21 اپریل 1938 کو مصور پاکستان علامہ اقبال تو دنیا سے رخصت ہو گئے مگر قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے دیے ہوئے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کی عملی تعبیر کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور ان کے ولولہ انگیز قیادت کی بدولت بالآخر وہ دن آگیا جب 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے منظور کی گئی جو دو قومی نظریہ کا منطقی نتیجہ اور قیام پاکستان کی منزل کا آخری سنگ میل ثابت ہوئی۔
1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے ساتھ ہی برصغیرپر انگریزوں کا اقتدار مکمل طور پر قائم ہوگیااور ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہوا اورظلم کی ایسی داستانین رقم ہوئیں کہ جنہیں سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کے جذبہ آزادی کو دبانے کے لیے ظلم وستم کا ہر حربہ استعمال کیا مگر وہ کبھی مسلمانوں کے جذبہ حریت کو مات نہ دے سکے۔مسلمانوں نے اپنی روایتی رواداری کی بنا پر ہندوئوں کیساتھ مل کر،برطانوی حکمرانوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا چاہی اور اسی لیے مسلم رہنما ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح سمیت بڑے بڑے مسلم رہنمائوں کی کانگریس میں شمولیت اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ان کی مسلسل کوششیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہندوئوں نے مسلمانوں کی اس رواداری اور خلوص کا جواب ہمیشہ بغض، عناد،مکاری، سازش اور ہر موقع پر نقصان پہنچانے کی حکمت عملی سے دیا۔ نہرو رپورٹ ہندوئوں کی مسلم دشمنی کا نقطہ عروج ثابت ہوئی جس نے مسلم رہنمائوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ہندو مسلم اتحاد کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
نہرو رپورٹ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سائمن کمیشن کی ناکامی کے بعد ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی۔اس آل پارٹیز کانفرنس میں موتی لعل نہرو کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے لیے ہندوستانیوں کے ذریعے ایک ایسے آئینی ڈھانچے کو تشکیل دینا تھا جو ہندوستان میں آباد تمام قومیتوں کے لیے قابل قبول ہو یا جس کو کم از کم کانفرنس میں شریک تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کمیٹی نے جو آئینی رپورٹ تیار کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اسے نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے کسی قسم کے حقوق کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ جن شقوں سے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں
• جداگانہ طریقہ انتخابات کو منسوخ کرنے کے لیے کہا گیا۔
• ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت کی بجائے وحدانی طرز حکومت کی سفارش کی گئی۔
• مکمل آزادی کی بجائے نوآبادیاتی طرز آزادی کے لیے کہا گیا۔
• ہندی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاسی پیش رفت میں جوں جوں کانگرسی پنڈت اور ہندو مہا سبا کے انتہا پسند ہندو تنگ نظر ہوتے گئے، بالکل اسی مناسبت اور رفتار سے مسلم لیگی لیڈر شپ کی سیاسی بصرت میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اور یوں کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان لڑا جانے والا سیاسی کھیل عمل اور ردعمل کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور اس رپورٹ نے ہندو مسلم اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
قائد اعظم محمد علی جناح جو ابتدا میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست علمبردار تھے۔ نہرو رپورٹ سے انہیں بھی اس بات کا شدید احساس ہوگیا کہ ہندو قوم کی نیت نیک نہیں اور مسلمانوں کو اپنی آزادی کے لیے الگ سے جدوجہد کرنی ہوگی۔چنانچہ وہ بھی مخلوط انتخاب کی حمایت سے دستبردار ہوکر جداگانہ انتخاب کی طرف آگئے۔ مسلمانوں کے عظیم رہنما مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ"مجھے جوانی میں شکاری کتے پالنے کا بہت شوق تھا مگر میں نے کسی شکاری کتے کو خرگوش کے ساتھ ایسا سلوک کرتے نہیں دیکھا جیسا نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا ہے"مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی اور دیگر متعدد بڑے مسلم رہنمائوں نے فوری طور پر کانگرس کو خیرباد کہہ دیا۔
یہاں ایک نکتہ انتہائی قابل غور ہے اور ہمیں مصور پاکستان،حکیم الامت اور دانائے راز علامہ محمد اقبال کے فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ جس حقیقت کو قائداعظم سمیت دیگر مسلم رہنمائوں نے 1928 میں سمجھا اسے علامہ اقبال بہت پہلے 1907 ہی میں جان گئے تھے۔ 1907 میں وہ ہندو مسلم اتحاد کی خیالی جنت سے نکل کر دو قومی نظریے کی ضرورت و اہمیت کو جان چکے تھے اور ان کا1905 سے پہلے کا لکھا ہوا "ہندوستانی بچوں کا گیت" تبدیل ہو کر اب "ملی ترانہ" بن چکا تھا اور "ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا" کے نغمے گانے والا اقبال اب "مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا" کے گیت الاپنے لگا تھا۔ علامہ اقبال کے دیدہ بینا نے دیکھ لیا تھا کہ نہ ہندو مسلم اتحاد ممکن ہے اور نہ ہی یہ وقت کی ضرورت ہے اور بالفرض اگر یہ اتحاد ہو بھی جاتا ہے تو یہ مسلمانوں کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا اور آخرکار مسلمانوں کی مستقل غلامی پر منتج ہوگا۔لہٰذا 1907 کے بعد ہی سے علامہ اقبال نے ہندو مسلم اتحاد کی ہر کوشش سے اپنا راستہ جدا کر لیا تھا اور اب نہرو رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ مضبوطی سے دو قومی نظریے پر ڈٹ گئے اور ان کے قلب و ذہن میں مسلم قوم کے لیے الگ خطے کے خدوخال نمایاں ہونے لگے اور ان کے یہی خیالات آخرکار 1930 میں ان کے خطبہ ا لہٰ آباد میں ایک آزاد اسلامی ریاست کی تجویز کی شکل اختیار کر گئے۔ہند میں مسلمانوں کے جائز حقوق اور مفادات کا مسئلہ علامہ اقبال کے ذہن میں خصوصی اہمیت اختیار کر چکا تھا اور وہ اپنی حیات مستعار کی آخری سانسوں تک اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں رہے۔آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے علامہ اقبال نے 29 دسمبر 1930 کو الہٰ آباد میں اپنا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ہند کے درپیش مسائل کا معروضی جائزہ لینے کے علاوہ مسلم قومیت اور ہندی قومیت کے تصورات کا عالمانہ تجزیہ کیا اور ہندوستان میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا تصور پیش کیا۔ یہ خطبہ اقبال کی سیاسی بصیرت اور تدبر اور ان کی فکر و نظر کا آئینہ دار ہے۔حکیم الامت نے اپنے خطبے میں کہا ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں،ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے۔ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندان توحید کی جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہو گا۔میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب،صوبہ شمال مغربی سرحد،سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی"۔
ہندوستان میں آئینی اصلاحات کے لیے لندن میں 1930 ،1931 اور 1932 میں تین گول میز کانفرنسیں بلوائی گئیں۔ان کانفرنسوں میں علامہ اقبال اور قائداعظم سمیت کانگرس،مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں اور فرقوں کے سر کردہ رہنمائوں نے شرکت کی۔کانگرسی رہنماؤں کی شدید ہٹ دھرمی کے باعث یہ کانفرنسیں آئینی اصلاحات،اقلیتوں کے مسئلے اور مسلمانوں کے حقوق کے مطالبات بالخصوص جداگانہ انتخابات کے مطالبے کے حوالے سے کسی خاص نتیجے اورسمجھوتے پر نہ پہنچ سکیں۔
اس اثنا میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کے مستقبل اور سیاستدانوں سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔1935 میں نیا انڈیا ایکٹ جاری کیا گیا جس نے پہلے مرحلے میں ہندی صوبوں کو کچھ خودمختاری عطا کی اور بعد ازاں دوسرے مرحلے میں مرکز میں کسی حد تک ذمہ دار حکومت کے قیام کی پیش بینی کی۔ہندی مسلمانوں کے لیے یہ وقت زبردست انتشار اور بدنظمی کا تھا۔ علامہ اقبال نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے لندن میں قائد اعظم سے ملاقاتیں کرکے انہیں ہندوستان واپس آ کر کاروانِ ملت یعنی مسلم لیگ کی قیادت کے لیے آمادہ کرلیا۔لہٰذا ایسے کڑے وقت میں قائداعظم نے اس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور مسلم لیگ کو جمہوری جماعت بنانے اور پارلیمانی بورڈ تشکیل دے کر عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلے میں1936میں وہ پنجاب آئے مگر پنجاب یونینسٹ پارٹی کے بانی میاں سر فضل حسین اور بعض دوسرے مسلمان رہنمائوں نے ان سے تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا۔پھر قائد اعظم جاوید منزل میں علامہ اقبال کے پاس آئے علامہ اقبال نے بصد خلوص قائداعظم کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور اس عہد کو اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک نبھایا۔
قائداعظم نے صوبائی انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا تو علامہ اقبال نے ان کا پورا پورا ساتھ دیا اور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کے مابین مکمل اتحاد قائم کروانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔قائداعظم کی افہام و تفہیم کوششوں سے علامہ اقبال کی وفات سے تین دن قبل کلکتہ میں مسلم لیگ کے اجلاس کے موقع پر پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین مکمل اتحاد قائم ہو گیا جو آزادی کی تحریک کے لیے انتہائی نیک شگون ثابت ہوا۔21 اپریل 1938 کو مصور پاکستان علامہ اقبال تو دنیا سے رخصت ہو گئے مگر قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے دیے ہوئے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کی عملی تعبیر کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور ان کے ولولہ انگیز قیادت کی بدولت بالآخر وہ دن آگیا جب 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے منظور کی گئی جو دو قومی نظریہ کا منطقی نتیجہ اور قیام پاکستان کی منزل کا آخری سنگ میل ثابت ہوئی۔اس قرارداد میں مسلم لیگ نے صاف لفظوں میں ہندوستان میں آزاد اور خودمختار مسلم مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس تاریخی اجلاس میں قائداعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں دوٹوک لفظوں میں مسلمانوں کا یہ اٹل فیصلہ سنایا کہ مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ہندوستان کے مغرب اور مشرق میں اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں۔
یہ ایک خوشگوار اور حیرت انگیز امر ہے کہ قائداعظم مسلم لیگ نے یہ مطالبہ 1940 میں کیا مگر مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے1930 میں اپنے خطبہ ا لہٰ آباد میں شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کو ایک اٹل حقیقت قرار دے دیا تھا۔ دسمبر 1930 میں انہوں نے مستقبل کے دھندلکوں میں جس آزاد اسلامی مملکت کو دیکھا تھا، وہ اپنی وفات تک دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اس آزاد مسلم ریاست کے قیام پر مسلسل زور دیتے دکھائی دیتے ہیں اور 1937میں اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل تو وہ شدت سے محسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے مطالبے کا وقت آگیا ہے۔ان کے متعدد خطوط تقاریر اور بیانات اس پر شاہد ہیں۔وہ قائد اعظم کی توجہ بار بار اس جانب مبذول کرواتے ہیں۔قائداعظم نے "اقبال کے خطوط جناح کے نام" کے دیباچے میں خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے اور میرے خیالات میں بہت حد تک ہم آہنگی تھی۔ہندوستان کو درپیش دستوری مسائل کے گہرے تجزیے اور مطالعہ پر ان کے خیالات نے بالآخر مجھے انہی نتائج پر پہنچا دیا جن پر وہ خود پہنچے تھے۔انہی خیالات کا اظہار مسلمانان ہند کے متحدہ مطالبہ کے طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاہور میں، جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہے،کیا گیا۔
قائد اعظم کے نام علامہ اقبال کے خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ دلچسپ اور خوشگوار احساس بار بار دامن گیر ہوتا ہے کہ جیسے وہ مسلسل قائد اعظم کی رہنمائی کر رہے ہیں اور انہیں قرار دار پاکستان پیش کرنے اور اس کی روشنی میں قیام پاکستان کی جدوجہد میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے اور آزادی کی تحریک تیز تر کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔20 مارچ 1937 کے ایک خط میں وہ قائداعظم کو لکھتے ہیں کہ آپ دہلی میں فوراً آل انڈیا مسلم کنونشن کا انعقاد کریں جس میں تمام صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان اور عام مسلمان سیاسی لیڈروں کو مدعو کریں۔اس میں آپ پوری قوت اور واشگاف طور پر ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی نصب العین واضح کر دیں کہ وہ ملک میں ایک جداگانہ سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔ہندوستان اور بیرون ملک یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہندوستان کو محض اقتصادی مسئلہ درپیش نہیں ،ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے تہذیبی ورثے کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے بلکہ یہ اقتصادی مسئلے سے کم اہم نہیں۔اسی طرح 28 مئی 1937 کو وہ قائد اعظم کے نام اپنے ایک انتہائی اہم خط میں رقم طراز ہیں کہ
''اس ملک میں جب تک ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ آئیں اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔۔۔۔ مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ مسلمانان ہند کے ان مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہو سکے گا جبکہ ملک کی ازسر نو تقسیم کی جائے اور ایک یا زائد مسلم ریاستیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہو وجود میں لائی جائیں۔ کیا آپ کے خیال میں اس مطالبے کا وقت نہیں آن پہنچا۔
علامہ اقبال21 جون 1937 کو ایک بار پھر قائداعظم کو لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں امن و امان قائم کرنے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب یہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ مسلم صوبوں کی علیحدہ فیڈریشن قائم کی جائے۔ کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ قوم تصور نہ کیا جائے جنہیں ہند اور بیرونِ ہند کی دوسری اقوام کی طرح حق خوداختیاری حاصل ہو۔
یہ بات بھی انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ قائد اعظم کے نام اپنے خطوط میں اقبال بار بار انہیں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں اور یہاں اجلاس منعقد کرنے پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً وہ 11اگست1937 کے ایک خط میں قائداعظم کو لکھتے ہیں کہ ''مجھے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور میںلیگ کا اجلاس بلانا لیگ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا"۔
اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ قدرت کو یہی منظور تھا اور یہی ہوا کہ قائد اعظم نے علامہ اقبال کی خواہشات،ہدایات اور مشوروں کو مد نظر رکھتے ہوئے 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس بلایا جو واقعی برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور ملی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور آزادی کے سفر کو تیز تر کرنے اور آزادی کی منزل کو قریب تر لانے میں اہم ترین اور انقلاب آفرین اجلاس قرار پایا۔ اس تاریخی اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تاریخی "قرارداد پاکستان" پیش کی کہ
''ہندوستان کے آئینی مستقبل سے متعلق مسلمانوں کو وہی تجویز قابل قبول ہو گی جس کے تحت صوبائی سرحدوں میں ضروری ردوبدل کر کے ملک کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ ان علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہو سکیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطے"۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے صدارتی خطاب میں مسلمانوں کا دو ٹوک فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان قومیت کی ہر تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں۔ان کے لیے ایک علاقہ اور وطن ہونا چاہیے۔ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں۔ان کا اکٹھا رہنا ایک تباہی کا پیش خیمہ ہو گا۔لہٰذا مسلمانوں کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ہندوستان کے مغرب اور مشرق میں دو اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں۔
مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسے میں یہ تاریخی "قرارداد پاکستان" کامل اتفاق سے منظور کی گئی۔یہاں یہ بات انتہائی قابل توجہ، قابل غور اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ قرارداد منظور ہونے کے بعد قائداعظم نے اپنے سیکرٹری ایچ۔ایم سید سے فرمایا کہ آج اقبال زندہ نہیں ہیں،اگر وہ زندہ ہوتے تو انہیں خوشی ہوتی کہ ہم نے ان کی خواہش پوری کر دی۔
قرارداد پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبہ آزادی کے لیے مہمیز کا کام کیا،ان میں جوش و جذبے کی ایک نئی روح پھونک دی اور وہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی منزل پانے کے لیے دیوانہ وار میدان عمل میں نکل آئے۔مسلمانوں کی صبر آزما جدوجہد، لاکھوں قربانیوں اور قائداعظم کی مدبرانہ اور ان تھک قیادت کی بدولت،آخرکاریہی قرارداد پاکستان 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کے آزاد وطن پاکستان کا روپ دھار گئی۔آج ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کی آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور باوقار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہمیں اپنے اس عظیم وطن کی فلاح و بقا،تعمیر و ترقی اور دفاع کے راستے میں "یقین محکم" "عمل پیہم" اور "محبت فاتح عالم"کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تن، من، دھن قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔بزرگوں کی لاکھوں قربانیوں کا قرض اتارنے اور علامہ اقبال اور قائد اعظم کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کا یہی واحد اور بہترین طریقہ ہے۔
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ||
یہ تحریر 389مرتبہ پڑھی گئی۔