خون شہیداں رائیگاں نہ جائیگا، آزادی کا سورج ضرور طلوع ہو گا
ہم ہرسال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناکراپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی حمایت کااعادہ کرتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کے لیے اب تک ہزاروں نوجوان اپنے خون کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔پاکستان سے الحاق کی تحریک کو76سال گذرچکے ہیں اورکشمیریوں کی چوتھی نسل بھارتی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچے،بزرگ اورخواتین بھی بھارتی فوج کے مظالم کانشانہ بن رہے ہیں۔یہ جبروتشدد کشمیریوں میں بھارت سے آزادی حاصل کرنے کاجذبہ ختم نہیں کرسکا۔ظلم کی اس سیاہ رات کاخاتمہ طے ہے۔ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے اپنے حق خودارادیت کامطالبہ کر رہے ہیں جس کا وعدہ ان سے اقوام متحدہ کی قرردادوں میں کیاگیا تھا۔ ہم ہرسال اس عزم اور عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارت کے غیر قانونی تسلط سے آزادکرائیں گے۔
تاریخ پرنظرڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1822میں گلاب سنگھ کو جموں کا راجہ بنا دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں اورانگریزوں میں جنگ ہوئی،جس میں سکھوں کو شکست کاسامناکرناپڑا۔ بعد میں 16مارچ 1846ء کو انگریزوں نے کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کوبیچ دیا۔یہ معاہدہ ''ایگریمنٹ امرتسر''کے نام سے مشہورہواجو فریڈرک کیوری اور میجر ہنری منٹگمری لارنس کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس وقت کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنگ کی منظوری سے برطانوی حکومت اورمہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان ہوا۔جنت نظیر سرزمین کشمیر کی یہ فروخت بہت شرمناک تھی۔ عام کشمیری مسلمان کی حیثیت ڈوگرہ راج میں ایک غلام سے زیادہ نہ رہی۔کشمیریوں کوان ہی کی سرزمین پرغلامی کاطوق پہنادیاگیا۔ یہ ظلم اتنا بڑھا کہ اس کی تپش انگریزوں نے بھی محسوس کی اوربرطانیہ میں بھی بہت سے رہنمائوں اور دانشوروں نے کشمیریوں کو مہاراجہ کاغلام بنانے کی مذمت کی۔معاہدہ امرتسر کی دفعہ نمبر تین میں لکھا ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ اور ان کے وارثوں کے نام جو علاقہ جات منتقل کیے گئے ہیں ان کے معاوضے میں وہ برطانوی حکومت کو 75 لاکھ (نانک شاہی) روپے ادا کریں گے۔ 50 لاکھ روپے یکم اکتوبر 1846 کو یا اس سے پہلے ادا کیے جائیں گے۔ اُس وقت کشمیر کارقبہ تقریبا 18ہزار کلومیٹراورآبادی 25 لاکھ تھی۔
اس زمانے میں 75 لاکھ روپے 55ہزار برطانوی پونڈ کے برابرتھے۔تاریخ کی کتابوں میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو انتہائی چاپلوس اورانگریزفوج کامخبرلکھا گیاہے۔کشمیر کی یہ فروخت شاید اسی کاانعام تھا۔مہاراجہ گلاب سنگھ نے مسلمانوں پرخود بھی ظلم ڈھائے اوردوسروں کی بھی سرپرستی کی۔جب جموں میں مسلمانوں کاقتل عام شروع ہوا،مہاراجہ نے کوٹ میرا تحصیل اکھنور میں خود گولی چلا کر قتل عام کا آغاز کیا۔ 1931 میں شروع ہونے والی تحریک میں کشمیریوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔مہاراجہ نے طاقت کابدترین استعمال کیا۔سیکڑوں لوگوں کوماردیاگیااورہزاروں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے گرفتارکرلیاگیا۔سرینگر میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت ریاستی فوجی افسران اور پولیس کو خصوصی اختیارات دیے گئے۔ لوگوں کو مساجد جانے کی اجازت نہیں تھی۔اس وقت کے معروف اخبارات روزنامہ سیاست،روزنامہ انقلاب اوردی مسلم آؤٹ لک پرپابندی لگادی گئی۔
شاعرمشرق حضرت علامہ اقبال کے کشمیر سے تعلق کوکون نہیں جانتا۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کئی جگہ کشمیر اورتحریک آزادی کشمیر کاذکر کیاہے۔علامہ اقبال آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری نوجوانوں کالہوبھی گرماتے رہے۔آپ نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی اپیل بھی کی۔ معروف ادیب جگن ناتھ آزاد کی کتاب اقبال اورکشمیرمیں ایک واقعہ درج ہے۔علامہ اقبال فرماتے ہیں میں نے کشمیر سے متعلق جونظم ساقی نامہ نشاط باغ میں بیٹھ کرلکھی تھی۔اس میں ریشم سازکارخانوں اورکاریگروں کاذکر بھی شامل تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تواس کی ابتدا ایک ریشم کے کارخانے میں کاریگروں کی بغاوت سے ہوئی۔علامہ اقبال اپنے کشمیری نژادہونے پرفخر کرتے تھے۔پیام مشرق میں کشمیر کے حوالے سے ان کے اشعارکشمیر کے مستقبل کے لیے پیش گوئی ثابت ہوئے۔علامہ اقبال کی کشمیر سے محبت ملاحظہ ہو۔
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
کشمیر کی حالت پرکہتے ہیں۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
علامہ اقبال ڈوگرہ راج سے نفرت کااظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں
توڑ اس دست جفاکش کو یا رب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا
13 جولائی 1931 کو سری نگرکی سنٹرل جیل کے باہراذان دینے کے جرم میں 22 مسلمانوں کوفائرنگ کرکے شہید کردیاگیا۔ڈوگرہ فوجیوں کی وحشیانہ فائرنگ سے درجنوں مسلمان زخمی بھی ہوئے۔اس واقعہ پرآل انڈیا مسلم لیگ نے کشمیر کمیٹی قائم کی۔اس کمیٹی کے سربراہ شاعرمشرق علامہ اقبال تھے ۔اس دن کوہرسال یوم شہدائے کشمیر کے نام سے منایا جاتاہے۔اس سانحہ کے ذمہ دارمہاراجہ ہری سنگھ تھے۔ بھارتی قابض فوج کی بربریت دیکھیے وہ آزادی کے حامی کشمیریوں کویہ دن بھی منانے نہیں دیتی۔آزادی پسندوں کواس یادگارشہدا پرجانے کی اجازت بھی نہیں۔
بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناح بھی کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے بے حد فکرمند تھے۔وہ ڈوگرہ راج اورانگریزوں کی سازش کوسمجھ چکے تھے۔1946 میں سرینگرکے دورے میں قائداعظم نے کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ قراردیا۔26 اکتوبر1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے معاہدہ تقسیم ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ کشمیری مسلمانوں نے مہاراجہ کے اس فیصلے کے خلاف تحریک الحاق پاکستان شروع کی۔کشمیری مسلمان بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ شامل ہوناچاہتے تھے۔ بھارت نے رات کی تاریکی میں سری نگرمیں اپنی فوجیں اتاریں اورطاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔انگریز وائسرائے چاہتے تو اس مسئلہ کوحل کرسکتے تھے۔ لیکن وائسرائے اوربرطانوی فوج کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔کشمیری مسلمانوں نے بھی بھارتی قبضے کے آگے جھکنے سے انکارکردیااورآزادی کاعلم بلندکردیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق جب تقسیم ہند کا حتمی فیصلہ ہوچکاتھا، ہندووں کی نیم عسکری تنظیم آرایس ایس نے جموں میںاپ نے رضاکاروں کی بھرتی شروع کر دی۔ مہاراجہ نے بھارت کی دوسری ریاستوں سے فوجی بلوالیے۔ آرایس ایس کے مسلح تربیت یافتہ رضاکاروں اور ان فوجیوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار کے قریب تھی جبکہ مہاراجہ کی اصل ریاستی طاقت 13بٹالین ڈوگرہ فوج اور پولیس کی نفری تھی ۔ ان سب نے مل کر مسلمانوں کی آبادیاں لوٹناشروع کردیں۔مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی اور لاکھوں لوگوں کو خون میں نہلا دیا۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948 کی ایک رپورٹ کے مطابق چند دنوں میں دولاکھ 37ہزارمسلمانوں کو بے دردی سے شہید کردیاگیا۔
مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم کشمیر کی آزادی کے ہیرواورکشمیر کی زندہ تاریخ تھے۔بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف انہوں نے پہلی گولی چلائی۔وہ جب بھی لاہورآتے میری ان سے ملاقات ہوتی۔قومی اخبارات کے لیے ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے اورفورمز میں بھی مدعو کیا۔کشمیر کے آزادی کے حوالے سے ان کی باتیں مستند تھیں۔وہ کشمیر اورپاکستان کولازم وملزوم قرار دیتے تھے۔انھیں یقین تھا آزاد کشمیر کی طرح،مقبوضہ کشمیر بھی ایک دن بھارت سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کاحصہ بنے گا۔ وہ کہتے تھے انگریز حکمرانوں کی ساری ہمدردیاں مہاراجہ اورہندوؤں کے ساتھ تھیں۔ تقسیم ہند فارمولے کے مطابق پورا کشمیر پاکستان میں شامل ہوناتھا،لیکن انگریزوں نے کشمیری عوام کی خواہشات اورفیصلے کونظرانداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کی منظوری دی۔ جس پرکشمیری بندوق اٹھانے پرمجبورہوئے۔ایک غلط فیصلے نے پورے خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا۔
مسلم کانفرنس نے کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947ء کو ''قرار داد الحاق پاکستان''منظور کی۔ 23 اگست 1947 کو نیلابٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد شروع کی گئی اورموجودہ آزاد کشمیر کوبھارتی تسلط سے آزاد کرالیا۔کشمیر کوجاتا دیکھا تو پنڈت جواہر لعل نہرو مدد کے لیے اقوام متحدہ پہنچ گئے۔نہرونے عالمی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے،تاہم بعد میں بھارت رائے شماری کے وعدے سے ہی مکر گیااورکشمیر کواپنااٹوٹ انگ قراردینے لگا۔
کشمیر پر بھارت کے قبضے سے قبل سرینگر کی ہر گلی محلے میں ایک ہی نعرہ گونج رہاتھا ۔۔''کشمیر بنے گا پاکستان''کشمیریوں کااحتجاج روکنے کے لیے بھارتی فوج نے ہزاروں کشمیریوں کوگرفتارکرلیا، غیرجانب دار ذرائع کے مطابق یہ تعداد تیس ہزار کے درمیان تھی۔ بھارتی فوج کے تشدد اورزیادتیوں کے باوجود کشمیریوں نے اپنی تحریک جاری رکھی۔ بھارتی فوج نے آزادی کے متوالے ہزاروں کشمیریوں کوشہیدکردیا۔
بھارت طاقت کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کودبانے کی کوشش کررہاہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجارہاہے ۔ کشمیری نوجوانوں کوماورائے عدالت شہید کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔مودی حکومت نے5 اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 اور35 اے کوختم کردیا۔پورا کشمیر اس فیصلے کے خلاف سراپااحتجاج بن گیا۔احتجاج کوکچلنے کے لیے مزید دولاکھ فوجی کشمیر بھیج دیے گئے۔مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو عقوبت خانے میں بدل دیا،کرفیو لگاکربنیادی انسانی حقوق معطل کردیے گئے۔حریت کانفرنس کے رہنماؤں سمیت آزادی کی بات کرنے والے ہرشخص کوپابندسلاسل کردیاگیا۔بڑے پیمانے پرکریک ڈاؤن ہوا۔ مظاہرین کے خلا ف پیلٹ گن استعمال کی گئی ۔سیکڑوں گھروں کومسمار کردیاگیا،لاکھوں لوگ بے روزگارہوگئے۔لوگوں کاکاروبارتباہ ہوگیا۔تعلیمی ادارے اورانٹرنیٹ بند ہونے سے طلبہ وطالبات کواپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔بھارت سرکارکی تما م ترکوششوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ آج بھی پاکستان کاسبزہلالی پرچم لہرارہاہے۔ پابندیوں اورسختیوں کے باوجود کشمیری شہدا کے جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں اورایک ہی نعرہ گونجتاہے،کشمیر بنے گاپاکستان ''ہم کیاچاہتے آزادی۔ کشمیر ی شہداء کوپاکستانی پرچم میں لپیٹ کرسپردخاک کیاجاتاہے ۔ پاکستان سے محبت کی اس سے بڑی اورکیانشانی ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تعداد 9 لاکھ سے زیادہ ہے۔اس کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔ انصاف کاتقاضا ہے کہ اقوامِ متحدہ بھارتی فوج کے مظالم کی تحقیقات کروائے ۔ پیلٹ گن کے استعمال کے باعث سیکڑوں کشمیری نوجوان اوربچے اپنی بینائی کھوچکے ہیں۔جون 2021 ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھارت پر زور دیا تھاکہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بچوں پر پیلٹ گن کا استعمال بند کرے اور بچوں کو کسی بھی طرح سے سکیورٹی فورسز سے منسلک کرنے کی کوشش نہ کرے۔انہوں نے کہا ''میں جموں و کشمیر میں بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں سے پریشان ہوں اور (بھارتی) حکومت سے بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں''۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کی گئی۔عالمی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے حقائق دنیا کودیکھانے کے لیے کوریج کی اجازت مانگی لیکن نام نہاد جمہوریت کی علمبردا ربھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں عالمی میڈیا کاداخلہ بند کردیا۔
کشمیر میں مسلم اکثریت کواقلیت میں بدلنے کے لیے مودی حکومت نے غیرمسلموں خاص کربی جے پی کے کارکنوں اورانتہاپسند ہندوؤں کو ترغیب دی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خریدیں اورمستقل رہائش اختیارکریں۔ان سب اقدامات کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت مزید بڑھ گئی ہے۔غیر جانب دار ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی تحریک مزید مضبوط ہوگئی ہے۔کشمیری پانچ اگست کومودی کے فاشسٹ اقدامات کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔پاکستان میں اس دن کویوم استحصال کے نام سے منایاجاتا ہے ۔ حکومت نے مؤقف اختیارکیاہے کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات واپس نہیں لیتا اور مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پرنہیں آتے ،اُس وقت تک مذاکرات نہیں ہوں گے۔
کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کے لیے مودی حکومت نے پورے بھارت سے بڑے پیمانے پر بھارت کو کشمیر میں آبادکرناشروع کیا اوریہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔30سے 40 لاکھ تک غیرکشمیریوں کوکشمیر کاڈومیسائل جاری کیاجاچکاہے۔بھارتی اقدامات، ظلم و جبر، آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کا تسلسل ہیں۔ بھارت اپنے جابرانہ اقدامات اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے جنوبی ایشیا کااستحکام تباہ کر رہا ہے جو تمام بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
عالمی برادری اس بات کوتسلیم کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کاحل ضروری ہے،اس کے بغیر خطے میں پائیدارامن قائم نہیں ہوسکتا۔دوایٹمی ممالک میں جنگ کاخطرہ بھی بدستورموجود ہے۔ماضی میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اوربھارت میں جنگیں ہوچکی ہیں۔ پاکستان کی پالیسی اورکوشش یہ رہی ہے کہ اس مسئلے کواقوام متحدہ کی قراردادوں اورکشمیری عوام کی رائے کے مطابق حل کیاجائے،لیکن مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت ہے،جو مسئلہ حل ہی نہیں کرناچاہتا۔پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بھارت کومذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا ۔یہ تجویز بھی دی گئی کہ امریکہ ،برطانیہ اورچین سمیت سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اس مسئلے کوحل کرنے میں اپنا کردارادا کریں، بھارت نے اس پیشکش کو بھی قبول نہ کیا۔مسلم ممالک بھی مسئلہ کشمیر کے لے اپناکردار ادا کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مسئلہ نہیں، یہ عالمی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرناضروری ہے۔دنیا کی آزادی کی تحریکوں کامطالعہ کریں تویہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب ظلم وستم حد سے بڑھتا ہے توآزادی کے متوالے بندوق اٹھانے پرمجبورہوجاتے ہیں،پھرتحریکیں اپناراستہ خودبناتی ہیں ۔بھارت کے پاس اب بھی وقت ہے اپنی ہٹ دھرمی ترک کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان سے مذاکرات کرے اورمسئلہ کشمیرکو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیاجائے ۔ ||
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 216مرتبہ پڑھی گئی۔