گوشہ عساکر

C-130پاک فضائیہ کا ''برق رفتار ہوائی گھوڑا''

پاک فضائیہ کا 'کارگو' جہاز ،C-130 فقط سیلاب زدگان اور زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ دشمن سے جنگ کی صورت میں یا کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات میں تیزرفتاری کے ساتھ افواج اور اُن کے سازوسامان کو مطلوبہ مقامات یا اگلے محاذوں پر پہنچانے کے لیے بھی یہ جہاز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے بجا طور پر پاک فضائیہ کا ''برق رفتار ہوائی گھوڑا'' کہا جاسکتا ہے۔ کمانڈر انچیف ایئر چیف مارشل اصغر خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوںنے یکم مارچ 1963کو C-130ہر کولیز (Hercules) کو پاک فضائیہ کے ہوائی بیڑے میں شامل کیا ۔ اس طرح پاک فضائیہ کی تاریخ کا یہ وہ تاب ناک دن قرار پایا، جس نے فضائیہ کے ایئرٹرانسپورٹ آپریشنز میں انقلاب برپاکردیا۔ 1965 کے آغاز سے ہی قومی اُفق پر جنگ کے بادل نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف نور خان نے اگست 1965 میں ٹرانسپورٹ ونگ کو جنگی تیاریوں کے بروقت احکامات صادر فرما دیے۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران اسکواڈرن نمبر6 کے ہوا بازوں نے جرأت و شجاعت کی وہ داستانیں رقم کیں جو محبانِ وطن کے لیے تاابد قابلِ تقلید مثالیں بنی رہیں گی۔
 اسکواڈرن نمبر6 کے ''سرمایہ افتخار ملک و ملت'' ہوا بازوں نےC-130 ہر کولیز جہازوں کو اتنے نو بہ نو مختلف آپریشنز  میں استعمال کیا کہ دشمن بھی انگشت بدنداں رہ گیا۔ اُن آپریشنز میں سے کچھ کا تذکرہ بیان کیا جاتا ہے۔
نوخیز ہوا باز فلائٹ لیفٹیننٹ نذیراحمد خان جو بعد میں ایئر کموڈور کے عہدے تک پہنچے، نے 23 اگست1965 کو چکلالہ ایئر بیس سے رات کے وقت اڑان بھری، فلائٹ لیفٹیننٹ جاوید ایچ ملک ان کے معاون ہواباز اور فلائٹ لیفٹیننٹ واسطی نیوی گیٹر تھے۔ پاک آرمی آپریشن جبرالٹر کے سلسلے میں وادیِ کشمیرمیں مصروف کارزار تھی جس کے واسطے  انہیں سپلائی کی اشد ضرورت تھی، لہٰذا اس پرواز میں 28000 پائونڈ کا ساز و سامان لے جایا جارہا تھا، جو توپوں ، اس کے گولہ بارود، راشن اسلحہ اور دیگرجنگی اشیاء پر مشتمل تھا، اس تمام سامان کو جلد از جلد بحفاظت وادیٔ سری نگر میں پہنچانا  اس C-130 کے عملے کا ہدف تھا۔ اس سے پہلے اس قسم کے ٹرانسپورٹ آپریشنز وہ بھی شب کی گھٹاٹوپ تاریکی میں انجام دینے کی پاک فضائیہ کی تاریخ میں کوئی بھی مثال موجود نہ تھی۔یعنی بغیر چاند کی شب دیجور میں ایک نیا روشن باب رقم ہورہا تھا۔ موسم شدید خراب تھا اور جہاز دبیز بادلوں کا سینہ چاک کرتے ہوئے  دشمن کے علاقے میں محوِ پرواز تھا۔ آخر 25000 فٹ کی بلندی پر جا کرC-130 کہیں بادلوں کی تہوں سے نمودار ہوا، اس طرح نذیر احمد خان اپنے نیوی گیٹر اور معاون عملے کی مسلسل رہنمائی کی بدولت وادیٔ سری نگر کے عین اوپر پہنچ گیا۔ لیکن جیسے ہی نذیر احمدخان ڈراپ زون میں داخل ہوا، بادلوں کی ایک باریک تہہ نے تمام عملے کی نظروں کو دھندلا دیا۔ اﷲ کے بھروسے پر ہر کوئی دعا کررہا تھا کہ پروازہموار انداز میں بخیریت  آگے بڑھتی رہے، نیوی گیٹر نے 'ڈراپ' کا گرین سگنل دے دیا۔ اُسی وقت پرواز موسم کی خرابی کی وجہ سے انتہائی غیر ہموار ہوگئی جس میں C-130 کسی پرندے کی مانند تیزی سے اوپر نیچے ڈولنا شروع ہوگیا۔ بہر حال ہواباز نے زور آزمائی کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ ڈراپ مکمل کیا، ناک کے سامنے15000 کی خطرناک پہاڑ کی چوٹی تھی جس سے بچتے ہوئے ہواباز نے جہاز کی پوری طاقت کو بحال کیا اور چکلالہ کی راہ لی۔ بعد میں آرمی کے کمانڈوز نے بھی اس بہت زیادہ خراب موسم میں ڈراپ مشن کی دل کھول کر تعریف کی۔ کیونکہ تمام ضروری سامان ٹھیک جگہ پر گرایا گیا تھا۔ نذیر احمدخان نے اپنے لائق عظیم ساتھی کے ساتھ اس طرح کے کئی مشن کامرانی سے مکمل کیے جن کے اعتراف کے طور پر 1965 کی جنگ کے بعد انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔
 کبھی عدو نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ پاک فصائیہ اُس کے ایئر ڈیفنس کے خلاف C-130  ہرکولیز جہازوں کو کامیابی کے ساتھ بحیثیت بمبار جہازوں کے استعمال کرے گا اور وہ بھی رات کی تاریکی میں۔ جبکہ دشمن اس کی بالکل توقع نہ کررہا ہو۔ 1965 کی جنگ کے دوران گروپ کیپٹن  ایرک گورڈن ہال (جوبعد میں ایئر وائس مارشل بنے) پی اے ایف بیس چکلالہ (نورخان) کمانڈ کررہے تھے۔ پاک بھارت 65 کی جنگ سے متعلق  پاک فضائیہ کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نےC-130 کارگو جہاز کو نائٹ بمبار طیارے  کے طور پر استعمال کیا۔ یہ پاک فضائیہ کی ایک  ایسی تاریخی جدت طرازی کی اعلیٰ مثال تھی، جس نے دشمن کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا۔ اس کارنامے کے روحِ رواں ایرک گورڈن ہال تھے جنہیں یہ کام ایئر ہیڈکوارٹر کی طرف سے خصوصی طور پر سونپاگیا تھا۔ ایرک گورڈن  اور ان کی ٹیم نے دن رات اس ناممکن مہم پر کام کرکے اسے ممکن کردکھایا۔ اس طرحC-130 ایک ایسا دیوہیکل بمبار بن چکا تھا جو24000 پونڈ سے بھی زیادہ وزنی ہتھیار دشمن پر برسانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ستمبر 65 سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی ٹیم نےC-130 ہرکولیز میں ایسا مکینیکل نظام نصب کرلیا تھا جو بمبوں کے جھولوں کو پہلے ایک سوئچ ایکشن کی مدد سےC-130 کے پیٹ کی جانب سے باہر لٹکا دیتا اور پھر دوسرے سوئچ کے ذریعے  جھولوں سے بندھے ہوئے ان بموں کو علیحدہ کردیا جاتا۔ جمرود فائرنگ رینج پر جہاز کے عملے کے چند افراد کو اس نظام کو چلانے کی خصوصی تربیت دی گئی اس طرح کئی بار کی مشقوں سے عملے کے کچھ افراد اس کام میں ماہر ہوگئے اور ان تمام تیاریوں کے بعد 11 ستمبر کو منصوبہ بندی کی گئی کہC-130 جہاز کو بمبار کے طور پر سب سے پہلے ''کٹھوا پل ''پر آزمایاجائے، اس پل کی حفاظت کے لیے دشمن کی بے شمار طیارہ شکن توپیں اور دیگر ہتھیار تیار تھے۔ ایرک گورڈن ہال نے اس پُر خطر مشن میں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔C-130 میں اپنے دفاع کے لیے کوئی ہتھیار نہیں ہوتا۔28000 پونڈوزنی بموں سےC-130کاپہلا حملہ ہی عدو کے لیے اعصاب شکن ثابت ہوا اور اس کی کمر ٹوٹ گئی، جس کی وجہ سے دشمن کی چھمب سیکٹر میں تیزی سے جاری پیش قدمی رُک گئی اور وہ پسپا ہو نے پر مجبور ہوگیا۔ تمام بھارتی ریڈیو دہائی دے رہے تھے کہ پاک فضائیہ کی جانب سے چار انجنوں والا چینی بمبار طیارہ استعمال ہو رہا ہے۔ دراصل یہ پٹھانکوٹ سے پرواز کرکے آنے والے فائٹر ہوا بازوں کی جانب سے غلط شناخت کا ایک مضحکہ خیزبزدلانہ اعلان تھا۔ چاند کی روشنی میں گھبرائے ہوئے  بھارتی ہوا باز C-130کو صحیح طور نہ پہچان سکے اور نہ ہی مقابلے کے لیے قریب آنے کی جرأت کرسکے۔



اسی طرح جب لاہور سیکٹر بی آر بی نہر کے گردو نواح ایک میل تک بھارت کی 72 توپیں گولے برسا رہی تھیں جبکہ ا ٹاری ٹارگٹ کو پاک آرمی نشانہ بنانا چاہتی تھی اس لیے وہاں دوC-130طیاروں کے ذریعے بم گرائے گئے، بم اتنی باریک بینی سے ٹھیک ٹھیک طیارہ شکن توپوں کے حصار پر گرائے گئے کہ بی آر بی نہر بالکل محفوظ رہی مگر گولے برساتی ہوئی بھارتی طیارہ شکن توپیں راکھ ہو کر رہ گئیں۔ اگر چہ بھارتی ریڈیو غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے کے طور پر کئیC-130جہازوں کو تباہ کرنے کے دعوے کررہاتھا۔ لہٰذا جب بھارتی فضائیہ کے کمانڈرانچیف  نے جنگ کے کچھ عرصے بعد چکلالہ بیس کا دورہ کیا تو گروپ کیپٹن ایرک گورڈن نے پانچوںC-130ایک لائن میں کھڑے کرکے ان کے سامنے پیش کردیے۔ جسے دیکھ کر بھارتی کمانڈر انچیف کے پاس سوائے کھسیانی ہنسی کے کوئی جواب نہ تھا۔ گروپ کیپٹن ایرک گورڈن کو 65 کی جنگ میں بے پناہ بہادری دکھانے پر حکومت کی جانب سے ستارۂ جرأت  دیاگیا۔ اس مقام پرC-130کے ایک اور مشن کا ذکر کرنا بڑا مناسب ہوگا جس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں پاک آرمی کو سپلائی ڈراپ دینے کے بعد سکواڈرن لیڈر مسعود خان کو ایک مزید خصوصی پُرخطر مشن کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ 6 ستمبر کو مسعود خان (جو بعد میں ایئروائس مارشل بنے) اپنے انتہائی تجربہ کارنیوی گیٹرکے ساتھ رات کے اندھیرے میں 60 ٹروپرزہر کو لے کر ہلواڑہ کی جانب پشاورایئر بیس  سے روانہ ہوئے اور اسی انداز میں دوC-130جہازوں کو آدم پور اور پٹھانکوٹ کے لیے روانہ کیاگیا، اس سے پیشتر پاک فضائیہ کی تاریخ میں ایسے مشن کبھی بھی تشکیل نہیں دیے گئے تھے۔ ان مشنز کے مقاصد یہ تھے کہ پیرا ٹروپرز زمین پر اتر کر ہوائی اڈے پر موجود تمام فیول ٹینکرز اور گوداموں کو تباہ کردیں وہاں موجود ہوا باز وں اور ایئر کریوز(Air Crews)کو مار دیں۔لہٰذا بھارتی ریڈاروں کی آنکھوں سے بچتے ہوئے، تینوںC-130درختوں کی اونچائی پر پرواز کرتے ہوئے پشاور سے اپنے اپنے ٹارگٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہلواڑہ اڈے سے صرف ایک منٹ قبل مسعود نےC-130 کو اس طرح پوزیشن کیا کہ پیرا ٹروپر آسانی سے جہاز کے دروازے سے باہر کود پڑے، یہ اتنا تیز آپریشن تھا کہC-130جہازوں نے کامیابی کے بعد واپسی کی راہ لی اور پشاور لینڈ کرگئے۔ مسعود کی اس شجاعت کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا۔
یہاں C-130 کے ایک اور لاجواب اور بے مثال مشن کا تذکرہ کرنا انتہائی اہم ہے، جسے سکواڈرن لیڈر نذیر نے اڑایا تھا۔ پاک فضائیہ نے مشرقی پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر ایک C-130 کو مستقل طور پر وہاں پوزیشن کردیا جس کے عملے کو ہر تین ماہ بعد تبدیل کردیا جاتا۔ ایسے برے حالات میں نذیر احمد خان رضاکارانہ طور پر فروری 1971 سے مستقل طور پر وہاں رہے، اس دوران C-130 عملے نے بے شمار خطرناک قسم کے مشنوں میںحصہ لیا۔ حساس اور پُرخطر قسم کی ٹیکنیکل  اڑانوں، ایئر بورن ایسالٹ، زخمیوں کی بحفاظت واپسی، یہاں تک کہ C-130 کو ایندھن کی ترسیل کے ٹینکر  کے طور پر بھی استعمال کیاگیا۔ کئی منفرد دلیری کی داستانیں C-130کے عملے سے منسوب ہیں جس میں انتہائی پُرخطرجگہوں سے لوگوں کو بچا کر واپس محفوظ مقامات پر پہنچانا تقریباً ہر ہفتے کا معمول بن چکا تھا۔ مگر ان سب میں جرأت آمیز معرکہ C-130کے ذریعے لال منیرہیٹ اور سلہٹ ہوائی اڈوں پر دوبارہ قبضہ کرنا تھا۔ 25 مارچ 1971 کو مکتی باہنی نے بھارتی فوجیوں کے ساتھ مل کر لال منیر ہیٹ اور سلہٹ   ہوائی اڈوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ لہٰذا پاک آرمی کے لیے بہت ضروری تھا کہ ان ہوائی اڈوں کا کنٹرول واپس اپنے اختیارمیں لیا جائے۔3 اپریل کو ہمارے شیر دل کمانڈوز نے لال منیر ہیٹ  اور 8 اپریل کو سلہٹ پر C-130 کے ذریعے تیز ترین ایسالٹC-130 اڑائے ،چونکہC-130 میں اپنی حفاظت کے لیے کوئی ہتھیار نہیں ہوتا، اس لیے شدید خطرات درپیش تھے کہ اگر دشمن کی طرف سے مزاحمت کی گئی تو جہاز اور کمانڈوز کو شدید نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ دو میں ایک C-130 سکواڈرن لیڈر نذیر احمد خان، معاون ہوا باز فلائنگ آفیسر زبیر اور نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ اشرف اُڑا رہے تھے۔ ایس ایس جی کمانڈوز اپنے ضروری ہتھیاروں کے ساتھ جہاز میں سوار ہو چکے تھے، لیکن  جیسے ہی ہر کولیز جہاز منیر ہیٹ ہوائی اڈے پر لینڈنگ کے لیے پہنچا تو پائلٹ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دشمن نے درختوں کے بڑے بڑے تنے کاٹ کر ہوائی اڈے کو لینڈنگ کے لیے بند کیا ہوا ہے۔ اس خطرناک صورت حال میں سکواڈرن لیڈر نذیر احمد خان نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے ذرا سی جگہ پر C-130 کو لینڈ کروا دیا۔ جہاز کے انجن چلتے رہے اور کمانڈوز برق رفتاری سے اترتے رہے۔ اسی دوران مکتی باہنی نے اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کردیں مگر ہمارے کمانڈوز نے دشمن کے فائر کا جواب دیتے  اور خود کو بچاتے ہوئے رکاوٹوں کو اس طرح دور کردیا کہ دوسرا C-130بھی لینڈنگ کے لیے آنے لگا، لہٰذا نذیر احمدنے اپنےC-130 کو فوراً  ٹیک آف کروادیا اور ساتھ ہی دوسرا C-130بھی لینڈ کرگیا۔ اس طرح ہوائی اڈا دوبارہ پاک فوج کے قبضے میں آگیا۔ نذیر احمد خان نے اس طرح کی کئی خطرناک اڑانیں بھریں۔ اُن کی کامیاب پروازوں اوردلیری کے مظاہرے پر انہیں ستارئہ جرأت سے نوازا گیا۔
 29 اپریل1972 وہ سنہرا دن ہے جس روز سکواڈرن نمبر6کے ایئر کریوز کو کشمیر آپریشن ،1965کی جنگ اور71ء کی جنگ میں اعلیٰ دلیرانہ کارکردگی دکھانے پر ''امتیازی پرچم'' سے نوازاگیا۔
1960 کے آخر میں جب قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اس بلند مقصدکے حصول کے لیے سکواڈرن نمبر6 کے ہوابازوں نے بھاری مشینری ، افرادی قوت اور ان کے راشن کوبدستور ملک کے مختلف حصوں سے گلگت پہنچایا۔ شاہراہِ قراقرم دنیا میں آٹھویں عجوبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کی تعمیرکے لیے خصوصی طور پر چکلالہ اور گلگت کے درمیان سامان اور افراد کی نقل و حرکت کو مستقل بنیادوں پر بحال رکھاگیا۔ یعنی اس شاہراہ کی تکمیل میں سکواڈرن 6 کے شاہینوں نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔ جب کبھی ملک و ملت کو یا بین الاقوامی سطح پر کسی دوسرے ملک کو ریلیف آپریشن کی ضرورت پڑتی تو ہمیشہ ٹرانسپورٹ سکواڈرن کے ہوابازوں نے خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے لبیک کہا۔ 26دسمبر2001 کو جنوب مشرقی ایشیاء میں سونامی نے قیامت برپا کر دی۔ اس میں بھی سکواڈرن نمبر6 کے ہوابازوں نے بڑے پیمانے پر سری لنکا ، مالدیپ اور انڈونیشیا کے ممالک کے لیے ریلیف آپریشنز شروع کیے۔
8 اکتوبر2005 کو قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر کے کئی اضلاع میں قیامت برپا کردی۔ پاک فضائیہ کےC-130 جہازوں نے اس موقع پر بھی زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچایا، متاثرین میں راشن تقسیم کیا۔ اس طرح2011 کی مون سون بارشوں نے ملک میں سیلابی صورت حال پیدا کردی تو اس ہنگامی صورت حال میں بھی سکواڈرن نمبر6 کے ہواباز رات دن متاثرین کی مدد کے لیے مصروف رہے۔
1982 میں جب مکار دشمن بھارت نے سیاچن کے کچھ پہاڑوں پر قبضہ کرلیا، تو پاک آرمی کی ضرورت کے مطابق نڈر شاہینوں نے بھاری مشینری، توپوں اور گولہ بارود سمیت سپاہیوں کو سکردو اور گلگت پہنچایا۔ شروع شروع میں جب چند سپاہی فراسٹ بائٹ کا شکار ہوئے تو انہیں فوری طور پر وہاں سے واپس چکلالہ علاج معالجے کے لیے پہنچایا۔ جب بھی ضرورت پڑی پاک آرمی کے کہنے پر ڈراپ زون میں حرب و ضرب اور کھانے پینے کی اشیاء گرائیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے C-130 جہازوں کو بار بار خطرناک تنگ و تاریک گھاٹیوں اور موت کی وادیوں سے گزرنا پڑا۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا جیسے ہواباز سوئی کے ناکے سے جہاز کو احتیاط کے ساتھ گزار کر لے جارہا ہو اور اکثر اوقات خراب موسم بھی چیلنج بنا رہتا۔ ان تمام مہم جویانہ پروازوں کو مکمل کرنے کے لیے جس پیشہ ورانہ مہارت و قابلیت کی ضرورت ہوتی، ہمارے ہواباز ہر لحظہ اس کے لیے کوشاں رہتے۔یہ انمول خوبیاں سکواڈرن نمبر6 کے ہوابازوں کا ہمیشہ سے طرۂ امتیاز رہیں۔



جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے28 مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا توایک مرتبہ پھر سکواڈرن نمبر6 کے ہوابازوں نے ہنستے مسکراتے فوری طور پر ہر پاکستانی سائنسدانوں اور نیوکلیئرڈیوائسوں اوران کے متعلقہ سازوسامان کو کوئٹہ پہنچایا جس پر ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے پاک فضائیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے برملا اظہار کیا کہ پاک فضائیہ کے C-130 جہازوں نے جس طرح ایٹمی دھماکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے سائنسدانوں کی مدد کی اُس کی جس قدر تعریف کی جائے وہ کم ہے کیونکہ پاک فضائیہ کا عملہ اس قومی خدمت کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہا۔
امریکہ پرنائن الیون کے حملوں کے بعدپوری دنیا کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا، خصوصی طور پر جب امریکہ نے افغان طالبان پر بڑے پیمانے پر ہوائی حملے شروع کردیے تو پاکستان نے بھی امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اکثر اقوام عالم دہشت گردی کے مقابلے کے لیے اکٹھی نظر آرہی تھیں ۔ لیکن اس طرح ہماری مغربی سرحدوں اور سمندری حدود میں بھی ملکی دفاع کے حوالے سے حساس صورت حال پیدا ہوگئی۔ پاک افغان سرحد کی حفاظت اور سمندری پانیوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان نے اکتوبر2001 میں آپریشن المیزان کا آغاز کیا۔ یہ ایسا آپریشن تھا جس میں پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کی کئی یونٹیں حصہ لے رہی تھیں۔ پاک آرمی  اور فضائیہ  کے ایئر ڈیفنس عناصر کو سرحدوں پر پہنچانے کے لیےC-130 کی بے شمار پروازیں کی گئیں۔ یہ پروازیں دسمبر کی دبیز دھندکی راتوں میں جاری تھیں۔ادھر پاکستانی افواج آپریشن المیزان میںمصروف تھیں تو ادھر بھارت نے مشرقی سرحدپر عسکری مشقوں کی آڑ میں اپنی کثیر افواج کو پاکستان کی ملحقہ سرحدوں پر لاکھڑا کیا، جس کے جواب میں افواج پاکستان نے آپریشن Sentinal (سینٹینل) شروع کیا۔ اس طرح سکواڈرن نمبر6پر ایک مرتبہ پھر بڑی بھاری ذمہ داری آگئی کہ جلداز جلد پاک آرمی اور پاک فضائیہ کی ایئر ڈیفنس یونٹس کو سرحد کے ساتھ جنگی پوزیشنوں پر کم سے کم وقت میں قومی دفاع کے لیے پہنچائے اور اُس نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کی جس کی وجہ سے دشمن کو حوصلہ نہ ہوا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی معرکہ آرائی کا خطرہ مول لے۔ ایئر چیف مارشل مصحت علی میر شہید نے12 دسمبر2002 کو ٹرانسپورٹ سکواڈرن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ''آپریشن المیزان اور آپریشن سینٹینل  کے دوران پاکستان ایئر فورس بیس چکلالہ کی کارکردگی سب سے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ رہی اور میں انہیں اس جنگ کا فاتح قرار دیتا ہوں اور ساتھ ہی ان کی پیشہ ورانہ قابلیت اور جذبۂ ایثار کو سلام پیش کرتا ہوں۔''



دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ کا حصہ بنتے ہوئے پاکستان کے لیے بہت ضروری تھا کہ یہاں کے قبائلی علاقوں میں مصروف دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے۔ لہٰذا اس نازک موقع پر سکواڈرن نمبر6 نے آئی ایس آر (انٹیلی جنس سروینس اینڈ ری کونسینس) مشن کی پروازوں کے ذریعے ایئر ہیڈکوارٹر اور جی ایچ کیو کو صحیح صحیح  زمینی حقائق سے آگاہ کیا۔ جس کی وجہ سے زمین پرموجودنشانہ بازوں نے درست نشانہ بازی سے دہشت گردوں کو ختم کرنا شروع کردیا۔C-130ہوا بازوں نے لینر ٹیکنالوجی کی مدد سے اور اپنے فائٹر جہازوں کو ہر وقت زمینی صورت حال سے آگاہ کرکے آپریشن راہِ راست، راہِ نجات اور ضرب عضب میں بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ اس دوران خود کو نقصان سے بچاتے ہوئےC-130 شاہینوں نے دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ، جب کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوتیں بھی ایسا کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر رہیں۔
سکواڈرن نمبر6 نے بین الاقوامی نمائش2006 میں رائل انٹرنیشنل ایئر ٹیٹو (آر آئی اے ٹی) میں حصہ لیا، جس میں دنیا بھر سے بہترین فوجوں نے شرکت کی۔اس اعلیٰ پائے کی نمائش میںC-130 سکواڈرن نے تین انعامات جیتے، جس میں سٹیٹک ڈسپلے اور ٹیم مقابلوں کی ٹرافیاں خصوصی ستائش کی حامل تھیں۔ اس طرح آر آئی اے ٹی 2016میں بھی پاک فضائیہ نے سٹیٹک ڈسپلے میں(Elegance Trophy)ایلی گینس ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔
7جون 2017 سے قبل ہمالیہ کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں نے کبھیC-130 ہرکولیز جہازوں کے انجنوں کی آوازیں نہیں سنی تھیں اور وہ بھی رات کی تاریکی میں، لہٰذا این وی جی آپریشن  سکردو میں کیے گئے سکواڈرن نمبر6 کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چاہے وہ شمالی علاقہ جات کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں پر اُڑنے والی پروازیں ہوں یا ٹرائبل علاقوں میں کیے جانے والے آئی ایس آر کے آپریشنز ہوں، پاک آرمی کی مدد کے لیے کیے جانے والے مشن ہوں یا پھر ملکی یا بین الاقوامی ریلیف مشنز، سکواڈرن نمبر6 کے کارنامے پاک فضائیہ کی تاریخ میں ہمیشہ افق پر چمکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ||


 

یہ تحریر 178مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP