ہر چند اقبال نے ''نغمہ کُجا و مَن کُجا'' کے سے سوال اُٹھا کر قارئین کی توجہ اپنے سازِ سخن کی سحر آفرینی سے ہٹا کر خیال آفرینی پر مبذول کرانے کی بہت کوشش کی مگر اُن کی فنکارانہ صنّاعی اور شاعرانہ اعجاز نے ہمیشہ دلوں میں گھر کیا۔ لفظ و خیال کی بحث میں اقبال نے ارتباطِ حرف و معنی، اختلاطِ جان و تن کا جو معیار مقرر کیا تھا، اُس کی بہترین مثال خود اُن کی نظم ''مسجدِ قرطبہ'' ہے۔ اس شہرۂ آفاق نظم کو امریکی سکالر باربرا مٹکاف نے دنیائے شاعری کی مسجد قرار دیا ہے تو محمد حسن عسکری نے اسے اردو شاعری کا تاج محل کہا ہے اور سلیم احمد اسے ''ابدیت کی تاریخ میں ایک معجزۂ فن'' سمجھتے ہیں۔مشرق و مغرب میں اس نظم کے تعمیری حسن، اس کی نغمگی و آہنگ کی اتنی تحسین ہو چکی ہے اور اس کے تار و پود میں بُنے ہوئے فلسفۂ زمان، فلسفۂ عشق، فلسفۂ فن اور زندگی و موت کی رسائی و نارسائی کے تصورات کی ایسی ایسی خیال انگیز تفسیریں ہو چکی ہیں کہ اب مجھ ایسے طالب علم کی اس باب میں لب کشائی ایک جسارت سے کم نہیں۔ سو، میں خود کو اس نظم کی تخلیقی فضا اور اس کے مخصوص زمانی و مکانی پس منظر تک محدود رکھتا ہوں۔
اقبال نے یہ نظم ١٩٣٣ء میں تخلیق کی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یورپ ایک عالمی جنگ کی آگ سے نکل کر دوسری عالمی جنگ کے جہنم زار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شپنگلر کے سے فلسفی زوالِ مغرب کی سنائونی سنا چکے ہیں اور ایلیٹ کے سے شاعر جہانِ مغرب کو خرابہ
(Waste Land)
بنتے دیکھ رہے ہیں، مگر اس عالم میں بھی فرنگ عیشِ جاوداں کے خواب دیکھ رہا ہے۔ پورا مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق، فرنگی سامراج کے جال میں تڑپ رہا ہے۔ خود اقبال کے لیے مسجدِ قرطبہ کی زیارت لندن میں گول میز کانفرنس کی بدولت ممکن ہوئی۔ برطانوی سامراج سے ہندوستانی رہنمائوں کے مذاکرات اس لیے ناکام ہوئے کہ اقبال مسلمانوں اور اچھوتوں کے لیے جو انسانی حقوق مانگتے تھے، مہاتماگاندھی وہ حقوق دینے پر آمادہ نہ تھے۔ سیاسی مذاکرات میں مایوسی اور ناکامی کے اس عالم میں اقبال سرزمینِ اندلس کا رُخ کرتے ہیں۔ اندلس وہ سرزمین ہے جہاں مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی، جہاں ابنِ رشد کے سے فلسفیوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں قدیم یونانی علم و حکمت کو زندہ کیا۔ جہاں ابن العربی جیسے صوفیوں کے ترجمان الاشواق نے فلسفۂ عشق کی بنیاد رکھی اور یہ وہ لوگ ہیں، بقولِ اقبال ''ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں'' اور ''کھا گئی عہدِ کُہن کو جن کی تیغِ ناصبور'' مگر جس زمانے میں اقبال نے اس سرزمین پر قدم رکھا اُس زمانے میں یورپ کے ازمنۂ تاریک کو ختم کرنے والے یہ لوگ خود ختم ہو چکے تھے۔ سنہ تینتیس کے اندلس میں مسلمانوں کا نام مٹ چکا تھا مگر نشان باقی تھا۔
ادھر جس ہندوستان کی آزادی کے مذاکرات میں شریک ہونے کے لئے اقبال لندن آئے تھے، وہاں بھی وہ مسلمانوں کے نام و نشان کو ایک سیلِ فنا کی زد میں دیکھ رہے تھے اور ایک بے چین پیش بینی کے ساتھ ہندی مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کی بقا کا سامان کرنے کی فکر میں تھے۔ صرف تین برس پہلے وہ برصغیر میں ایک جداگانہ اسلامی مملکت کے قیام کا تصور پیش کر چکے تھے اور صرف دو برس پیشتر ''جاوید نامہ'' میں مثالی قرآنی مملکت کے جلال و جمال سے پردہ اٹھا چکے تھے۔ ہر چند اب وہ انجمن میں تنہا نہیں تھے اور 'چمن' میں اُن کے اور بھی 'رازداں' پیدا ہو چکے تھے، مگر ان کے سیاسی تصورات کے عملی ظہور کے آثار ہنوز ناپید تھے، اور وہ لندن کی گول میز کانفرنس میں شریک مسلمان مندوبین کی بے بصیرتی اور بے حمیتی ہر دو کے زخم کھا کر سرزمینِ اندلس کو روانہ ہوئے تھے۔
''اقبال نے کہا کہ ہندوستان اور اندلس میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک دنیائے اسلام کی آخری سرحدوں پر تہذیبی امتزاج کی دو تجربہ گاہوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہاں اسلامی ثقافت آریائی اور سامی عناصر میں پھلی پھولی اور یہاں یونانی، رومی اور عیسائی عناصر میں۔ وہاں اسلامی ثقافت زندہ و فعال ہے اور یہاں فقط تاریخی تحقیق کا موضوع ہے۔''
سرزمینِ اندلس اور سرزمینِ ہند کے ساتھ اقبال کے تلازمات میںیک گُونہ مماثلت تھی۔مسلمان ایک ہی سال… ٧١١ئ…میں ہند اور اندلس میں وارد ہوئے تھے۔ اندلس سے مسلمانوں کو ختم کر دیا گیا تھا اورہندوستان سے مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ اقبال کے ذہن میں یہ آتشیں سوال گونج رہا تھا کہ کیاہندی مسلمانوں کا مقدر بھی اندلسی مسلمانوں کے مماثل ہے؟…کیا وہ بھی مٹ جائیں گے؟… اگر ''بالِ جبریل'' میں ''مسجدِ قرطبہ'' کے آس پاس جگمگاتی ہوئی نظموں…''دعا''، ''قید خانے میں معتمد کی فریاد''، ''ہسپانیہ'' اور ''طارق کی دُعا'' کے ساتھ ساتھ میڈرڈ میں ''اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی'' کے نامور پروفیسر ایسن (Asin) کی زیرِصدارت اقبال کی تقریر کو بھی ذہن میں رکھا جائے تو ''مسجدِقرطبہ'' کے تخلیقی عمل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سپین کے روزنامہ
El-Debate
میں ''اسلام کی دنیائے فکر اور سپین'' کے موضوع پر اقبال کی اس تقریر کی جو رپورٹ شائع ہوئی تھی اُس کی آخری سطریں یہ ہیں:
''اقبال نے کہا کہ ہندوستان اور اندلس میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک دنیائے اسلام کی آخری سرحدوں پر تہذیبی امتزاج کی دو تجربہ گاہوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہاں اسلامی ثقافت آریائی اور سامی عناصر میں پھلی پھولی اور یہاں یونانی، رومی اور عیسائی عناصر میں۔ وہاں اسلامی ثقافت زندہ و فعال ہے اور یہاں فقط تاریخی تحقیق کا موضوع ہے۔''
ایسے میں اقبال کے ذہن میں یہ سوال رہ رہ کر سر اٹھاتاہوگا کہ کیا برصغیر کے مسلمانوں پر بھی کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے جب وہ مٹ کر فقط تاریخی تحقیق کا موضوع بن جائیں؟ اقبال اپنے اضطراب کو دنیائے اسلام کی روح میں برپا اضطراب میں جذب کرتے ہیں تو یہ توانا رجائیت جنم لیتی ہے:
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اُس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل
اندلس سے مسلمان تو صدیوں پہلے ہی مٹ چکا۔ پھر اُس کے انمٹ ہونے کا ادعا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ کہاں سے نہیں مٹ سکتا؟ ہندوستان سے؟…یہ کیوں؟ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس اقبال کی نوائے شاعرانہ جو موجود ہے۔ سلیم احمد نے حسبِ معمول بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ''اگر عربوں نے 'مسجدِ قرطبہ' کی تخلیق کر کے اپنی صداقتِ عشق یا صداقتِ حیات کو ظاہر کیا ہے تو ہندی مسلمان بھی اُن سے کم نہیں۔ ہندی مسلمانوں نے اقبال کی شاعری پیدا کی ہے۔''بالکل درست! یہ شاعری دستِ قضا میں صورتِ شمشیر ہے۔ اقبال لب پہ نہیں بلکہ دل میں بھی صلواة و درود لے کر حرمِ قرطبہ سے یوں ہم کلام ہوتے ہیں:
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود
عرشِ معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود
اقبال کو اپنی نوا پہ اتنا ناز ہے کہ وہ مسجدِ قرطبہ میں بیٹھ کر لکھی گئی نظم ''دعا'' کا آغاز اس شعر سے کرتا ہے:
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو
اس نوا کا فیضان ملاحظہ ہو:
مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
دیا ہے میں نے انھیں ذوقِ آتش آشامی
……
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند
……
جو کوکنار کے خوگر تھے ان غریبوں کو
تری نوا نے دیا ذوقِ جذبہ ہائے بلند
تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کے لئے
وہ پر شکستہ کہ صحنِ سرا میں تھے خورسند
اپنی نوا کا خیال کرتے ہی اقبال اسلام کی باطنی تاریخ کی معنویت کا انکشاف کرنے اور اسلام کے انقلابی تصورِ حیات کے خدوخال اجاگر کرنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ نظم کا بہائواقبال کی شاعری کے مرکزی موضوع یعنی آتشِ رفتہ کے سراغ اور کھوئے ہوئوں کی جستجو کا رُخ کرتا ہے۔ اقبال کی انقلابی آرزومندی اپنا جادو جگانے لگتی ہے اور وہ دریائے کبیر کے کنارے انسانیت کے مستقبل کا خواب دیکھنے لگتے ہیں:
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں!
تاریخ اپنے اوراق پلٹنے لگتی ہے۔ عہدِ حاضر کی انقلابی تحریکیں ایک ایک کر کے اپنا چہرہ دکھاتی ہیں۔ آخر میں روحِ مسلماں کا اضطراب جلوہ نما ہوتا ہے۔مسلمانوں کا رفتہ انسانوں کا آئندہ بننے لگتا ہے اور اقبال اُس عالمِ نو کی سحر کو بے حجاب دیکھ کر، جو ہنوز پردۂ تقدیر میں ہے، پکار اُٹھتے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب!
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب!
روحِ مسلماں میں برپا اضطراب کو کشمکشِ انقلاب میں ڈھالنا دو وجوہات سے وقت کا اہم ترین تقاضا بن جاتا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ:
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے
اور
اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ
اور دوسرے اس بنا پر کہ دنیائے اسلام میں دورِ گراں خوابی کے رخصت ہونے کے امکانات بروئے کار آنے لگے ہیں۔ کمال اتاترک کی کامرانی نے دنیائے اسلام کو قرونِ وسطیٰ سے عہدِ جدید میں لاکھڑا کیا ہے۔ اور:
پھر اٹّھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
زمیں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے
چنانچہ ''مسجدِ قرطبہ'' جو آفاقیت سے شروع ہوئی تھی، مقامیت پر آتمام ہوئی۔ ایک آفاقی اور ابدی تناظر میں فلسفۂ زمان پر جو غور و فکر شروع ہوا تھا وہ دنیائے اسلام میں انقلاب کی تلاش اور اُمید پر آ رُکا۔ ''آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر'' اور ''اوّل و آخر فنا، ظاہر و باطن فنا'' سے جو نوحہ شروع ہوا تھا وہ ''مسجدِ قرطبہ'' اور اقبال کی نوا کی صورت میں موت پر غلبے کے نغمے میں ڈھل گیا۔ صرف گیارہ برس پہلے جب اقبال اسی نواح سے گزرے تھے تو یہ سرزمین انھیں تہذیب حجازی کا مزار نظر آئی تھی۔ اُن کے دل میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ لہجے پر رقت طاری تھی۔ نتیجہ یہ کہ نظم'' صقلیہ'' کی فضا گریہ و زاری کی فضا ہے مگر آج انھیں تہذیبِ حجازی میں رنگِ ثباتِ دوام نظر آ رہا ہے اور وہ ایک توانا ''پُریقین اور پیغمبرانہ لہجے میں ایک نئی سحر کی بشارت دے رہے ہیں:
پردہ اُٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب
یہ ہے وہ زمانی و مکانی سیاق و سباق جس میں دنیائے شاعری کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہوا۔
مضمون نگار ایک ممتاز دانشور ہیں۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق ریکٹر ہیں۔ آپ کی تحاریر قومی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
یہ تحریر 752مرتبہ پڑھی گئی۔