قومی و بین الاقوامی ایشوز

ڈیم کی تعمیر کے لئے کمر بستہ پاکستانی

پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے تنِ تنہا ڈیم کی تعمیر میں مگن مظہر علی کی کاوش پر مبنی عبداللہ شاہوانی کی تحریر
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور ضلع آواران کے پہاڑی سرحدی علاقے میں دو مقبرے قائم ہیں جن کے بارے میں تاریخ دان لکھتے ہیں کہ یہ دونوں قبریں کئی صدی پرانی شیریں اور فرہاد کی ہیں۔یہ دونوں کردار عشق کی داستان کے حوالے سے تاریخ میں زندہ ہیں۔ اب موجودہ دور یعنی 21ویں صدیں میں ایک سنگ تراش حقیقت بن کر تاریخ رقم کررہاہے ۔فرہاد کی سنگ تراشی اپنی ذات کے لئے تھی تاہم موجودہ دورکے سنگ تراش کی محنت ایک پوری قوم کے لیے ہے۔ یہ مردِ آہن48سالہ مظہر علی ہیں جوتعلیم یافتہ ہیں انہوں نے بی ایس سی کررکھی ہے۔ پیشے کے لحاظ سے چھوٹے پیمانے کے کاروبار سے منسلک آٹو موبائل کمپنی چلا کر اپنی زندگی بسرکررہے ہیں۔ ان کے کنبے میں وہ خود، ان کی اہلیہ اور ایک بچہ شامل ہے، مظہر علی کوئٹہ کے نواحی علاقہ مری آباد میں رہائش پذیر ہیں۔اس میں کسی ایک فرد یا خاندان و کنبے کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے لئے درد رکھنے کے اوصاف واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، چرند، پرند سب کا ہمدرد بن کر وہ جفاکشی کا ایک ایسا کردارنبھارہاہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔


ڈیم کی لمبائی 42فٹ چوڑائی 15فٹ اور اونچائی 7فٹ ہے اس کی اونچائی مزید 10یا 12فٹ تک بڑھائی جائے گی ۔ اس وقت ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 860000لیٹر ہے اور اس کی اونچائی 200000لیٹر فی فٹ تک بڑھائی جاسکتی ہے ۔


 



مظہر علی سے جب ان کے اس انوکھے اور منفرد کردار کے بارے میں تفصیل جاننا چاہی توکا ان کاکہنا تھاکہ میں نے 2020میں کوئٹہ کے نواحی پہاڑی علاقہ کوہِ مہردار میں اپنے ہاتھوں سے ڈیم تعمیر کرنے کا آغاز کیا اور اب الحمدللہ یہ ڈیم تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔


کوئٹہ میں پانی کی قلت اور بارش کے پانی کو ضائع ہوتے دیکھ کر آج سے دو سال قبل انہوں نے کسی بھی مشینری کے بغیر ہاتھوں سے ایک ڈیلے ایکشن ڈیم تعمیر کرنے کا آغاز کردیا۔ آج  اڑھائی سال بعد وہ اپنے اس مشن میں کافی حد تک سرخرو ہو کر کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پانی کو محفوظ بنانے کے لئے وہ پتھر توڑ کران کو تہہ در تہہ ایک دوسرے سے منسلک کرکے ڈیم تعمیر کررہاہے۔ مظہرعلی نے ایک ڈیم انجینئر کی خدمات بھی حاصل کررکھی ہیں۔ ڈیم انجینئر ڈاکٹر شعیب بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ اسی مقام پر آتے ہیں اور انہیں ڈیم کے طرز تعمیر کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔
 مظہر علی سے جب ان کے اس انوکھے اور منفرد کردار کے بارے میں تفصیل جاننا چاہی توکا ان کاکہنا تھاکہ میں نے 2020میں کوئٹہ کے نواحی پہاڑی علاقہ کوہِ مہردار میں اپنے ہاتھوں سے ڈیم تعمیر کرنے کا آغاز کیا اور اب الحمدللہ یہ ڈیم تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ میں نے ڈیم کی افادیت کے بارے میں اپنے مرحوم والد محترم سے شعور حاصل کیا اور ان سے سیکھا۔ یہ 1990کا زمانہ اور میرا بچپن تھا میرے والد مجھے پانی کی قدر وقیمت اور اس کی حفاظت کے بارے میں ہمیشہ ترغیب دیتے اور خود وہ پانی کو محفوظ بنانے کے اس کارِ خیر میں حصہ لیتے۔ چنانچہ آج میں نے جوڈیم بنانے کا انتہائی مشکل و کٹھن کام کے آغاز کیا ہے، اس کا مقصد اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر ماحولیات و آلودگی سے فضاء کو پاک رکھنا اور لوگوں کی ضرورت کو پورا کرناہے۔ یہ ڈیم کوئٹہ شہر سے ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ گھر سے چل کر ڈیم تک جانے میں مجھے قریباً دو گھنٹے لگتے ہیں ان کا کہنا تھاکہ میں ان اوزار(جو ان کے پاس موجود تھے) سے بڑے پتھروں کے ٹکڑے کرتا ہوں اس دوران مجھے کافی تکالیف اور مشکلات پیش آتی ہیں،کافی مرتبہ چوٹیں لگیں۔ کام کرتے ہوئے میرے کپڑے اور جوتے پھٹ جاتے تھے۔ میرے پاس وسائل اور بجٹ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا تاہم بجٹ کی کمی اور درج بالا مشکلات بھی میرے کام کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکیں اور میں نے مسلسل ڈیم بنانے کا کام جاری رکھا ۔ ڈیم کا اس وقت 75فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہے اور اس کا 25فیصد حصہ ابھی بھی مکمل ہوناباقی ہے۔ میرے ہاتھوں سے بننے والے زیر تعمیر ڈیم کی لمبائی 42فٹ چوڑائی 15فٹ اور اونچائی 7فٹ ہے اس کی اونچائی مزید 10یا 12فٹ تک بڑھائی جائے گی ۔ اس وقت ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 860000لیٹر ہے اور اس کی اونچائی 200000لیٹر فی فٹ تک بڑھائی جاسکتی ہے ۔



 


مظہر علی جب پہاڑ کا رخ کرتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ پانی کے گیلن بھی ساتھ لیجاتے ہیں جہاں وہ پرندوں کو پانی پلاتے ہیں اور وہاں کی جڑی بوٹیوں اوردرختوں کو پانی بھی دیتے ہیں۔ مظہر علی کا کہنا تھاکہ بلوچستان میں خشک سالی ہے اور یہا ں کی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ بارشیں بہت کم ہوجاتی ہیں۔ہمارے جنگل چرند پرند کی زندگی اور قصبوں ، دیہاتوں اور شہروں میں رہائش پذیر افراد کے لئے برساتی ڈیمز کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے قیمتی ماحول ، جنگل ، دیہات شہری زندگی کی بقاء کے لئے ڈیم بننا بے حد لازمی ہے۔ ہم کو اس حد تک حساس ہوجانا چاہیے کہ پانی کی ایک بوند ضائع نہ ہو اور پانی کے قطرے قطرے کو محفوظ بنانے کے لئے من حیث القوم اجتماعی طور پر ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ان کا کہنا تھاکہ پانی کے حوالے سے میرے کام کا حجم ان بڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔  مظہرعلی کا کہنا تھاکہ میر ا پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں اور ممکنات پر بھروسہ کرنا اور آگے بڑھنا چاہیے۔ عزائم پختہ ہوں تو کوئی بھی معرکہ سرکرنا مشکل نہیں ہے، انہی پختہ ارادوں کو لے کر میں نے اڑھائی سال قبل جس مشن کا آغاز کیا تھا اب وہ ممکن بن کر سامنے آرہاہے۔ان کا کہنا تھاکہ پانی کی قلت کافی خطرناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے اس مسئلے کو حکومت اپنی منصوبہ بندی اور ترجیحات میں شامل کرکے ہر صورت میں آبی ذخائر کے لئے فنڈز مختص کرے۔ پانی زندگی ہے جب پانی نہیں ہوگا تو زمین پر رہنا بھی مشکل ہوگا۔پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اداروں اور حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرتے ہوئے برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ارباب اختیار سے یہی میری التجا ہے ۔ میں نے اپنی محنت، جدوجہد سے حکومت اور عام افراد کے لئے ایک مثالی کارنامہ سرانجام دیدیا ہے۔ اب حکومتِ وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک پانی ذخیرہ کرنے کے عمل کو آگے بڑھا ئے اور کوئٹہ سمیت بلوچستان میں پانی کے کمی کے مسئلے پر قابو پاسکتی ہے۔
مظہر علی میں تخلیق اور کچھ کرنے کاہنر کافی زیادہ ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر فن مولا ہیں۔ انہیں خوش خطاطی کا بھی شوق ہے اور وہ کافی خوبصورت انداز میں خطاطی بھی کرتے ہیں ۔ مظہر علی کا کہنا ہے کہ میں چونکہ مری آباد میں رہتا ہوں جہاں ہزارہ برادری رہائش پذیر ہے گزشتہ ایک دہائی یا اس سے بیشتر عرصہ کے دوران ہزار کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کا فی حد تک قتل عام ہوا اور یہ لوگ کافی سہمے ہوئے ہیں اس لیئے وہ زیادہ تر اپنے گھر وں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مری آباد کے ہزارہ کمیونٹی کے افراد جفاکشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس روز گار کے مواقع  نہیں اور زندگی کی سہولیات بھی پوری نہیں۔ اس حوالے سے حکومت ہزارہ کمیونٹی کے افراد کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے اور یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دے ۔




یہ باتیں محنت کش اور سنگ تراش کوئٹہ کے رہائشی مظہر علی کی تھیں جس نے ناممکن کو ممکن بنا کر انسانیت کی خدمت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا اور جن مسائل کی انہوں نے نشاندہی کی اور پانی کی قلت کے حوالے سے مستقبل میں جس خطرناک چیلنجز کے بارے میں بتایااس میں کوئی دو رائے نہیں اور یہ حقیقت ہے ۔بلوچستان میں زیرِ زمین پانی خطرناک حد تک نیچے گررہاہے یہ سلسلہ نہ صر ف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جاری ہے بلکہ صوبے کے دور دراز اضلاع میں بھی کچھ ایسا ہی منظر دکھائی دے رہاہے ۔ قدیم زمانے کی بہتی نہریں ،کاریز اور کنویں تو دو دہائی پہلے ہی ختم ہوچکے تھے تاہم اب جو قدرتی طور پر زیر مین پانی کا ذخیرہ موجود تھا وہ بھی ختم ہوتا جارہاہے ۔ بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہ کرنا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت بلوچستان میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ قلیل پیمانے پر جتنی بھی بارشیں ہورہی ہیں وہ پانی بھی بے کاراور ضائعہوجاتا ہے۔ بلوچستان میں تھوڑی بہت اگر بارش ہوبھی جائے تو برسات کا پانی ندی نالوں کی نذر ہو کربہہ جاتا ہے چونکہ بلوچستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے نہ جامعہ حکمت عملی کے تحت ماضی میں منصوبے بنائے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے سنجیدہ گی کامظاہر کیا گیایہی وجہ ہے کہ اس وقت بلوچستان میں پانی کی قلت شدت اختیا ر کرتی جارہی ہے اور یہ مستقبل قریب میں بڑا المیہ بھی بن سکتا ہے۔
2021کی عالمی رپورٹ کے مطابق دنیاء میں قریباً36ممالک ایسے ہیں کہ جو آبی قلت کا سامناجلد یا بدیر کرسکتے ہیں اس میں بد قسمتی سے پاکستان اب تیسرے درجے پر پہنچ چکا ہے ۔اعداد شمار کے مطابق پاکستان کے قیام کے وقت پانی کی دستیابی 5000کیوبک میٹربلحاظ حجم تھی جو اب کم ہوتے ہوتے 1000کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ آبی ماہرین کا خیال ہے کہ 2025تک پانی کی دستیابی 500کیوبک میٹر ہوجائے گی اورملک شدید ترین آبی قلت کا سامنا کریگا ۔کوئٹہ کی آبادی اس وقت 22لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جس یومیہ 54ملین گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ محکمہ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا)اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ملٹری انجینئرنگ سروس کی جانب سے 24.6ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہاہے۔ 
بلوچستان میں پانی کی شدید قلت کو حساس مسئلہ سمجھ کر اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوںگے اور وسیع پیمانے پر ڈیمز تعمیر کرنے ہوںگے تب ہی جاکر بلوچستان میں پانی کی قلت کے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔
مظہر علی ایک فرد ہے جس نے اپنے ذمہ سے بڑھ کام کیا کردار نبھایا اور پوری قوم کے لئے اعلیٰ مثال بن گیا اب متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنگ تراش مظہر علی کی اس سوچ کو کس حد تک آگے بڑھا کر بلوچستان میں پانی کی قلت پر قابو پاسکتی ہے ۔ ||


مضمون نگار بلوچستان سے  شائع ہونے والے ایک  روزنامہ اور نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ آن لائن ویب سائٹ کے ایڈیٹر اور کالم نویس ہیں۔
[email protected]
 

یہ تحریر 922مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP