جہان را محکمی از امہات است
نہادِ شان امینِ ممکنات است
عصرِ حاضر میں دنیائے اسلام کے دُوراندیش ترین شاعر، علامہ محمد اقبال نے ، ماں کو فطرتا ً اس دنیا کے محکم مستقبل کا امین قرار دیا ہے۔ یعنی قوم کا مستقبل ماں کے پاس قوم کی امانت ہے۔ہم بھی تسلیم کرتے آرہے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور زندگی کے مختلف مراحل میں وہ عورت ماں، بہن، بیٹی، شریکِ حیات اور رفیقِ کار کے رُوپ میں کار فرما ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسی خاصیت ہے جو ہر سِن و سال کی عورت میں پائی جاتی ہے اور وہ ہے ممتا۔ محبت، پروا، قربانی ، پرورش جیسے مادرانہ جذبات ہر عمر کی صنفِ نازک کا خاصہ ہیں۔ ایک چھوٹی سی بچی اپنی گڑیا کو ماں کی طرح سنبھالتی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی گڑیا کی شادی بھی رچاتی ہے ۔ وہ اس ننھی سی عمر سے ہی محبت اور دوسرے کی دیکھ بھال کے تمام رموز جو کہ اس کی سرشت میں ہوتے ہیں ان کا اظہار کرتی چلی جاتی ہے۔ بہن کی حیثیت میں چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر، ان کے اخلاق و کردار پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی تربیت میں حصہ دار بن جاتی ہے۔ بیوی کی حیثیت میں سہولت کار کے طور پر اپنی معاونت پیش کرتی ہے اور بالآخر ماں بنتے ہی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کے حاصل کو بہترین اخلاق و کردار کا پیکر بنانے میں جت جاتی ہے اور نتیجے میں قوم کو ایک صحت مند، باکردار، باصلاحیت، فعال فرد کی صورت میں گویا اس کی امانت لوٹاتی ہے، جس کو اس نے برسوں بڑی امانتداری سے سنبھالے رکھا جو کہ علامہ اقبال کے نزدیک ممکنہ طور پر اپنی ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے ۔
ماں کے یہ کامیاب سپوت ہر شعبۂِ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔بات کریں پاک فوج کے کسی بھی افسر یا جوان کی تو اس کی شخصیت سازی میں اس کی پشتیبانی کرنے والے ہاتھ کی اہمیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اور اس کی شخصیت کی مضبوطی اس ہاتھ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، جس نے اس کو اس کردار میں ڈھالا ہے۔ مادرِ وطن پر اپنی جان نچھاور کردینے والے چند مایہ ناز سپوتوں کی ماں سے ملنے کا شرف حاصل رہا مجھے۔ یہ مائیں سادگی کی ایسی ہی مثال ہیں جن کے بارے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:
آن دخِ رستاق زادی جاہلی
پست بالای سطبری بدگلی
نا تراشی پرورش نادادہ ئی
کم نگاہی کم زبانی سادہ ئی
دل از آلامِ امومت کردہ خوں
گردِ چشمش حلقہ ہایٔ نیلگوں
ملت ار گیرد از آغوشش بدست
یک مسلمانِ غیور و حق پرست
ہستیِ ما محکم از آلامِ اوست
صبحِ ما عالم فروز از شامِ اوست
یعنی وہ دیہاتی، ان پڑھ، بظاہر جاہل عورت، جو عام خد و خال کی مالک ہے،جس نے کسی ترقی یافتہ ماحول میں پرورش بھی نہیں پائی،جو بظاہر دنیاوی جھمیلوں سے نابلد، کم گو اور سادہ ہے،جو ماں بننے کے کٹھن مراحل سے گزرنے کی تکلیف برداشت کرتی ہے ،جس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہیں، اگر ملت کو اس کی آغوش سے،ایک غیور اور حق پرست مسلمان حاصل ہوجاتا ہے،تو ہماری ہستی اس کے دکھوں سے محکم و مضبوط ہے ، اور ہماری صبح اس کی شام سے عالم افروز ہے۔
اماں بخت بھری فوجی جوان نائیک حق نواز کی والدہ ہیں ۔ اماں جی کے عزم اور حوصلے کا یہ عالم ہے کہ جب ان کے شہید بیٹے کے پرسے کے لئے ہم گئے تو انہوں نے مٹھائیوں کے ڈبے ساتھ دے کر اپنے شہید بیٹے کے مہمانوں کو رخصت کیا۔ ایسا حوصلہ ایک شہید کی ماں کا ہی ہو سکتا ہے۔ایک بیٹے کی جُدائی کو دل میں چھپائے اور دیگر بچوں کی اکیلی کفالت کرنے والی اماں بخت بھری نے اپنے شہید بیٹے کی نشانی اس کی نوبیاہتا دلہن کو اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ اپنی شادی کے چند دن بعد ڈیوٹی پر جانے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آنے والے ان کے بیٹے نے جاتے وقت ماں سے عہد لیا تھا کہ وہ اس کی مختصر سی حیات کی شریک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں گی۔ اماں بخت بھری اپنے حق نواز کو حق مال سمجھ کر اس کی قربانی کو قبول کرتی ہیں۔
اقصاں بی بی انیس سالہ کمسن سپاہی غلام جیلانی شہید کی والدہ ہیں۔ شہید جیلانی کے والد تو 2004 میں بیٹے کی شہادت کا سنتے گئے اور آج تک گم سم ہیں۔خالہ اقصاں بیٹوں، بہوئوں، پوتے، پوتیوں سے بھرے پرے عیال کو بڑے نظم و ضبط کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ خالہ جی جوان بیٹا وطن پر وارکر، ہمت ہار کر نہیں بیٹھیں۔ آج بھی ان کے بچوں کو ماں کی ایک جان بخش مسکراہٹ سے زندگی بھرپور لگنے لگتی ہے۔
اماں زریابی (یا زرینہ بی)، حوالدار فیاض کی والدہ ایک بہت با ہمت ماں ہیں جو بیٹے کے عیال کی پرورش کو خود پر فرض گردانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر میں نے واویلا نہیں مچایا ۔ میں نے سوچا کہ اگر میں ہمت ہار گئی تواس کی بیوی اور چار بچوں کو کون سنبھالے گا۔ بس میں نے اپنی کمرکس لی، ان کی کفالت ہی میری زندگی کا مقصد ہے۔
اسی طرح سے حوالدار محمد رفیق کی والدہ انور بی بی، سپاہی عبداللطیف شہید کی ماں واسو مائی، سپاہی سید حسین شہید کی والدہ گل ویشا بی بی، سپاہی ظہور احمد شہید کی والدہ انارہ بی بی، سپاہی دلشاد رئیس کی والدہ حکومت بی بی، یہ سب مائیں ایک سی ہیں۔ خالص،مخلص، جی دار، جہاں دار، یہ سب امینِ ممکنات ہیں، قوم کی تقدیر میں لکھی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے ہراول دستے کی سپاہ کو انہوں نے اپنی گود میں پیار سے پالا اور ایسے جوان قوم کو بخشے جو قبیلے کی آنکھ کا تارہ بنے۔ اتفاق سے ان سب مائوں کا تعلق ایک ہی بٹالین 12 پنجاب کی ڈی کمپنی کے ان سولہ جری جوانوں سے ہے جنہوں نے ایک ہی دن، 18 مارچ 2004 کو ایک ہی معرکے، ''آپریشن کالوشا''میں ایک ہی محاذ، شین ورسک پر اپنی جانیں وطن پر قربان کیں۔اقبال ایسے جوانوں کی ستائش میں فرماتے ہیں:
آن جوان کو شہر و دشت و در گرفت
پرورش از شیرِ صد مادر گرفت
یعنی وہ جوان جو شہر و دشت و صحرا پر مسلط ہوا، (اس نے)سو ماں کے دودھ سے پرورش پائی ہے۔ گویا ایسی بہادر جوانوں کی ماں کے دودھ میں سیکڑوں ماوئں کے دودھ کی طاقت ہوتی ہے۔ اقبال ان مائوں کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں:
نہ کیا تو نے ایک بار افسوس
حال پر میرے صد ہزار افسوس
جوکہ ہونا تھا دِل پہ ہو گزرا
نہ کر اِی درد بار بار افسوس
(خواجہ میرداد)
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے، جو بہت تیز نہیں
(علی سردار جعفری)
مبارکباد کن آن پاک جان را
کہ زاید آن امیرِ کاروان را
ز آغوش چنیں فرخندہ مادر
خجالت می دہم حور و جنان را
یعنی اس پاک جان کو مبارک باد دوکہ جس نے امیر کارواں کو جنم دیا ہے،ایسی مبارک ماں کی آغوش سے جنت کی حوریں بھی شرماتی ہیں۔
مائوں کی پیشانیوں پر قوم کی تقدیر درج ہوتی ہے۔قوم کا ماضی ان کا حال۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
خنک آن ملتی کز وارداتش
قیامت ہا بہ بیند کایناتش
چہ پیش آید چہ پیش افتاد او را
تُو آں دید از جبینِ امہاتش
یعنی خوش قسمت ہے وہ ملت کہ جس کی قلبی واردات سے، اس کی کائنات قیامتوں کو دیکھ سکتی ہے،اسے کیا پیش آنے والا ہے اور کیاپیش آچکا ہے، اس کی ماں کی پیشانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن یہ یاد رہے ہمارے گرد تمام کردار کامیاب، قابل تقلید یا لائق رشک نہیں۔ اگر کسی کی کامیابی کے پیچھے ماں ہے تو ناکامی کے پیچھے بھی وہی ہے جو اولاد کی شخصیت کے بگاڑ کی حصہ دار ہے۔
قوموں کے نظام زندگی میں ماں کے کردار کے پیش نظر خود ان کی درست تربیت، کردارسازی، تعلیم، صحت، عزت اور مرتبے کی پاسداری کے نتیجے میں ان سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بھی اولاد کی تربیت، کردارسازی، تعلیم ، صحت اور مقام مرتبے میں کوئی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ماں کو ان کے کردار کی درست ادائیگی سے کسی طور مفر حاصل نہیں۔ اولاد کو دین کے اصولوں کی سمجھ، معاشرتی ضوابط کا علم، اپنوں کی ذمہ داریوں کا احساس، دوسروں کی خاطر قربانی کا جذبہ ماں بخشتی ہے۔اور پھر یہ جذبہ زندگی کے ہر محاذ پر اولاد کو اپنی فرض شناسی،تعلیم و تربیت اور قربانی کے لئے آمادہ رکھتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پاتی تو معاشرے میں موجود ہر بگاڑ کی وہ حصہ دار ہے۔
قوم کی ماں کے لئے مقام فکر ہے کہ ان کی گود میں قوم کا مستقل پرورش پا رہا ہے ۔ مائیں امین ممکنات ہیں قوم کی اس امانت کی وہ امین ہیں ، جس میں کسی بھی طرح کی خیانت کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر قوم نے اس نکتے کو نہ جانا تو علامہ اقبال نے ایسی قوم کے نظام کی بے ثباتی کی پیش بینی تقریبا سوسال فرمادی تھی:
اگر این نکتہ را قومی نداند
نظامِ کاروبارش بی ثبات است
مضمون نگار نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ فارسی سے وابستہ ہیں۔
تبصرے