ریاست جموں وکشمیر کو جنت ارضی، ایشیا کا دل، برصغیرکے سر کا تاج، ایرانِ صغیر اور ایشیاء کی انگوٹھی کا نگینہ جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کشمیر جنت نظیر، نشاط انگیز اور قدرتی مناظر کی بوقلمونی اور حسین رنگوں کا زبردست و دلکش شاہکار اور زندہ تصویر ہے۔ یہ سرسبز و شاداب وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، مرغزاروں، برف پوش و سر بفلک پہاڑوں، گنگناتی وادیوں، دریاؤں، نالوں، سیماب صفت چشموں، گھنے جنگلات، زعفران زار کھیتوں، پھل اور پھولدار درختوں اور معتدل آب و ہوا کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت تزک جہانگیری میں لکھا تھا کہ اگر مجھ سے میری عظیم الشان سلطنت سب کی سب چھین لی جائے اور صرف کشمیر ہی میرے پاس رہ جائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے پاس سب کچھ ہے۔وادیٔ کشمیر جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی ظلم و ستم کی داستانیں بھی اس وادی کے باسیوں کا مقدر بنتی رہی ہیں۔ جہاں1832 میں سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان سمیت کئی لیڈروں کی زندہ کھالیں کھینچی گئیں وہاں1846ء میں کشمیر کی خرید و فروخت بھی ہوئی اور یہ دنیا میں ظلم و ستم کی انوکھی مثالیں ہیں۔
کشمیر میں ظلم و ستم کی داستانیں طویل بھی ہیں اور انوکھی بھی۔ 13 جولائی 1931کا دن ہمیں ان شہیدوں کی یاد دلاتا ہے۔ جنہوں نے کشمیر کے حقوق اور عزت و حرمت کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے لئے بے پناہ قربانیاں دی تھیں اور قوم کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی تھی۔29 اپریل1931کو وہ واقعہ پیش آیا جو تحریک آزادی کا آغاز ثابت ہوا۔ اس دن جموں کے میونسپل باغ میں مسلمان جمع تھے اور امام صاحب نماز جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک غیر مسلم پولیس انسپکٹر پکارنے لگا: امام صاحب خطبہ بند کیجئے آپ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور جرم بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امام صاحب حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کا قصہ بیان کر رہے تھے۔ اس واقعہ سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ سخت اشتعال پیدا ہوا۔ نماز کے فوراً بعد جموں کی جامع مسجد میں ایک پرجوش احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں نوجوانوں نے پر جوش تقریریں کیں اور مداخلت فی الدین پر شدید احتجاج کیا۔ بعض مسلمانوں نے انسپکٹر کے خلاف توہین دین کا مقدمہ بھی درج کرایا۔ عدالت میں کیس چلا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ خطبہ نماز کا حصہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ خطبہ نماز کا لازمی جزو ہے۔
چند ہی دن گزرے تھے کہ جموں جیل کی پولیس لائن میں ایک ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہین قرآن کا حادثہ پیش آیا۔ پھر انہی دنوں جموں کے ایک گاؤں میں پولیس نے مسلمانوں کو عید گاہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا۔ ان تمام واقعات نے ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں میں شدید غصہ اور اشتعال پیدا کر دیا اور ریاست کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ سی لگ گئی۔ سری نگر کی جامع مسجد میں اسلامیان کشمیر کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں مقررین نے جموں کے واقعات پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اس وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کا مشیر خاص جموں آیا۔ اس نے مسلمانوں کو ایک وفد کی صورت میں مہاراجہ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ جموں کے مسلمانوں نے مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمان ، شیخ عبدالحمید اور چوہدری غلام عباس کو ایک جلسہ عام میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ سری نگر والوں کو بھی سات نمائندے چننے کا کہا گیا۔ چنانچہ12جون1931 کو خانقاہِ معلی میں کشمیری مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقدہوا ۔ اس جلسہ میں ہر طبقہ کے مسلمانوں نے حصہ لیا۔ اس جلسہ میں خواجہ سعیدالدین مثالی، میر واعظ محمد یوسف شاہ، میر واعظ احمد اللہ ہمدانی، آغا سید حسن شاہ جلالی، خواجہ غلام احمد، شیخ عبداللہ اور منشی شہاب الدین کو نمائندہ چنا گیا۔ جلسے کے اختتام پر قدیر نامی ایک نوجوان جو غیر ریاستی تھا اور پٹھان قوم سے تعلق رکھتا تھا وہ سٹیج پر آیا اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ راج کے خلاف پرجوش تقریر کی۔ جلسہ عام اس نوجوان کی پرجوش تقریر کے بعد حیرانی کے عالم میں منتشر ہو گیا۔25 جون کو اس نوجوان کو دفعہ34الف (بغاوت) کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور اس پر مقدمہ قائم کر دیا گیا اور اسے سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔13 جولائی1931کو قدیر خان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ عدالت کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اور جلد ہی ان کی تعداد تقریباً سات ہزار تک پہنچ گئی۔ لوگ اس بہادر اور عظیم مجاہد کو دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ شہر میں افواہ پھیل چکی تھی کہ عبدالقدیر کو قتل کر دیا گیا ہے۔ عوام کی یہ خواہش پرزور مطالبہ میں بدل گئی ۔ ان کا اصرار بڑھتا گیا لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کوئی پروا نہیں کی۔ اس پر لوگوں نے عدالتی کارروائی دیکھنے کے لئے جیل کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ مسلمانوں نے نماز ظہر کے لئے صفیں درست کرنی شروع کر دیں۔ نمازیوں میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اوراذان دینا شروع کی۔ ابھی اللہ اکبر کی آواز فضاء میں بلند ہوئی تھی کہ گولی چلنے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ مؤذن کو گولی مار دی گئی ہے۔ اس شہید کا لہو آزادیٔ کشمیر میں شامل ہو گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اس اذان کو ادھورہ نہیں چھوڑا۔ حاضرین میں سے ایک دوسرا جوان آگے بڑھا تا کہ باقی کی اذان مکمل کر سکے تو اللہ اکبر کی دوسری صدا کے ساتھ ہی دوسری گولی نے اس مؤذن کو بھی شہادت عطا کر دی۔ اس جوشیلے ہجوم میں کسی کو قبول نہیں تھا کہ انہوں نے جس نماز کی نیت سے صفیں باندھی ہیں اسے نامکمل چھور دیا جائے۔ اس طرح چشم فلک نے دیکھا کہ اذان کے الفاظ ادا ہوتے رہے اور کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کرتے رہے۔ تاریخ اسلام کی اس یادگار اور انوکھی اذان کو مکمل کرنے کے لئے بائیس کشمیریوںنے اپنے خون کی قربانی پیش کی۔ جو دنیا میں بے مثل ہے اور ڈوگرہ راج پر ثابت کر دیا کہ اب ان کے عزم کے سامنے رکاوٹ زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔
ہر سال 13 جولائی کو دنیا بھر کے کشمیری ان شہداء کی یاد میں یوم شہداء کشمیر مناتے ہیں جنہوں نے ڈوگر کی طرف سے برسنے والی گولیوں کا راستہ اپنے سینے سے روکا لیکن اپنے عزم میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ لیکن بدقسمتی سے بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج ہندوستان کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی تمام بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں اور کرفیو کا سماں ہے۔ البتہ 13 جولائی 1931 کا یہ واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اب ہندوستان کا مسلمان بھی وہاں میں محفوظ نہیں ہے۔ ہندوستان میں اب مسلمان کی نسبت گائے زیادہ محفوظ ہے ۔اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں کو اب کردار ادا کرنا ہو گا اور اپنے اسلاف کی تاریخ کو یاد کرنا ہو گا۔ انہیں اب اپنی آزادی کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی۔
ملا کو جو ہند میں ہے سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے اسلام ہے آزاد ||
مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 1260مرتبہ پڑھی گئی۔