ہمارے غازی وشہداء

19لانسر زکا سپوت۔۔۔وادی نمل کا شہزادہ

ضلع میانوالی پنجاب کاایک خطہ مردم خیزہے۔میانوالی شہر سے راولپنڈی کی جانب سفر کریں تو تقریباً35کلومیٹر کے فاصلے پر ایک حسین علاقہ '' وادی نمل''آتا ہے ۔ایک جانب بلندو بالا پہاڑی سلسلہ اوراس کے دامن میں واقع وسیع و عریض نمل جھیل ، اسی مقام پر قائم'' نمل یونیورسٹی'' کی پرشکوہ عمارت ،سرسبزو شاداب کھیتو ں میں کام کرتے دہقان اوراِن لہلہاتے کھیتوں کھلیانوں میں نصب ٹیوب ویل،مال مویشی ، چہچہاتے پرندے 'یہ سب بہت خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔وادی نمل ایک نہایت حسین و جمیل خطہ ارضی ہے۔یہاں کا ماحول اور آب و ہوا انسان کو عجیب سی راحت اور سکون دیتی ہے ۔ لاہور جیسے بڑے شہر کے ہنگاموں سے نکل کر جب ہم ایسی کسی وادی میں پہنچتے ہیں تو ایک حسیں اورشگفتہ احساس جاں گزیں ہوتا ہے اور جو راحت میسرآ  تی ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔وادی نمل کا یہ پہاڑی سلسلہ آگے جاکر ایک اورخوبصورت گائوں''سکیسر''اور ''وادی سون''سے جا ملتاہے۔سکیسر کے پرفضا مقام پرپاک فضائیہ کا ایئر بیس بھی واقع ہے۔ مغل شہنشاہ بابر نے اسی خطے سے گزرتے ہوئے کہا تھاکہ:''یہ وادی کشمیر کا بچہ ہے''۔ اس وادی کا ایک نظارہ کیاجائے تومغل بادشاہ کایہ تبصرہ اورمشاہدہ بالکل درست لگتا ہے۔



وطن عزیز کی سا  لمیت پر اپنی جان نچھاور کردینے والے لالہ مہر خان شہید کا تعلق اسی خوبصورت گائوں سے تھا۔لالہ مہرخان سوات کے علاقہ کبل میں 3 فروری 2018کو عصرکے وقت والی بال میچ کھیل رہے تھے کہ ایک خودکش حملے میں کیپٹن نوابزادہ جاذب الرحمن اوردیگرجوانوں کے ہمراہ جام شہادت نوش کرگئے۔لالہ مہر خان خوش اخلاق تھے،برادری اورپورے علاقے میں ان کی بڑی عزت تھی۔یوں تو ''لالہ''میانوالی کی مقامی زبان میں بڑے بھائی کو کہتے ہیں لیکن مہر خان شہید کو گھروالے اورگائوں کے سب چھوٹے بڑے ''لالہ''کہتے ۔ وہ خودبھی اپنے نام کے ساتھ لالہ لکھوانااورکہلواناپسندکرتے تھے۔ان کی یونٹ کے افسر، جوان اور کھلاڑی ساتھی بھی انہیں اسی نام سے پکارتے تھے ۔لالہ مہرخان شہید پاک فوج کی آرمرڈ کور میںلانس دفعد ار کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ۔ان کاتعلق آرمرڈکور کی 19لانسریونٹ سے تھا۔
 مہر خان 1982 ء میں علاقہ ''بھڑشاہ نواز'' وادی نمل ضلع میانوالی میں ایک کاشتکار ملک فتح خان کے ہاں پیداہوئے۔ وہ اعوان قوم کے قابل فخرسپوت تھے۔میٹرک کاامتحان گورنمنٹ ہائی سکول ڈھوک علی خان سے پاس کیااور اپریل 2000ء میں پاک فوج جوائن کرکے آرمرڈسنٹرنوشہرہ سے عسکری تربیت حاصل کی۔ملتان،رحیم یارخان،پنوں عاقل، اوکاڑہ اور سوات میں خدمات انجام دیتے رہے۔ شہیدکے بڑے بھائی ملک احمدخان بھی پاک فوج میں خدمات انجام دیتے رہے اوراب ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ:'' میں اور شہیدلالہ مہرخان ایک ہی دن پاک فوج میں بھرتی ہوئے اور اکٹھے ٹریننگ کی۔ اس کے بعدمہر خان اپنی یو نٹ 19لانسرمیں چلے گئے اورمیں 12کیولری میں آگیا۔شہیدکے دوبچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ۔وہ والی بال اورکبڈی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ فوج میں والی بال میچز میں خوب حصہ لیتے'' ۔
 لالہ مہرخان کے چھوٹے بھائی ملک محمد ارشدنے شہید کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا  :''وہ مجھ سے 10سال بڑے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں میں بہت محبت تھی۔ان کی پورے گھرمیں بڑی عزت تھی۔کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتاتو وہی حل کیاکرتے۔وہ ایک عام فوجی تھے لیکن ان کی پورے علاقے میں بہت جان پہچان تھی۔وہ جو کام کرتے پورے شوق اورلگن سے کرتے۔گھر کے مسائل وہی حل کیاکرتے اور ا ن کافیصلہ اٹل ہوتا۔ ہربندے کے ساتھ گھل مل جاناان کافطری مزاج تھا۔ان کو بہت سے سرائیکی اشعاربھی ازبرتھے۔انہیں زمینداری اور ڈرائیونگ کابھی بہت شوق تھا ۔لالہ مہر خان اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت کانگومیں بھی ایک سال تعینات رہے۔وہ بتایاکرتے تھے کہ کانگومیں غربت بہت ہے،ہم اپناکھانااورپھل  بھی افریقی بچوں میں تقسیم کردیاکرتے ۔ کانگو سے واپسی پر وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے تووالد گرامی کو ساتھ لے کر گئے۔لالہ مہر خان پاک فوج میں گیم بیس پربھرتی نہیں ہوئے تھے لیکن وہ والی بال میں اپنی یونٹ میں خوب حصہ لیتے۔جس دن شہیدہوئے اس دن وہ مالم جبہ سے واپس آئے اور سوات کے علاقہ کبل میں سپورٹس کمپلیکس میں والی بال کھیلنے گئے۔لالہ مہرخان پنڈال میں داخل ہوئے اور گیم شروع ہی کی تھی کہ ایک خود کش حملہ آور نے اپنے مذمو م فعل کا ارتکاب کرڈالا۔ایک زور دار دھماکہ ہوااورلالہ مہر خان کیپٹن نوابزادہ جاذب الرحمن اوردیگر ساتھیوں کے ہمراہ شہیدہوگئے۔''
ملک ارشدنے بتایا کہ :'' کیپٹن نوابزادہ جاذب الرحمن شہید کے ساتھ مہرخان کا اچھا تعلق تھا۔دونوں ہی والی بال کے شوقین تھے ۔کیپٹن جاذب الرحمن نے انہیں موٹرسائیکل بھی گفٹ کی تھی جوآج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔یہ دونوں ایک ساتھ سروس میں رہے اور پھر ایک ہی واقعہ میں جام شہادت نوش کرگئے۔جب لالہ مہر خان کا بیٹا پیدا ہوا، انہوںنے اس کا نا م بھی اپنے آفیسر کے نام پر بریر جاذب رکھا۔یہ دونوں پہلے پنوں عاقل میں تعینات تھے ،اس کے بعد ان کی پوسٹنگ اوکاڑ ہ ہوگئی اور پھر یہ یواین امن مشن پر کانگو چلے گئے ۔کانگو سے واپس آئے تو سوات کے علاقہ کبل میں تعینات کیے گئے اور پھریہ دونوں ایک ساتھ اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔'' 
کیپٹن نوابزادہ جاذب الرحمن شہید کا تعلق کوہاٹ کے ایک گائوں سے تھا۔انہوں نے 2011ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیارکی اور بعدمیں وہ 19لانسرز یونٹ میں شامل ہوئے۔ان کی والدہ محترمہ نے شہید کی پہلی برسی کے موقع پر کوہاٹ میں ایک پروگرام میںگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا :''میں19لانسرز کے ان 11شہیدوں کوخراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ جاذ ب کے ساتھ جتنے بھی جوان شہید ہوئے یہ سب میرے بیٹے تھے۔''


جب ہم شہیدکے گھرسے نکل کر واپس آنے لگے تو گائوں کے ایک بزرگ اللہ دتہ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں شہیدکے خاندان سے نہیں بلکہ ان کا ہمسایہ ہوں ۔ہم نے ان سے شہیدکے بارے میں دریافت کیاتو ان کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا  :''میرااپنابیٹاحافظ صفی اللہ بھی پاک فوج میں ہے۔ہمارے یہ سارے بچے بڑے قابل فخرہیں جو ہروقت اپنی جانیں ہتھیلی پررکھے وطن کی حفاظت کی خاطرکمربستہ نظرآتے ہیں۔وہ کہنے لگے کہ لالہ تو بہت اچھاجوان تھا۔ میراوہ بھتیجاتھا لیکن ہم سب اسے ''لالہ''کہتے تھے۔اللہ اس کی اگلی منزل آسان فرمائے۔


شہید کے بھائی ملک ارشد بتاتے ہیں کہ:'' ہمیں ان کی شہاد ت کا ٹی وی کے ذریعے علم ہوا لیکن ہمیں یقین نہیں آرہاتھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں آرمی کی جانب سے ان کی شہادت کی اطلاع ملی۔لالہ مہر خان تین فروری2018ء کو عصر کے بعد شہیدہوئے اوران کی نماز جنازہ 4فروری کو دن چاربجے اداکی گئی۔جنازے میںبہت زیادہ لوگ شریک ہوئے،ہمارے پورے علاقے میں اتنا بڑا جنازہ کسی کابھی نہیںتھا۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔شہید کا جسد خاکی سوات سے میانوالی ہیلی کاپٹر پر لایاگیا ، ان کے ساتھ ان کی یونٹ کے چار جوان بھی موجودتھے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے آرمی کے 20جوان آئے اور انہوںنے فوجی سلامی دی۔آرمی چیف کی جانب سے شہیدکی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی اور شہید کو بن حافظ جی قبرستان میںسپرد خا ک کیاگیا''۔
  شہید کے اہل خانہ ان کی مزید یادیں تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے :''لالہ جی کہا کرتے تھے کہ اب سوات میںفوج نے بہت قربانیاں دے کرامن بحال کردیاہے۔وہ جب سے سوات آپریشن میں شامل ہوئے انہوں نے کبھی کسی خوف اور پریشانی کا اظہار نہیں کیاتھا ۔ہم نے ان کا عزم ہمیشہ پختہ دیکھا۔وہ بہت زیادہ بہادر تھے اوران کا ایمان تھا کہ وہ اپنے وطن کے استحکام کی خاطر ڈیوٹی کررہے ہیں۔شہید کا پسندیدہ لباس یا تو فوجی وردی تھا یا پھر وہ سیاہ لباس بہت شوق سے پہنتے۔مہرخان  سوات آپریشن میں تین ماہ شریک رہے۔وہ شہادت سے ایک ماہ قبل چھٹی پرگھرآئے اور ہم سے ڈھیروں باتیں کیں ،آج بھی وہ آخری ملاقات یاد آتی ہے توہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ تین چارماہ بعد گھر آتے توہمارے گھر اور پورے خاندان میںایک رونق لگ جاتی۔انہیں قومی کھلاڑیوں اورفنکاروں سے بھی بہت محبت تھی۔ وہ معروف فنکار عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے اکثر ملاقات کے لیے ان کے گائوں عیسیٰ خیل جایاکرتے۔وہ خود بھی سرائیکی دوہڑے ماہیے اورکافیاں گاتے ، ان کی آواز بھی بہت اچھی تھی۔وہ بچوں کے نام رکھنے میں بھی بہت دلچسپی لیتے اور خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہوتاتھا تو لوگ خواہش کرتے کہ انہی سے نام رکھوائیں۔شہید نے گھر میں چند کتابیںبھی رکھی ہوئی تھیں جو ان کے عمدہ ذوق کا ثبوت دیتی ہیں۔جب ان کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے والد صاحب کی آنکھوں سے آنسو رواںہوگئے لیکن وہ اسی وقت قریبی مسجد تشریف لے گئے اور دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ کاشکر اداکیا ۔وہ کہتے تھے کہ میں ہر وقت اللہ سے یہی دعاکرتا ہوں کہ وہ جس حال میں بھی رکھے بس صبر شکرکی توفیق دیتا رہے''۔
جب ہم شہیدکے گھرسے نکل کر واپس آنے لگے تو گائوں کے ایک بزرگ اللہ دتہ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں شہیدکے خاندان سے نہیں بلکہ ان کا ہمسایہ ہوں ۔ہم نے ان سے شہیدکے بارے میں دریافت کیاتو ان کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا  :''میرااپنابیٹاحافظ صفی اللہ بھی پاک فوج میں ہے۔ہمارے یہ سارے بچے بڑے قابل فخرہیں جو ہروقت اپنی جانیں ہتھیلی پررکھے وطن کی حفاظت کی خاطرکمربستہ نظرآتے ہیں۔وہ کہنے لگے کہ لالہ تو بہت اچھاجوان تھا۔ میراوہ بھتیجاتھا لیکن ہم سب اسے ''لالہ''کہتے تھے۔اللہ اس کی اگلی منزل آسان فرمائے۔وہ ایک درویش صفت انسان تھا،اخلاص کاپیکرتھا۔بزرگوں کی بہت عزت کرتا۔ہم نے کبھی نہیں دیکھااورنہ سناکہ اس کی کسی کے ساتھ کوئی لڑائی ہوئی ہو۔جب مجھے اس بچے کی شہادت کی اطلاع ملی تواس وقت جو میری کیفیت تھی وہ میں بیان نہیں کرسکتا''۔یہ کہتے ہوئے پھر ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے اورہم ان سے اجازت لے کرواپسی کے لیے نکل پڑے۔
شہید ِ وطن لانس دفعدارلالہ مہر خان کی آخری آرام گاہ میانوالی راولپنڈی مین روڈ پر واقع ایک معروف مقام ''بَن حافظ جی''میں برلب ِسڑک واقع ہے۔قبر پر لہراتاسبز ہلالی پرچم اور سائن بورڈ شہیدکو خراج تحسین پیش کرتاہے اورشہید کے ورثاء کی جانب سے اپنے وطن سے بے پایاں محبت کاایک نہایت خوبصورت اظہاربھی ہے۔ ||


مضمون نگار ایک قومی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]

یہ تحریر 150مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP