ہمارے غازی وشہداء

بیٹے کا سہرادیکھنے کی آرزوتھی

 لانس نائیک ناصر عباس شہید کے والدین اوربہن بھائی فخر محسوس کرتے ہیں کہ اس نے وطن کی خاطر اپنے جسم پر گولیاں کھائیں

''ناصر عباس مجھے اکثر خوابوں میں ملتا ہے اور کہتا ہے امی جان!پریشا ن نہ ہونا۔ میں اس سے پوچھتی ہوں گھر کب آئو گے میرے لال؟وہ کہتا ہے کہ بس میں یہاںخوش ہوں اورا پ کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔جب مجھے ناصر عباس کی شہادت کی خبر ملی تھی تو ایک ایک پل بہت بوجھل محسوس ہو رہا تھا ،میں سوچتی تھی کہ بیٹے کے بغیر کیسے زندگی گزار پائوں گی لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے،بے شک وقت نے میرے زخموں پر مرہم رکھ دیااور پھر ناصر عباس کی شہادت کے صدقے اللہ کریم نے مجھے صبر بھی عطا کردیاہے۔میرے دل میں اپنے بیٹے کی شادی کا سہرا دیکھنے کی آرزو تھی لیکن وہ شہادت کاتاج پہن کر گھر آیا''۔



وطن کی آن بان پر قربان ہونے والے لانس نائیک ناصر عباس شہید کی والدہ محترمہ کنیز بی بی اپنے شہید بیٹے کی یادیں ،باتیں تازہ کررہی تھیں اورمَیں فرطِ جذبات سے قوم کی ا س عظیم ماں کو سلام ِعقیدت پیش کرنے پرمجبور ہوگیا تھا جس نے اپنی کوکھ میں ایک بہادر سپوت کی آبیار ی کی ۔ناصر عباس شہید جیسے بہادر محافظوں کویہ منفرد اعزا ز حاصل ہے کہ ان کی مائیں ان کی لاشوںسے لپٹ کر بین اورآہ وزاری نہیں کرتیں بلکہ آنسوئوں کی لڑی میں بھی اپنے ان بیٹوں پر فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے اپنی جان قربان کی۔
شہید کے والد گرامی حاجی شاہ نواز بتانے لگے : '' ناصرعباس جب بھی گھر چھٹی آتا اِدھراُدھر فارغ نہ پھرتا، وہ ایک ذمہ دار بیٹا تھا ، اسے ہم سب کابہت خیال رہتا ، وہ کھیتی باڑی اور گھر کے دیگر کاموں میں میرا خوب ہاتھ بٹاتا۔ ہم نے ناصر کی خالہ کے ہاں اس کا رشتہ طے کیاتھا اور بہت جلدشادی کرنی تھی ۔ اس نے کہا تھا اباجان !میں بہت جلد دوماہ کی چھٹی لے کر گھرآئوں گا ......لیکن قسمت نے موقع ہی نہ دیا اور وہ ہم سب کو غمزدہ چھوڑ کر شہادت کا تاج سر پرسجائے اللہ کے حضور پیش ہوگیا۔مجھے فخرہے کہ میں ایک شہید بیٹے کا باپ ہوں''شہید کے والد گرامی نے میڈیاکے سامنے برملا ان جذبات کااظہار کیا کہ میرے چاروں بیٹے بھی ملک پر قربان ہوجائیں تومجھے کوئی ملال نہیں ہوگا۔مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے نے ملک کی خاطر اپنے جسم پر گولی کھائی۔
شہید کے بڑے بھائی اللہ دتہ (ویٹرنری ڈاکٹر)نے یادوں کے دریچے سے جھانکتے ہوئے بتایا کہ:''ناصر بچپن سے شرارتی بالکل نہ تھا ۔وہ ایک نفیس انسان تھا ۔وہ نہایت سنجیدہ ،نمازی اور روزہ دارشخص تھا۔ہمیشہ پرسکون رہتا، وہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھا۔والدہ اور والد کے ساتھ بہت زیادہ محبت تھی۔ابھی اس کا شناختی کارڈ بھی نہیں بناتھا اور وہ ب فارم پر فرنٹیئر کور میں بھرتی ہوگیاتھا۔ہمار ے گائوں کا ایک نوجوان محمد فاضل ہے جو پاک فوج میں کلرک ہے۔ہمارے والدصاحب نے اسے کہا کہ میرے بیٹے کوبھی فوج میں بھرتی کروا دو۔والد صاحب کہتے تھے کہ ہم اللہ کے فضل سے اچھے زمین دار اور کاشتکار ہیں،ہمیں نوکری کی ضرورت نہیں لیکن میرے داداچراغ خان بھی فوج میں حوالدا رتھے تواب میرا دل کرتا ہے کہ میرے چاروں بیٹوں میں سے ایک بیٹا بھی فوج میں بھرتی ہوجائے تاکہ میرے گھر کی بھی فوج میں نمائندگی ہو۔آخر ایک دن محمد فاضل نے ناصر عباس کو کوئٹہ بلوایا اور فرنٹیئرکور بلوچستان میں بطور سپاہی بھرتی کروادیا۔
وہ شہادت سے ڈیڑھ مہینے پہلے چھٹی گزار کرواپس گیا۔جس دن وہ سبی سے آگے بہت دور ایک پہاڑی سلسلے سنگان میں اپنی چیک پوسٹ پر گیا تومجھ سے رابطے میںرہا۔ اسے اپنی چیک پوسٹ پر پیدل جاتے ہوئے ایک ہفتہ لگا ۔ اس دوران جب بھی اسے موبائل فون کی سروس میسر آتی وہ گھروالوںسے رابطے میں رہا، شہیدہونے سے دو دن قبل اس کا وٹس ایپ پر وائس میسج آیا کہ گھر کے پیارے پیارے بچوں کی تصویریں مجھے سینڈ کریں اور سب کوسلام دے دیں۔وہ بچوں کے ساتھ بہت پیارکرتا تھا۔
شہید کے کزن محمد نزاکت نواز جو ایک حساس ادارے میں ملازم ہیں، نے بتایا کہ 24جون2021ء جمعرات کے دن  ناصر عباس سبی سے آگے سنگان کے مقام پراپنی چیک پوسٹ پرموجود تھے کہ انہیں کہاگیا کہ کافی دور دوسری چیک پوسٹ پر فوجی ٹرک پر کچھ سامان آیا ہے آپ جاکروہ لے آئیں ۔یہ پانچ جوان جوکہ سول کپڑوں میں ملبوس تھے، نمازِعصر کے بعد چیک پوسٹ سے اپنا سامان لے کر واپس اپنی چیک پوسٹ کی جانب لوٹ رہے تھے کہ پہلے سے تاک میں بیٹھے دہشت گردوں نے ان پر پیچھے سے بہت بڑا حملہ کیا جس کے نتیجے میں لانس نائیک ناصرعباس اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ موقع پر جام شہادت نو ش کر گئے ۔بعد میں ایف سی نے واقعہ کی تحقیق کی تو معلوم ہو اکہ دہشت گردوںکی اندھا دھند فائرنگ کے باوجود جوانوں نے انہیں جواب دینے کی کوشش کی اورناصر عباس کی گن سے دشمن پر تین عدد فائر کیے گئے ۔
نزاکت نواز نے راقم السطور کوبتایا کہ  دہشت گرد ایسے واقعات کی ویڈیوز بھی بناتے ہیں اوراپنے یوٹیوب چینل پر کسی دوسرے ملک سے اپ لوڈ کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسی مذموم کارروائیوں کی ویڈیوز شیئر کر کے ہی وہ بھارت اور دیگر دشمن ممالک سے فنڈز حاصل کرتے ہیں۔نزاکت نواز نے بتایا کہ اس واقعہ میں ناصر عباس کے ہمراہ شہید ہونے والے جوانوں میں حوالدار ظفر علی خان (لکی مروت)،لانس نائیک ہدایت اللہ( لکی مروت)،سپاہی نوراللہ (لکی مروت) اور لانس نائیک بشیراحمد( نصیر آباد)  شامل تھے۔ان شہدائے وطن کے جسد خاکی ایف سی ہیڈ کوارٹرکوئٹہ لائے گئے جہاں ان کی نمازہ جنازہ اداکی گئی جس میں  کمانڈر کوئٹہ کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز( بعد ازاں شہید) ، دیگر اعلیٰ حکام اور جوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔



اس چیک پوسٹ کے ایک جوان نے شہید کے ورثاء کو بتایا کہ :''ہماری چیک پوسٹ پر 42جوان تعینات تھے۔ناصرعباس ہمیشہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا۔ وقوعہ کے روز اس نے ظہر کی نماز جماعت سے پہلے ہی ادا کردی،میں نے پوچھا کہ آج آپ نے جماعت کا انتظار نہیں کیاتو ناصر عباس کہنے لگاکہ میرے چار دیگر ساتھی دوسری چیک پوسٹ پر جانے کے لیے تیارہیں اوروہ میرا انتظار کررہے ہیں، اس لیے میں نے جلد ی سے پہلے نما ز اداکرلی ہے ،باقی میں عصرکی نماز اسی چیک پوسٹ پر جاکر اداکرلو ں گا۔پھر وہ چلے گئے اور مغرب کے وقت ان پانچ جوانوں کے جسد خاکی ہم تک پہنچے۔
 ناصرشہیدکے بھائیوں نے بتایاکہ 24جون2021ء بروز جمعرات شام کے وقت ان کی شہادت ہوئی اورہمیں جمعہ کی صبح سات بجے ان کی شہادت کی اطلا ع حوالدار اشفاق حسین نے دی جو ہمارے گائوں کے رہنے والے ہیں۔ صوبیدار صفدرحسین، حوالدار اشفاق حسین اور کلرک محمدانیس ناصر عباس شہید کاجسد خاکی لے کر  کوئٹہ سے ان کے آبائی گائوں منکیرہ پہنچے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل محمد عامر کی قیادت میں فوجی جوانوںنے شہید کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان چاہ   حطارانوالا منکیر ہ میں سپرد خاک کیااور چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے پھولوں کی چادرچڑھائی۔نماز جنازہ میں فوجی افسروں،اہلکاروں،سیاستدانوں اور اہل علاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
منکیرہ ضلع بھکر(پنجاب )کی تحصیل ہے ۔منکیرہ شہر سے جھنگ کی جانب سفر کریں توچار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بستی ''حطاراں والا''واقع ہے ۔لانس نائیک ناصر عباس شہید کا تعلق اسی گائوں سے تھا۔ شہید کے ورثاء نے مین جھنگ بھکر روڈ پر''حطاراں والاچوک'' پرشہید کی خوبصورت تصویر پر مبنی بورڈنصب کرکے اس چوک کانام ''ناصر عباس شہید چوک''رکھ دیا ہے۔منکیرہ شہر میں شہیدکے بھائیوں نے لاریب انجینئر نگ ورکس کے نام سے اپنا کاروبار بھی سنبھالا ہو ا ہے لیکن اب انہوںنے اپنے شہید بھائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کمپنی کانام تبدیل کر کے ''ناصر عباس شہید انجینئرنگ ورکس''رکھ دیا ہے۔
لانس نائیک ناصر عباس  10مئی1995ء کو پیداہوئے۔ والدگرامی کانام حاجی شاہ نواز ہے اوروہ علاقہ کی معروف کاشتکار قوم '' حطار ''سے تعلق رکھتے تھے۔حاجی شاہ نوازکو اللہ تعالیٰ نے چاربیٹوں سے نوازا۔اللہ دتہ (ویٹرنری ڈاکٹر)،قیصر عباس اورمنتظرعباس۔ناصرعباس نے مڈل کا امتحان گورنمنٹ مڈل سکول چاہ نور شاہ والا منکیرہ اورمیٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول منکیرہ سے پاس کیا۔وہ فرنٹیئرکوربلوچستان نارتھ کے150ونگ کاحصہ تھے۔کوئٹہ،پاک افغان بارڈر،سنگان،بولان،سبی،ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیر ہ بگٹی میں چھ سال تک خدمات انجام دیں۔شہید کے بھائی اللہ دتہ  بتانے لگے کہ ناصر نے جب جوانی کی دہلیز پرقدم رکھا تو ان کے دل ودماغ میں بس ایک ہی شوق رچ بس گیا تھا کہ وہ پاک فوج یا اس کے زیر انتظام کسی ایسے ونگ کاحصہ بن جائیں تاکہ خاکی وردی ان کے جسم پر سج جائے۔ناصر عباس نے اپنی چھ سالہ فوجی زندگی بلوچستان کے شورش زدہ علاقوںمیں گزاری ،انہوں نے متعدد بار وطن دشمنوں کادلیری سے سامنا کیااور اپنے فرائض منصبی نہایت احسن طریقے سے انجام دیے۔ناصرشہید کے والدین اوربھائی ان کی یادوں کوسینے میں سجائے بہت دکھی رہتے ہیں،ظاہر ہے کہ اپنے پیاروں کا دکھ ایک فطری سی بات لیکن وہ کہتے ہیں کہ :''ہمارے بھائی اور بیٹے کوایسی بہادروں والی موت نصیب ہوئی جو کم لوگوں کے مقدرمیںہواکرتی ہے''۔


مضمون نگار ایک قومی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں
[email protected]                
 

یہ تحریر 255مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP