یوم پاکستان

اقبال کا خطبۂ الہٰ آباد اور تصورِ مملکت

اقبال نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اسلامیانِ ہند کی مجوزہ آزاد اور خود مختار مملکت میں اسلام کو عرب شہنشاہیت کی زنجیروں سے آزاد کردیا جائے گا، دُنیائے اسلام کا انجماد ٹوٹے گا اور یوںاسلام کی حرکی اور انقلابی روح بیدار اور سرگرمِ کار ہو سکے گی۔ ہم نے گزشتہ نصف صدی کے دوران عرب ملوکیت کی چھاپ سے اسلام کو پاک کرنے کے بجائے اس چھاپ کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ تو ہم اُس حقیقی اسلام کی بازیافت کر پائے ہیں اور نہ ہی اسلام کے قانون، تعلیم اور کلچر کو تحریک دے کر اسلام کی حقیقی روح کو روحِ عصر سے ہم آہنگ کر پائے ہیں۔ ہماری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطنِ عزیز مذہبی جنون اور فرقہ وارانہ تشدد کی گرفت میں پڑا سسکتا ہے۔ اسلام کے بجائے مُلائیّت سے پھوٹنے والے اس جنون اور تشدد کا علاج فکرِ اقبال میں موجود ہے مگر المیہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی ہماری قومی زندگی میں فکرِ اقبال سے انحراف کی صدی ہے۔ انحراف سے اثبات کی جانب ہمارا سفر سن 1930ء کے خطبہ الہٰ آباد سے شروع ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ ہماری سیاسی اور فکری تاریخ کی اس اہم ترین دستاویز ہی سے پاکستان کا تصور پھوٹا تھا۔


تاریخی پسِ منظر
ہرچند تصورِ پاکستان کی جڑیں اسلامی ہند کی تاریخ میں دُور، بہت دُور تک پھیلی ہوئی ہیںتاہم اگرہم اپنی آسانی کی خاطر کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1930ء سے صرف دس سال پہلے کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمارے لئے اقبال کے خطبۂ الہ آباد کے فوری محرکات کو سمجھنے میں آسانی بھی پیدا ہو جائے گی اور اس خطبے کے بے مثال قبولِ عام کا راز پانے میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ اقبال نے اپنے اس خطبے کے آغاز میں ایک ایسی بات کہہ رکھی ہے جس کی جانب اب تک توجہ نہیں دی گئی۔ انھوں نے کُل ہند مسلم لیگ کے کارپردازان کا شکریہ ادا کرتے وقت کہا تھا:۔


"To address this session of the All-India Muslim League you have selected a man who is not despaired of Islam as a living force for freeing the outlook of man from its geographical limitations, who believes that religion is a power of the utmost importance in the life of individuals as well as States, and finally who believes that Islam is itself a Destiny and will not suffer a destiny. Such a man cannot but look at matters from his own point of view." (P.165)

اقبال کا یہ کہنا کہ وہ اسلام سے مایوس نہیں ہیں اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ ہندوستان میں باقی ماندہ مسلمان سیاستدان اسلام کے اجتماعی مقدر سے مایوس ہیں۔ یہ ایک تاریخی صداقت ہے۔ انگریز کے پروردہ موروثی سیاستدان تو انگریز ہی کی سنتے اور مانتے تھے اس لئے انھیں یہاں زیر بحث لانا کارِ لاحاصل ہے۔ میں یہاں صرف مذہبی سیاسی پارٹیوں اور علمائے دین کی اکثریت کی بات چھیڑوں گا۔ بیشتر مذہبی سیاسی جماعتیں تو کانگرس کی حلیف تھیں ہی مگر وہ جو کانگرس پر ہندو اجارہ دار سرمایہ داری سے خائف سوشلسٹ علماء تھے وہ بھی اسلام کے اجتماعی مسلک سے روگرداں ہو چکے تھے۔ اس کی ایک مثال مولانا عبیداللہ سندھی ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی منزل استنبول سے ریاستہائے متحدہ ہندوستان کا جو منشور شائع کیا تھا اُس کے ٹائٹل پر اقبال کے ترانۂ انقلاب میں سے ایک شعر بھی درج کیا تھا اور یہ اعلان بھی کہ اس منشور کا پان اسلامزم قسم کے کسی اتحادِ اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے ٹائٹل ہی پر یہ اعلان کرنا بھی ضروری سمجھا تھا کہ وہ اور اُن کی مجوزہ پارٹی کے اراکین انڈین نیشنل کانگرس کے دائرے میں رہ کر اپنے سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ پھر جب قراردادِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد انھوں نے ''جمنا، نربدہ، سندھ ساگر پارٹی'' قائم کی تو اُس کے منشور میں بھی یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کی جماعت صرف لسانی قومیت پر ایمان رکھتی ہے۔ چنانچہ ہر لسانی گروہ ایک الگ تہذیبی اور جغرافیائی وحدت ہوگا اور یہ درجنوں لسانی اور جغرافیائی وحدتیں مل کر ایک کُل ہند وفاق کی صورت اختیار کر لیں گی۔


ایک ایسے زمانے میں جب مسٹر اور مُلا ہر دو اسلام کے اجتماعی مقدرسے روگردانی کر چُکے تھے، اقبال کا یہ اعلان کہ ''اسلام اپنا مقدر آپ ہے اور وہ اسلام کے اس مقدر سے مایوس نہیں ہیں'' اسلامیانِ ہند کی تاریک زندگی میں روشنی کی ایک کرن ثابت ہوا۔ اسلامی ہند کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اقبال کے خطبۂ الہ آباد کی پذیرائی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عبدالحمید علوی کے مضمون میں دیے گئے اس اقتباس پر غور کریں:


"The decade of twenties is regarded by the historians as pace-setter for the events which followed in the thirties and forties on the political scene in India. The decade began with the demonstration of unprecedented harmony in the Hindu-Muslim relations but as it unfolded itself the harmony was replaced by conflict and conflagration. Soon the two communities stood wide-apart never to unite again. The rise of Hindu extremism under the banner of Mahasabah and Arya Smaj had come to stay. It questioned the newly established tradition of separate electorate for Muslims and their right to live and flourish within the folds of Islamic culture. Worst still the Indian National Congress, threatened by the ever increasing popularity of Mahasabah among Hindu masses, was beginning to yield to the demands of extremist politics. By 1927 it had acquired many a stances of the Mahasabah, and a year later in the constitutional structure proposed by Pandit Moti Lal Nehru and adopted by Congress despite the strongest possible Muslim opposition, the views of Mahasabah about Muslim separatism were eminenty reflected. The Round Table Conference of 1930 was of no solace to Muslims either; it too echoed the Moti Lal formula which had practically denied safeguards to the Muslim minority in the future constitution of India."


یہاں اگر 1922ء میں بھڑک اُٹھنے والی مالا بار کے مسلمانوں کی بغاوت کا تذکرہ بھی کر دیا جائے تو تصویر بڑی حد تک مکمل ہو جائے گی۔ برطانوی پولیس نے مالا بار میں تحریکِ خلافت کے ایک رہنما اور اُس کی بیوی کو سرِ بازار کوڑے مار مار کر بے جان کر دیا۔ اس پر مالا بار کے مسلمان برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت پر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے تھانوں کو آگ لگا دی اور برطانوی افسر شاہی کو مار مار کر علاقے سے بھاگ اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ سلطنتِ برطانیہ کو اس علاقے میں اپنا اقتدار بحال کرنے میں ایک لمبے عرصے تک سر توڑ کوشش کرنا پڑی۔ جب انگریز اقتدار دوبارہ قائم ہو گیا تو ہندئووںنے ''مالا بار کی خونی داستان'' جیسے کتابچوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہندئووں پر تشدد کے جھوٹے واقعات بیان کر کے برطانوی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا چاہی۔ انڈین نیشنل کانگرس نے اپنے چند مسلمان اراکین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے مسلمانوں کو ہندئووں کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا۔ کانگرس نے اس تحقیقاتی رپورٹ کو رد کر دیا اور یوں مالا بار سے مسلمانوں کو جلا وطن کر دینے کے برطانوی اقدامات کی تائید و حمایت کی پالیسی اپنائی۔ تقریباً سبھی مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ مالا بار کے مسلمانوں کی یہ بغاوت اور اس بغاوت کے ضمن میں اپنائی گئی کانگرسی پالیسی نے تحریکِ خلافت کے زمانے کے ہندو مسلم اتحادکوختم کر کے رکھ دیا تھا۔


اتحاد کے ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت کی مسلمان کش پالیسی کے باعث ہندوستان کے مسلمان انتہائی مایوسی اور فکری انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے۔اُن کی سیاسی زندگی میں قیادت کا فقدان پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ایک منتشر، بے یار و مددگار اور بے سمت ہجوم بن کر رہ گئے تھے۔ اُن کی ساری سیاسی جدوجہد غالب اورجارحیت پسندہندو اکثریت سے آئینی تحفظات کی بھیک مانگنے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس تیرہ و تار فضا میں جب سن انیس سو تیس کے خطبۂ الٰہ آباد میںاقبال کی خودی میں سرشار آواز گونجی کہ ہندوستان کے مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں تو عوامی سطح پر تاریکیاں چھٹ سی گئیں۔


اقبال کا تصورِ پاکستان
پاکستان کا تصور اپنے قومی وجود سے محبت اور دوسروں کے قومی وجود کے احترام سے عبارت ہے۔ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے بڑے دو ٹوک انداز میں اس حقیقت کا انکشاف فرمایا تھاکہ برطانوی ہند ایک ملک نہیں بلکہ ایک برصغیر ہے۔ اس برصغیر کی جغرافیائی وحدت ایک سامراجی وحدت ہے جسے سلطنتِ برطانیہ کی سنگینوں کے زور پر اوپر سے مسلط کیا گیا ہے۔ برطانوی ہند ایک مُلک کا نام نہیں بلکہ کئی ممالک کے مجموعے کا نام ہے۔ ان میں سے ہر ملک میں ایک قوم آباد ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ا ب برطانوی حکومت اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس انگلستان جا ئے اور ہندوستان کی تمام قوموں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے ماضی اور اپنی اپنی تاریخی اور تہذیبی روایات کے مطابق آزادی اور خود مختاری کی فضا میں زندگی بسر کر سکیں۔ برصغیر کی ان متعدد اقوام میں سے ایک قوم ہم ہندی مسلمانوں کی بھی ہے۔ ہم ہندی مسلمان جدید معنوں میں ایک قوم ہیں اور ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنے لئے ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کریں۔اس موقع پر اقبال نے ہندوئوں کو یہ یقین دہانی کرانا ضروری سمجھا تھا کہ:۔


"Nor should the Hindus fear that the creation of autonomous Muslim States will means the introduction of a kind of religious rule in such States. The truth is that Islam is not a church. It is a State conceived as a contractual organism long before Rousseau ever thought of such a thing and animated by an ethical ideal which regards man not as an earth-rooted creature, defined by this or that portion of the earth, but as spiritual being understood in terms of a social mechanism and possessing rights and duties as a living in that mechanism."(P-172)
اسلام کے وسیع النظر ، صلح کل اور انسان دوست سیاسی و معاشرتی مسلک پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ:۔
"A community which is inspired by feelings of ill-will towards other communities is low and ignoble. I entertain the highest respect for the customs, laws, religious and social institutions of other communities. Nay, it is my duty according to the teaching of the Quran, even to defend their places of worship, if need be. Yet I love the communal group which is the source of my life and behaviour and which has formed me what I am by giving me its religion, its literature, its thought, its culture and thereby recreating its whole past as a living operative factor in my present consciousness." (P-169)


ایک سچا مسلمان آدمیت، احترامِ آدمی کے مسلک پر اس حد تک کاربند ہوتا ہے کہ وہ وقت آنے پر دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت میں اپنی جان تک قربان کر دینے کو تیار رہتا ہے۔وہ ہر آن صفاتِ خداوندی کو اپنی ذات میں جذب کرنے میں کوشاں رہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی ذات میںہر کسی پر،مذہب و ملّت کے اختلاف سے قطع نظر، صرف شفقت و محبت کی نظر ہی ڈالتا ہے:
بندۂ حق از خُدا گیرد طریق
مے شود بر کافر و مومن شفیق


ہر مذہب و ملت کے وابستگان کے اس احترام کے باوجود وہ اپنے دین، اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب کے زندہ عناصر پر ہمیشہ ناز کرتا ہے۔اسلامیانِ ہند ان زندہ عناصر کو اپنی شخصیت میں فعال اور سرگرمِ کار رکھنے کی خاطر اپنی اکثریت کے علاقوں میںآزاد اور خود مختار ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خطبہ الٰہ آباد کا غور سے مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قیامِ پاکستان کا مطالبہ نفرت کی بنیاد پر ہر گز نہیں بلکہ سراسر محبت کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔


علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں قیامِ پاکستان کو ہندوستان اور اسلام ہر دو کے لئے باعثِ خیر و برکت ٹھہرایا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھاکہ پاکستان کے قیام سے ہندوستان میں اندرونی توازن اقتدار قائم ہوگا اور اس توازنِ اقتدار سے ہندوستان کے اندر امن قائم ہوگا اور ہندوستان کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ اسلام کو یہ موقع نصیب ہوگا کہ وہ شہنشاہیت کی چھاپ سے خود کو پاک کر کے اپنی ابتدائی سادگی اور پاکیزگی کی بازیافت کر سکے۔ شہنشاہیت نے اسلامی قانون، اسلامی تعلیم اور اسلامی کلچر کو منجمد کر رکھا ہے۔ پاکستان اسلام کی ایک ایسی تجربہ گاہ بن سکے گا جہاں شہنشاہیت کے زیر اثر پیدا ہونے والا انجماد ٹوٹ جائے گا اور قانون، تعلیم اور کلچر کی دنیائیں حرکت و عمل سے آشنا ہوں گی۔ اس طرح پاکستان میں اسلام کی حقیقی روح کو از سرِ نو دریافت کر کے روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے گا:


"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State in the best interest of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid iteself of the stamp that Arabian imperialism was forced to give it, to mobilize its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times."(P.173)


اقبال کا خواب یہ تھا کہ اسلامیانِ ہند کی مجوزہ آزاد اور خود مختار مملکت میں اسلام کو عرب شہنشاہیت کی زنجیروں سے آزاد کر دیا جائے گا، دُنیائے اسلام کا انجماد ٹوٹے گا اور یوں اسلام کی حرکی اور انقلابی روح بیدار اور سرگرمِ کار ہو سکے گی۔ اقبال نے تصورِ پاکستان پیش کرنے کے صرف ایک سال بعدکل ہند مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے وقت نوجوانوں کو مغرب کے استحصالی اقتصادی نظاموں کو رد کر دینے کا درس دیتے وقت قرآن کی حکمت کی جانب یوں متوجہ کیا تھا:


"The faith which you represent recognises the worth of the individual, and disciplines him to give away his all to the service of God and man. Its possibilities are not yet exhausted. It can still create a new world where the social rank of man is not determined by his caste or colour, or the amount of dividend he earns, but by the kind of life he lives; where the poor tax the rich, where human society is founded not on the equality of stomachs but on the equality of spirits, where an Untouchable can marry the daughter of a king, where private ownership is a trust and where capital cannot be allowed to accumulate so as to dominate the real producer of wealth. This superb idealism of your faith, hower, needs emancipation from the medieval fancies of theologians and legists."(P.213)


اپنی عہد آفریں شعری تخلیق ''جاوید نامہ'' میں بھی اقبال نے اشتراکیت اور سرمایہ داری ہر دو نظاموں کو ''یزداں ناشناس اور آدم فریب'' قرار دیتے ہوئے دنیائے انسانیت کو اسلام کی ابتدائی سادگی اور پاکیزگی کی جانب متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے یہاں بھی اسلام کی حقیقی روح کو از سرِ نو دریافت کر کے اپنے زمانے کی روح سے ہم آہنگ کرنے کا درس دیا ہے۔ اگر ہم نے قیامِ پاکستان کے بعد، مُلائیّت کی بجائے اقبال کے تصورِ اسلام پر عمل کرنا شروع کر دیا ہوتا تو آج ہم مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں ہر گز نہ ہوتے۔ آج بھی اقبال ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہم باہم برسرِ پیکار مذاہبِ فقہ کی بجائے حقیقی اسلام کی جانب رجوع کریں۔ اس کام کی ابتدا اُن تخیلات اوراحساسات کی زنجیریں توڑ کر ہی کی جا سکتی ہے جن میں ہمارے قدیم فقہا نے اسلام کو جکڑ بند کر کے منجمد کر دیا ہے۔ آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم اجتہاد کی راہ اپنا کر اس انجماد کو توڑ دیں تاکہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی ہر آن آگے بڑھتے ہوئے وقت کے ساتھ قدم ملا کے چل سکے۔


ہم نے گزشتہ نصف صدی کے دوران عرب ملوکیت کی چھاپ سے اسلام کو پاک کرنے کے بجائے اس چھاپ کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ تو ہم حقیقی اسلام کی بازیافت کر پائے ہیں اور نہ ہی اسلام کے قانون، تعلیم اور کلچر کو تحریک دے کر اسلام کی حقیقی روح کوروحِ عصر سے ہم آہنگ کر پائے ہیں۔ ہماری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطنِ عزیز مذہبی فرقہ واریت کے جنوں اور تشدد کی گرفت میں ہے۔ اسلام کے بجائے مُلائیّت سے پھوٹنے والے اس جنوں اور تشدد کا علاج فکرِ اقبال میں موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم فکرِ اقبال کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ اسلام کی وسیع النظر اور انسان دوست روح ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کارفرما ہو سکے۔


تصورِ پاکستان: اسلام یا سیکولرازم؟
آج کل ہماری قومی زندگی میں اس سوال پر بحث کا بازار گرم ہے کہ کیا پاکستان کا تصور ایک اسلامی مملکت کا تصور تھا یا ایک سیکولر سٹیٹ کا؟یہ بحث مجھے اس اعتبار سے غیر ضروری معلوم ہوتی ہے کہ تصورِ پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال نے سن 1930کے خطبہ الٰہ آباد میں ہی اس سوال کا جواب پیش کر دیا تھا۔ علامہ اقبال نے حیرت انگیز پیش بینی کے ساتھ اپنے خطبے میں پہلے خود ہی یہ سوال اُٹھایا اور پھر اس کا مدلل جواب دے دیا تھا۔ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ اُن کے زمانے کے مسلمان نوجوانوں نے سیکولرازم کا تصور یورپ سے مستعار لیا ہے۔ اسلام میں اس طرح کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ اقبال کے نزدیک سیکولرازم کا تصور یورپ کے مخصوص تاریخی تجربات سے پھوٹا ہے۔
یورپ کی تاریخ کے ایک خاص دور میں پادریوں نے اپنے لئے خُدائی حقِ حکمرانی کا دعویٰ کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور یوں وہ بیک وقت پادری اور بادشاہ بن بیٹھے۔ اس نظام حکومت کو تھیوکریسی کا نام دیا گیا۔ اس نظام کے تحت حکمرانی کے خُدائی حق کے دعویدار پادریوں نے عوام پر ناقابلِ بیان مظالم ڈھائے اور عیسائیت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس سنگین صورتِ حال کے خلاف مارٹن لوتھر نے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک نے بتدریج زور پکڑا اور یوں پادریوں کے حقِ حکمرانی یعنی تھیوکریسی کو باطل ثابت کرتے ہوئے زندگی کو دو دائروں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا۔ یہ دائرے سیکولر اور سیکرڈ یعنی مادی اور روحانی زندگی کے دو الگ الگ دائرے تھے۔ دُنیاوی زندگی کے سیکولر دائرے میں بادشاہوں کا حق حکمرانی تسلیم کیا گیا اور دینی زندگی کے دائرے کو کلیسا تک محدود کر کے پادری کی روحانی شہنشاہیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ زندگی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے اس عمل نے عیسائیت کو فقط رہبانیت تک محدود کر کے رکھ دیا۔


جب یورپ میں عیسائیت کو ایک خالصتاً راہبانہ نظام بنا کر رکھ دیا گیا تو ترکِ دُنیا کا وہ تصورپیدا ہوا جو بالآخر دین اور دُنیا، کلیسا اور ریاست اور مادی زندگی اور روحانی زندگی کودو الگ الگ اور باہم متصادم حصوں میں بانٹ دینے کا سبب بنا۔ اسلام میں اس طرح کی کسی ثنویت کا تصور موجود نہیں ۔ نہ ہی اسلامی تاریخ میں کبھی تھیوکریسی یعنی علماء کے خُدائی حق حکمرانی کا کوئی تصور موجود تھا۔ نتیجہ یہ کہ سیکولرازم کا تصور مسلمانوں میں پیدا ہی نہ ہو سکا۔ اگر خدانخواستہ مسلمانوں کی تاریخ میں تھیوکریسی قائم ہو گئی ہوتی تو پھر اُس کے خلاف ردعمل اور ردعمل کے نتیجے میں سیکولرازم کے پیدا ہونے کا امکان بھی ہو سکتا تھا۔ یورپ میں تھیوکریسی قائم ہوئی اس کے خلاف مارٹن لوتھر نے اصلاحِ دین کی تحریک چلائی اور اس تحریک کی کامیابی نے بالآخر عیسائی دُنیا میں مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے فقط فرد کی نجی زندگی تک محدود کر دیا۔ اس کے برعکس اسلام ایک اجتماعی نظامِ حیات ہے۔ زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے اور انسان کو اس مادی دُنیا میں زندہ رہ کر اور مادی سرگرمیوں میں مشغول رہ کر روحانی سربلندی کی راہ اپنانے کا درس دیا گیا ہے۔ اس بات پرروشنی ڈالتے ہوئے اقبال نے کہا ہے کہ:۔
"To Islam matter is spirit realising itself in space and time."
اور
"All that is secular is sacred in the roots of its being."
اقبال نے اپنے سامعین کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بحث کو فقط نظریاتی بحث نہ سمجھیں بلکہ اس کی عملی معنویت کو پیشِ نظر رکھیں کیونکہ سیکولرزم یا اسلام کے اس سوال کے درست جواب پر ہی برصغیر میں مسلمانوں کی منفرد تہذیبی ہستی کی بقا کا انحصار ہے!


علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد کے آغاز میں ہی یہ سوال اُٹھایا تھا کہ کیا مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو فقط ایک اخلاقی نظام کے طور پر تو باقی رکھیں مگر اس کے سیاسی نظام کو متحدہ ہندوستانی قومیت کی تعمیر کی خاطر ترک کر دیں؟ اقبال کے نزدیک یہ سوال برطانوی ہند میں مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے پیش نظر اور بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یورپ میں عیسائیت کو ایک خانقاہی نظام کی صورت دے کر مادی زندگی کو روحانی زندگی سے الگ کر دیا گیا۔ وہاں نیکی کا مفہوم ترک عمل اور ترک دُنیا سے عبارت ہو کر رہ گیا۔ اس لئے اگر یورپ کے لوگ مذہب کو فرد کا نجی معاملہ قرار دے کر سیاسی و اقتصادی اور معاشرتی و تہذیبی نظاموں کو مذہب کے دائرہ کار سے باہر قرار دیتے ہیں تو یہ بات قابلِ فہم ہے مگر مسلمانوں میں اس طرح کی سوچ ناقابلِ فہم ہے۔


اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہاں دین اور دنیا دو الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں بلکہ دین اور دنیا دونوں کا ایک ہی عالم ہے۔ اس لئے :
"The religious ideal of Islam, therfore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the other. Therefore the construction of a polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim. This is a matter which at the present moment directly concerns the Muslims of India."
یہاں اقبال نے دو باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ کی ہیں۔ اوّل یہ کہ: اسلام کا اخلاقی مسلک، اسلام کے سیاسی مسلک کے ساتھ نامیاتی طور پر مربوط ہے یعنی اخلاقی اور سیاسی ہر دو آئیڈیلز یک جان اور یک قالب ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آج ہم متحدہ ہندوستانی قومیت کی تعمیر کی خاطر اسلام کے سیاسی مسلک کو چھوڑ دیں گے تو بالآخر ہمیں اسلام کا اخلاقی مسلک بھی چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔یہ گویا ترکِ اسلام کی راہ ہو گی۔دوم یہ کہ: ہندی مسلمان یہ راہ ہر گز نہ اپنائیں گے اس لئے ہندو مسلمان متحدہ قومیت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا۔


اسلامی اخوت و مساوات کے تصورات نے کسی ایک فرد یا کسی ایک گروہ کو حکمرانی کا حق ہر گز نہیں دیا۔'حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری' ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا حقِ حکمرانی اپنے تمام بندوں کو یکساں طور پر منتقل کر رکھا ہے۔ یہ حق مسلمان معاشرے کا ہر فرد خود ہی استعمال کرتا ہے۔ یہاں علمائے کرام خود کو عامة المسلمین کی اجتماعی رائے کے سامنے پیش کرنے کا حق تو رکھتے ہیں مگر محض برگزیدہ عالمِ دین ہونے کی حیثیت سے انھیں خدا کی طرف سے حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے یعنی جدید سیاسی اصطلاحات کی روشنی میں مسلمان معاشروں میں تھیوکریسی کا سرے سے کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔ سلطانیٔ جمہور کے یہ اسلامی تصورات جمہوری نظامِ سیاست کی تائید کرتے ہیں۔ برطانوی ہند میں مسلمان تعداد میں کم ہیں اور ہندو تعداد میں اُن سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے اُن کی جداگانہ مسلمان شناخت کا قائم رہنا بے حد دُشوار ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے اُن کے لئے الگ مملکت کا قیام ضروری ہو گیا ہے۔ عصرِ رواں میں یہ الگ مملکت صرف قوموں کے حق خود اختیاری کی بنیاد پر ہی قائم کی جا سکتی ہے۔ اس لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ علامہ اقبال کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے فلسفیانہ استدلال کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم ثابت کر دکھایا۔
اقبال نے ہندی مسلمانوں کوجدید معنوں میںایک قوم قرار دیا۔ انھوں نے اپنے ہم عصر فرانسیسی مفکر ارنسٹ رینا ں کا حوالٰہ دیتے ہوئے روحانی ہم آہنگی کو قومیت کی تشکیل و تعمیر کی بنیاد ٹھہرایا۔ انھوں نے کہاکہ قدیم زمانے میں جب انسان ابھی تہذیب و شائستگی کے اوّلیں مراحل طے کرنے میں مصروف تھا جغرافیائی اور نسلی بنیادوں پر قومیں وجود میں آیا کرتی تھیں مگر آج قومیں اپنے روحانی تصورات کے اشتراک اور اپنے تصورِ کائنات کی یکسانیت کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ آج کا انسان جغرافیائی اور نسلی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر روحانی یگانگت کو اپنی پہچان قرار دیتا ہے۔ ہندوستان میں اسلام نے مسلمانوں کو ایک الگ تہذیبی شناخت بخشی ہے اور اسی جداگانہ تہذیبی شناخت نے انھیں ایک الگ قوم بنا دیا ہے۔ اپنے استدلال پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ :


"The life of Islam as a cultural force in this country very largely depends on its centralisation in a specified territory. This centralisation of the most living portion of the Muslims of India, will eventually solve the problem of India as well as of Asia."


اقبال نے اس سنگین صورتِ حال کا حل ایک جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر مسلمان اکثریت کے علاقوں میں جداگانہ مسلمان ریاستوں کے قیام کی صورت میں پیش کیا۔ 1930 میں اقبال نے اپنے اسی خطبہ الٰہ آباد میں بڑے اعتماد کے ساتھ یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ برصغیر کے شمال مغرب میں ایک جداگانہ مسلمان مملکت کا قیام مقدر ہو چکا ہے۔ اقبال نے اسلامیانِ ہند کو اپنی تہذیب کی بقا اور ترقی کی خاطر ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرنے کا جو راستہ دکھایا تھا اسی کی ہی ایک شکل پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں آج موجود ہیں۔ پاکستان جس جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا قیامِ پاکستان کے بعداُس نے قدرتی طور پر پاکستانی قومیت کا نام پایا۔
جداگانہ مسلمان قومیت اور اہلِ کتاب


علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں جداگانہ مسلمان قومیت پر ممکنہ اعتراضات کا اطمینان بخش جواب بھی دے رکھا ہے۔ اسلامیانِ ہند کو مخالفین کی جانب سے پھیلائے جانے والے فکری انتشار سے خبردار کرتے ہوئے اقبال خود ہی یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ جب ترکی اور ایران جیسے ممالک جغرافیائی قومیت کے تصور سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تو پھر ہندی مسلما ن اس تصور سے کیوں خائف ہیں:۔


"Nor should the Muslim leaders and politicians allow themselves to be carried away by the subtle but placid arguments that Turkey and Iran and other Muslim countries are progressing on national, i.e., territorial lines. The Muslims of India are differently sistuated. The countries of Islam outside India are practically wholly Muslim in population. The minorities there belong, in the language of the Quran, "to the people of the Book". There are no social barriers between Muslims and the "people of the Book". A Jew or a Christian or a Zoroastrian does not pollute the food of a Muslim by touching it, and the law of Islam allows intermarriage with the "people of the Book". Indeed the first practical step that Islam took towards the realisation of a final combination of humanity was to call upon peoples possessing practically the same ethical ideal to come forward and combine."(P-190)


علامہ اقبال اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ترکی اور ایران جیسے ممالک میں مسلمانوں کی دینی اور تہذیبی ہستی کے مٹ جانے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے کیونکہ ان ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور یہاں کی اقلیتیں اہلِ کتاب پر مشتمل ہیں۔ ہندوستان کے برعکس ان ممالک میں مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے درمیان معاشرتی دیواریں نہیں کھڑی کی گئیں۔ یہودی، عیسائی، زرتشتی اور مسلمان چھوت چھات کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے کھانے کو چھو کر ناپاک نہیں کرتا بلکہ اسلام کے قوانین اہلِ کتاب کے درمیان شادی بیاہ تک کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ اس اعتبار سے ترکی اور ایران جیسے ممالک کی ساری آبادی عملاً مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس

The Muslims of India are differently situated.

اقلیت میں ہونے کے باعث وہ اُس ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں جو انسانی عدم مساوات پر عقیدةً عمل پیرا ہے ۔ اس لئے اُن پر لازم آتا ہے کہ وہ ایک جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور اپنا کر ایک الگ اور خود مختار قومی وطن حاصل کریں۔


اپنے استدلال کو قرآن حکیم کی روشنی میں آگے بڑھاتے ہوئے اقبال ہمیں اُس آیت کریمہ کی جانب متوجہ کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام اہلِ کتاب کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اُس کلمہ یعنی توحید کی بنیاد پر متحد ہو جائیں جو اُن کے درمیان مشترک ہے۔ اہلِ کتاب کے اس اتحاد کو اقبال پوری انسانیت کے اتحاد کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں اور گہرے دکھ کے ساتھ کہتے ہیں کہ :
"The wars of Islam and Christianity, and later, European aggression in its various forms, could not allow the infinite meaning of this verse to work itself out in the world of Islam. To-day it is being gradually realised in the countries of Islam in the shape of what is called Muslim Nationalism."(P-190)


ماضی میں صلیبی جنگوں اور بعد ازاں اسلامی ممالک کے خلاف یورپ کی کثیر جہتی جارحیت کے باعث مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے درمیان مشترک قومیت کا یہ تصور حقیقت کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ آج انسانی اتحاد کا یہ مرحلہ ٔ اول مسلمان ممالک میں مسلم قومیت کی شکل میں سامنے آنے لگا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد کی روشنی میں غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندو اور مسلمان تو اپنے باہم متصادم تصورِ کائنات کی بنیاد پر بے شک دو الگ الگ قومیں ہیں مگر مسلمان اور اہلِ کتاب ایک ہی قوم ہیں اور مسلمانوں اور اہلِ کتاب کا توحید کی بنیاد پر یہ اتحاد ایک وسیع تر انسانی اتحاد کا پہلا مرحلہ ہے۔


تصورِ پاکستان اور سرزمینِ پاکستان
اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں جہاں اپنے تصورِ پاکستان کے فکری اور نظریاتی پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے وہاں وہ تصورِ پاکستان کی جغرافیائی بنیاد کو بھی بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے لائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اقبال وطن سے محبت کو جزوِ ایمان تسلیم کرنے کے باوجود اتحادِ انسانی کا بنیادی سیاسی اصول نہیں مانتے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی مصطفوی شناخت کو ہی اُن کی اصل شناخت قرار دیا ہے۔ آبروئے ما زنامِ مصطفی است اور اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔ بجا اوردرست مگر اس کے ساتھ ساتھ اقبال وطنی اشتراک کو اگر وہ روحانی یگانگت کے منافی نہ ہو تو بہت اہمیت دیتے ہیںاقبال نے اپنے اسی خطبۂ الٰہ آباد میں اُس خطۂ زمین کو جسے آج پاکستان کہا جاتا ہے ایک الگ جغرافیائی اور تہذیبی وحدت کا نام دیا ہے۔ وادیٔ سندھ کی جداگانہ شخصیت پر روشنی ڈالتے وقت اقبال فرماتے ہیںکہ:


"In point of life and civilization the Royal Commissioners find it more akin to Mesopotamia and Arabia than India. The Muslim geographer Mas'udi noticed this kinship long ago when he said: "Sind is a country nearer to the dominions of Islam." Sind has her back towards India and face towards Central Asia." (P-186)


یہ خطۂ زمین اپنی زندگی اور تہذیب کے اعتبار سے ہندوستان سے دور مگر بغداد اور دُنیائے عرب سے قریب ہے۔ اسی لئے مسلمان جغرافیہ دان مسعودی نے وادیٔ سندھ کو دُنیائے اسلام کا ایک حصہ بتایا تھا۔اقبال کا خیال یہ ہے کہ وادیٔ سندھ کا رُخ وسطِ ایشیا کی جانب ہے اور ہندوستان اس کے عقب میں واقع ہے۔ جب اقبال نے ایک آزاد اور خود مختار مسلمان مملکت کے قیام کو اس علاقے کا آخری مقدر قرار دیا تھا تو یہ جغرافیائی پسِ منظر بھی اُن کے ذہن میں موجود تھا۔
اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں برطانوی ہند کو ایک ملک کے بجائے ایک برصغیر قرار دیتے ہوئے اسے ایک چھوٹا سا ایشیا قرار دیا تھا اور اسی بنیاد پر کہا تھا کہ جمہوریت کا نظام یہاں اُس وقت تک نافذ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس برصغیر کے مختلف ممالک کو الگ الگ اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم نہیں کر دیا جاتا:


"India is Asia in miniature. Part of her people have cultural affinities with nations in the east and part with nations in the middle and west of Asia." (P-168)
چنانچہ انھوں نے لندن کی پہلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے نتائج کو بڑی جرأت کے ساتھ رد کرتے ہوئے انگلستان کے وزیراعظم کی ہٹ دھرمی کو درج ذیل الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا:


"Yet the Prime Minister of England apparently refuses to see that the problem of India is international and not national. Obviously he does not see that the model of British democracy cannot be of any use in a land of many nations."(P-188)


اقبال نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ برطانوی وزیراعظم جان بوجھ کر اس حقیقت کے اعتراف سے گریزاں ہیں کہ ہندوستان کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ برطانوی جمہوریت کا ماڈل ہندوستان میں اس لئے کام نہیں دے سکتا کہ یہاں ایک نہیں بلکہ کئی قومیں آباد ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ جسے عرف عام میں دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے ، وہ دراصل کثیر قومی نظریہ ہے۔ اسلامیانِ ہند نے تواقبال کے تصور کو اپنا کر قائداعظم کی قیادت میں اپنے لئے الگ قومی وطن حاصل کر لیا تھا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ برصغیر کی دوسری قومیں اپنی قومی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد میں کب کامیاب ہوتی ہیں؟


تصور اورتحریک
تصورِ پاکستان کو حقیقت میں بدلنے کی تحریک کی قیادت کے لئے علامہ اقبال کی نگاہیں گھوم پھر کر فقط ایک ہی شخص پر آ ٹھہرتی تھیں۔ یہ شخص تھے ہمارے قائداعظم محمد علی جناح۔ اقبال خود کو جن کا ایک ادنیٰ سپاہی قرار دینے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری تین برسوں کے دوران قائدِاعظم سے اُن کی فکری و سیاسی رفاقت بہت گہری ہو چلی تھی۔ایک طویل عرصے تک فکری تنہائی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر علامہ اقبال فکری رفاقت کی نعمت سے فیض یاب ہوئے اور خوشی میں پُکار اُٹھے کہ:
گئے دِن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے راز داں اور بھی ہیں


زندگی کے آخری دور میں قائداعظم اُن کے سب سے بڑے رازداں تھے جن سے وہ چپکے چپکے اسلامیانِ ہند کے مقدر پر راز و نیاز میںمشغول رہا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ہر دو بانیانِ پاکستان چونکہ ایک شہر میں نہیں رہتے تھے اس لئے بیشتر یہ گفتگو خط کتابت کی صورت میں ہوا کرتی تھی۔ دونوں نے آپس میں یہ طے کر رکھا تھا کہ اُن کی باہمی خط کتابت صیغۂ راز میں رہے گی۔ اس راز کو قائداعظم نے قرارِ داد پاکستان کے دو برس بعد 1942ء میں افشا کیا اور Letters of Iqbal to Jinnah کے عنوان سے اپنے نام اقبال کے چند خطوط شائع بھی کر دیئے۔ 28 مئی 1937ء کے خط میں علامہ اقبال انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے اسباب کے بارے میں بھی بحث کرتے ہیں اور شکست کو فتح میں بدلنے کی راہ بھی دکھاتے ہیں:


"The League will have to finally decide whether it will remain a body representing the upper classes of Indian Muslims or Muslim masses who have so far, with good reason, taken no interest in it. Personally I believe that a political organisation which gives no promise of improving the lot of the average Muslim cannot attract our masses.
Under the new constitution the higher posts go to the sons of upper classes; the smaller ones go to the friends or relatives of the ministers. In other matters too our political institutions have never thought of improving the lot of Muslims generally. The problem of bread is becoming more and more acute. The Muslim has begun to feel that he has been going down and down during the last 200 years. Ordinarily he believes that his poverty is due to Hindu money-lending or capitalism. The perception that it is equally due to foreign rule has not yet fully come to him. But it is bound to come. The atheistic socialism of Jawarharlal is not likely to receive much response from the Muslims. The question therefore is: how is it possible to solve the problem of Muslim poverty? And the whole future of the League depends on the League's activity to solve this question. If the League can give no such promises I am sure the Muslim masses will remain indifferent to it as before. Happily there is a solution in the enforcement of the Law of Islam and its further development in the light of modern ideas. After a long and careful study of Islamic Law I have come to the conclusion that if this system of law is properly understood and applied, at last the right to subsistence is secured to everybody. But the enforcement and development of the Shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states. This has been my honest conviction for many years and I still believe this to be the only way to solve the problem of bread for Muslims as well as to secure a peaceful India. If such a thing is impossible in India the only other alternative is a civil war which as a matter of fact has been going on for some time in the shape of Hindu-Muslim riots. I fear that in certain parts of the country, e.g. N.-W. India, Palestine may be repeated. Also the insertion of Jawaharlal's socialism into the body-politic of Hinduism is likely to cause much bloodshed among the Hindus themselves. The issue between social democracy and Brahmanism is not dissimilar to the one between Brahmanism and Buddhism. Whether the fate of socialism will be the same as the fate of Buddhism in India I can not say. But it is clear to my mind that if Hinduism accepts social democracy it must necessarily cease to be Hinduism. For Islam the acceptance of social democracy in some suitable form and consistent with the legal principles of Islam is not a revolution but a return to the original purity of Islam. The modern problems therefore are more easy to solve for the Muslims than for the Hindus. But as I have said above in order to make it possible for Muslim India to solve the problems it is necessary to redistribute the country and to provide one or more Muslim states with absolute majorities. Don't you think that the time for such a demand has already arrived?" (P.16-19)


اقبا ل نے اپنے اس خط میںلکھا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم لیگ یہ فیصلہ کرگزرے کہ وہ بدستور اونچے طبقے کے مسلمانوں ہی کی نمائندگی کرتی رہے گی یا مسلمان عوام کے مصائب و مشکلات کے حل کو بھی اپنے پروگرام کا مرکز و محور بنائے گی۔ اقبال نے دو ٹوک اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اگر اب تک مسلمان عوام نے مسلم لیگ سے کوئی دلچسپی نہیں لی تو اس میںوہ حق بجانب ہیں جب تک مسلم لیگ غریب عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ نہیں بناتی تب تک وہ عوام میںبدستور نامقبول ہی رہے گی۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے نئے آئین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس آئین کے تحت بلند مناصب تو بالادست طبقے کے وزیروں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں اور کم بلند عہدوں پر وزیروں کے رشتہ داروں اور دوستوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب غریب مسلمانوں کے لئے روٹی کا مسئلہ روز برو سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر جواہر لال نہرو اپنی بے خدا سوشلزم کے فروغ کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اُن کے یہ خواب خود ہندو معاشرہ مٹی میں ملا دے گا۔ اس بے خُدا سوشلزم کے مقابلے میں اسلام کا اقتصادی نظام زیادہ مؤثر اورمقبول ہو سکتا ہے۔ عہدِ حاضر کے معاشی نظریات کی روشنی میں اسلام کے معاشی نظام کی نئی تشکیل اور نفاذ سے غربت کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے مگر اس سلسلے میں قانون سازی کے لئے ایک الگ مسلمان قانون ساز اسمبلی کا وجود ضروری ہے اور یہ قانون ساز اسمبلی ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ملک میں ہی وجود میں آ سکتی ہے۔


اپنے خط کے آخر میں اقبال بابائے قوم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کے خیال میںوہ وقت نہیں آ پہنچا جب ہم آزاد اور خود مختار مسلمان مملکت کا مطالبہ پیش کر دیں؟……تین سال سے بھی کم مدت میں بالآخر وہ وقت آن پہنچا جب اسلامیانِ ہند نے اقبال کے شہر لاہور میں یہ مطالبہ قراردادِ پاکستان کی صورت میں منظور کر ڈالا مگر افسوس کہ اقبال اُس وقت اِس دارِفانی کو خیر باد کہہ کر ہم سے دائماً رخصت ہو چکے تھے۔
٭٭٭
حواشی
١ دو اقتباسات کو چھوڑ کر باقی تمام تر اقتباسات سید عبدالواحد کی مرتبہ اور شیخ اشرف کی 1924ء میں لاہور سے شائع کردہ کتاب
Thoughts and
Reflections of Iqbal 
سے لئے گئے ہیں۔
(٢) 
Letters of Iqbal to Jinnah
شیخ محمد اشرف نے 1942ء میں لاہور سے شائع کی تھی۔ بابائے قوم کے نام علامہ اقبال کے خط کا اقتباس اسی کتاب سے لیا گیا ہے۔ کتاب کے Foreword 
میں بابائے قوم حضرت محمد علی جناح نے اعتراف کیا ہے کہ :


"It was a great achievement for Muslim League that its lead came to be acknowledged by both the majority and minority provinces. Sir Muhammad Iqbal played a very conspicuous part, though at the time not revealed to public, in bringing about this consummation…I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India. His views were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India, and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore resolution of the All-India Muslim League, popularly known as the "Pakistan Resolution", passed on 23rd March, 1940." (P.6-7).

 

٣ جناب عبدالحمید علوی کا مضمون اسلام آباد سے شائع ہونے والے رسالہ 
Islamabad The Concept
کے اپریل اور مئی 1981ء کے شمارہ (صفحات 5تا 9) میں شائع ہوا تھا۔


مضمون نگار ایک ممتاز دانشور ہیں۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق ریکٹر ہیں۔ آپ کی تحاریر قومی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

[email protected]

یہ تحریر 5508مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP