ہر فوجی آفیسر کی زندگی میں ایک اہم چیزرہ جاتی ہے اور وہ ہے یونیورسٹی لائف۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے کا وقت ہوتا ہے تو ہم لوگ پی ایم اے میں قدم مار کر رہے ہوتے ہیں۔
قدم مار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ون ٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔باڈی آگے
وقت کی خاص بات یہ ہے کہ گزر جاتا ہے اور فوج میں وقت کچھ زیادہ ہی تیزی سے گزرتا ہے۔23 سال کیسے گزرے معلوم ہی نہیں ہو سکا۔سوچا کہ کیوں نہ پی جی ایس (پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز) کر لوں۔ ایڈمشن ٹیسٹ کی تاریخ ملی تو ساتھ ہی کرونا وبا پھیل گئی اور دل کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔ آخرکار راولپنڈی پوسٹنگ ہوئی اور نئے سیٹ اپ میںرپورٹ کرنے کے بعد اپنے بچپن کے دوست ڈاکٹر نوید (پی ایچ ڈی فزکس) سے رابطہ کیا۔ ملاقات ہوئی تو فخر ہوا کہ اتنا پڑھا لکھا آدمی اپنا جگری دوست ہے (ویسے یہ اور بات ہے کہ وہ کیمسٹری میں ہمیشہ فیل ہوتا تھا)۔ اُس کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ پڑھنا آسان کام ہی ہو گا۔
ہم مختلف یونیورسٹیوں میں گئے، میری کوشش تھی کہ علامہ اقبال یونیورسٹی یا رِفاہ یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے لیکن مقدر مجھے(FAST National University of Computers and Emerging Sciences) میں لے گیا۔ یقین تھا کہ یہاں تو داخلہ ملنامحال ہے لیکن انہوں نے کہادو دن بعد انٹری ٹیسٹ کے لیے آجائیں۔ اندازہ تھا کہ پکا فیل ہی ہونا ہے، لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب چند روز بعد انٹرویو کی کا ل آگئی(انٹری ٹیسٹ میں5.82نمبر تھے)۔ FASTکی ڈین ڈاکٹر سعدیہ نے انٹرویو کرنے کے بعدمجھے پاس کر دیا۔یوں میرا ایڈمشن FAST یونیورسٹی میں ہو گیا۔
پہلے دن جب Orientationکے لیے گیا تو لوگوں کی آنکھوں میں حیرت نمایاں طور پر نظر آئی۔ شروع کے چند روز تو سکیورٹی پر مامور گارڈز نے بڑے احترام سے پوچھا"سر آپ کسی سے ملنے آئے ہیں؟"اور کیفے والے پوچھتے"سر آپ نئے پروفیسر ہیں؟"۔FAST میں تعلیم شروع کی تو معلوم ہوا اسے Fastکیوں کہتے ہیں۔ ایک لیکچر کے لیے دو دو سو صفحوں کی readings کہ جن کو پڑھنے کو کسی کا دل نہیں چاہتا تھا۔ مجھے تو JSC(Junior Staff Course(کی سپیڈبھول گئی۔ ہر سٹوڈنٹ کی خواہش ہوتی تھی کہ میںreadingsپڑھ کر voice note بنا کر اُس کے ساتھ شیئر کروں۔دوسری وجہ تھی امتحانات۔۔۔۔ ایک امتحان ختم دوسرا شروع، پڑھاتے کم اورٹیسٹ زیادہ۔
Statsکا پیپر ہوا تو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ سوال کیا ہے اور جواب کیا؟ بس فوج کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق کچھ نہ کچھ لکھ دیا۔ پیپر کا ایک کونہ بھی خالی نہیں چھوڑا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب چند دن بعد رزلٹ آیا اور پروفیسر اکرم نے پوری
کلاس کو میرا حل شدہ پیپر دکھایا اور بتایا کہ ''یہ ہوتا ہے Standardپیپر''، ''ایسے حل کرتے ہیں پرچہ۔''یہ اور بات ہے کہStatsمیں A+گریڈحاصل کرنے کے باوجود T-Testاور Z-Testکا فرق اب بھی سمجھ نہیں آسکا۔
پروفیسر ریحان Management & Organisational Behaviourکے استاد تھے۔ ایک دن اُن سے سوال پوچھ لیا کہ سر!یہ emotionsاورs moodمیں کیا فرق ہوتا ہے؟ انہوں نے طعنہ دے دیا کہ جیسے آپ کے پیپر میں نمبر کم آئے ہیں تو آپ کا موڈ خراب ہو گیا ہے جو زیادہ عرصہ خراب رہے گا جبکہ emotionsتھوڑی دیر کے لیے ہوتے ہیں۔ خیر اگلے پیپر کے لیے فوجی طریقے سے جان توڑ محنت کی۔Highestنمبر حاصل کیے تو انہوں نے حیرت کااظہارکیا۔ میں نے کہا سراب مجھےemotionsاورs moodکا فرق صحیح طور پر سمجھ آگیاہے۔
ڈاکٹر عباس، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بہترین محقّق ہیں اُن سے بہت کچھ سیکھا، خاص طور پر جُگاڑ لگانا۔ میں نے اپنے پہلے تحقیقی مقالے میں سر عباس کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیا تو وہ بولے کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں نے کہاسر آپ نے اپنے آرٹیکل میں یہ یہ لکھا ہے، تو اس کا مطلب یہی بنتا ہے۔ حیرت ہوئی کہ انہوں نے مان بھی لیا کہ اُن کے آرٹیکل میں انکا مطلب وہی تھا، جو میں نے بیان کیا۔ Dissertation میں ڈاکٹر سعدیہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیکھ کر سر نے بہت سراہا کہ اب آپ صحیح محقق بن گئے ہیں، جو جُگاڑ ہم نے پی ایچ ڈی میں سیکھی تھی وہ آپ نے ابھی سیکھ لی۔ ڈیفنس والے دن آپ نے کہنا ہے کہ ''یہ وہ عظیم لوگ ہیں جنہوں نے ایسا کہا اور یہ تحقیق کے میدان میں ایک بہت عظیم contributionہے۔''
پروفیسر دانیال نے Critical Perspective of Managementکا مضمون پڑھایا۔ ہر لیکچر میں ہمیشہ یہ کہتے کہ Micheal J.Sandalنے فرمایا کہ "Everything is up for sale"۔میں نے سر کے 2ICکی پوسٹ سنبھال لی۔ سر نے بھی اِس بات کا اقرار کیا کہ اُنکا2ICبہت مستعد ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ، سر دانیال کی پی ایچ ڈی سپروائزر بھی تھیں۔ ہر ہفتے سر کو بتاتا کہ میں نے ڈاکٹر سعدیہ سے کہا کہ سردانیال یوں کہہ رہے تھے۔ شدّتِ حیرت و خوف و تجسّس سے اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں اور پژمردہ آواز میں پوچھتے کہ ''وہ میرے بارے میں کیا کہہ رہی تھیں؟''
ڈاکٹر سعدیہ ایسی شخصیت ہیں جن کے آنے سے کلاس کے ہر بچے کا سانس رُک جاتا اور گلا خشک ہو جاتا۔ وقت کے بارے میں اتنی پابندکہ ایک ایک سیکنڈ کا حساب )جیسے ہم ایئر ڈیفنس میں سیکنڈز میں حساب کرتے ہیں)۔ڈاکٹر سعدیہ نے پورا ایک سال ماسک نہ اتارا پھر بھی ان کو دو بار کرونا ہوا۔میڈم کی پسندیدہ شاگرداریبہ کو بھی ماسک پہننے کا بہت شوق تھا۔اللہ کی قدرت اُس کو بھی کرونا ہو گیااور وہ بھی دوبئی میں چھٹیاں منانے سے پہلے۔ویسے میم فرح کو بھی ماسک کے بغیرکبھی نہیں دیکھا۔ ایک دن کیفے میں دیکھا کہ کچھ کلاس کے سٹوڈنٹس ایک خاتون سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ پہچان نہ سکا کہ یہ کون ہیں۔ میں بھی اُن میں شامل ہو گیا تب پتہ چلا کہ اوہ! یہ تو میم فرح ہیں ۔اب بھی یقین ہے کہ ان کو ماسک کے بغیرپہچان نہیں سکتا۔ عقیل صاحب ہمارے اسٹڈی گروپ کے سب سے معتبر انسان تھے۔بہترین دوست اور اچھے انسان۔۔۔۔اور تمام لڑکیوں کے بھائی۔گروپ کی دوسری شخصیت کا نام سارہ ہے۔ایک دن سارہ نے میڈم سعدیہ کو ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ میم آپکی ڈریسنگ بہت اچھی ہے۔میم نے جواب دیا'' سارہ ویسے مکھن میں نورپور کاپسند کرتی ہوں۔''
کلاس کی ایک نمایاں شخصیت زلیخا تھی ۔اُس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اپنے نام کی صحیح عکاس ہے۔ ایک دن سر عباس کلاس میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ویسے تو مجھے یاد نہیں تھا کہ آج Quiz Testہونا ہے لیکن چونکہ زلیخا نے درخواست کی ہے کہ آج ٹیسٹ نہ ہو تو آج ٹیسٹ ہوگا۔ مجھے پی ایم اے کا دور یاد آگیا جب چار گھنٹے سزا کے بعد سارجنٹ پلاٹون کو چھوڑتا تھا کہ اب اتنے بجے دوبارہ فالن ہوگا اور ایک ''چبل''کی آواز آتی تھی "Sir! Which dress?"۔سر عباس نے class participationمیں مجھے کم نمبر دیے تو میں نے سر سے پوچھا کہ سر کیا مجھ سے زیادہ کسی نے logical participationکی ہے تو انہوں نے جواب دیا، نہیں لیکن زلیخا نے مجھے بہت تنگ کیا ہے اور میں نے اُس کی بہت بے عزتی کی ہے اِس لیے اُس کو زیادہ نمبر دے دیے۔حیرت ہوئی کہ زیادہ نمبر کا معیار استاد کو تنگ کرنا اور بے عزتی برداشت کرنا ہے۔
شروع شروع میں تو لائبریری کے قریب سے گزرنے سے بھی ڈر لگتا تھا لیکن جب وہاں جانا شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ عام حالات میں خالی رہتی ہے لیکن امتحانات کے قریب اِس میں تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی ۔
یہاں میں ڈگری کرنے کے دوران اپنی فیملی کا تذکرہ نہ کروں تو زیادتی ہو گی۔چاروں سمسٹرز میں ہر امتحان کے بعد میں اُداس گھر واپس آتا اور گھر والوں کو بتاتا کہ اِس بار پیپر اِنتہائی بُرا ہوا۔ لیکن جب رزلٹ آتا تو ہر پیپر میں اچھے نمبرآتے اوربچے کہتے''بابا!آپ ہمیشہ ایسے ہی کہتے ہیں۔'' دو ہفتے بعد اتوار کے دن جب بھی بیگم نے سر پہ Hair Colourلگانا تو معنی خیزنظروں سے دیکھنااور کہنا''اچھا یونیورسٹی کی وجہ سے اتنی تیاری کر رہے ہیں۔۔۔۔ہوں!'' اچھا GPAلینے کے بعد میں نے بھی بیگم سے کہا،"دیکھا میں صرف پڑھائی میں توجہ دیتا تھا۔''
یونیورسٹی کے Farewellایونٹ کا پتہ چلا تو میں نے کچھ زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ اِس پر میری بیٹی نے کہا''بابا! Farewellفنکشن پر تو ہر سٹوڈنٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھی جو کلاس میں نہ آتے ہوں، آپ کیسے سٹوڈنٹ ہیں۔''
FASTسے بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جیسے گرائونڈ میں میم سعدیہ کی کلاس اور اس میں چائے اور سموسے، اعظم کا ہمیشہ لیٹ آنا، شزہ کے تھری پیس سوٹ ، المیراکا ہر دفعہ بہت زیادہ پڑھنا اور نمبر کم آنے پر شکوہ،یاسین CRکی لڑائیاں، Seminar in Management کے بچوں کی معصوم دُکھی نگاہیں، طلحہ کا4 GPAڈاکٹر حیدر کے پنجابی لطیفے اور جُگتیں، پروفیسر عادل قاضی کی سیاست پر گفتگو، پروفیسر شیراز کی ہر لیکچر میں فرانس سے درآمد شدہ چٹنی کی تعریفیں، سر حماد کے بورنگ آن لائن لیکچرز اور وہ بھی رمضان میں افطار سے پہلے جن میں پوری کلاس سو رہی ہوتی (کبھی کبھی تو سر حمّادبھی بولتے بولتے سو جاتے) 45 سال کی عمر میں تعلیم ایک مشکل مرحلہ تھا جو بہت کٹھن ہو جاتا اگر میں FASTمیں نہ جاتا۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اِن تمام لوگوں کو جن کی وجہ سے یونیورسٹی میں گزارا گیاایک ایک لمحہ یادگار بن گیا۔ ||
مضمون نگار کا تعلق پاکستان آرمی ائیر ڈیفنس سے ہے۔ انہوں نے مارچ1998 میں کمیشن حاصل کیا۔ دورانِ ملازمت مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔
یہ تحریر 431مرتبہ پڑھی گئی۔