیران کن مرحلہ اس وقت آیا جب پرنسپل کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ فیڈرل بورڈ کے تحت ہونے والے 2018 سال اول کے سالانہ امتحان میں کیڈٹ کالج چلاس کے کل 46 بچوں نے حصہ لیا اور کامیابی کا تناسب سو فیصد رہا۔ قابل رشک بات یہ تھی کہ ان کامیاب طلبہ میں کوئی بھی B یا C گریڈ نہیں تھا۔پرنسپل کے خطاب کے بعد فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل احسان محمود خان نے اپنے خطاب میں کامیاب طلبہ کو مبارکباد دیتے ہوئے پاسنگ آوٹ پریڈ کی شاندار تیاریوں پر کالج پرنسپل کو خصوصی داد دی۔ مہمان خصوصی نے علم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے تمام سماجی امراض کا علاج قرار دیا۔ کیڈٹ کالج چلاس کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد مقامی آبادی کو یہ اُمید بندھی ہے کہ اب یہاں کے لوگ اپنی علمی میراث کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے اور وہ علمی و تحقیقی موتی پانے میں کامران ہوں گے جو کئی سو سال پہلے کھو دیئے تھے۔
تبصرے