یوم دفاع

بقائے پاکستان

پاکستان 6 ستمبر کو یوم دفاع منا رہا ہے۔ 55 سال قبل ہم نے اپنی سرحدوں پر بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا اور مادر وطن کو دشمنوں سے بچایا۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ ہم ایک قوم کی شکل میں متحد تھے۔ ہم مضبوط نہیں تھے، ہمارے پاس زیادہ ہتھیار نہیں تھے، ہماری فوج چھوٹی تھی اور ہمارے ذرائع محدود تھے جبکہ دشمن جدید ترین ہتھیاروں سے مکمل طور پر لیس تھا اوراس کی تعداد ہم سے زیادہ تھی لیکن پھر بھی ہم اسے سبق سکھانے میں کامیاب ہو گئے۔ صرف اس لیے کہ ہمگروہوں میں نہیں بٹے تھے اور دشمن کے سامنے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ قوم نے ان کی پشت سے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا۔ فوج اس وقت اچھی طرح لڑ سکتی ہے جب قوم پیچھے کھڑی ہو اور یہی آج کی ضرورت ہے۔
دشمن نے پچھلی دہائیوں کے درمیان جنگ کے نئے ڈیزائن اور طریقوں کے ساتھ خود کو تیار کیا ہے اور پاکستان کو کسی بھی طرف سے کسی بھی طریقے سے براہ راست حملے، پراکسی، دہشت گردی، تخریبی سرگرمیوں، افواہیں پھیلانے، ہماری صفوں کے درمیان کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس کا ہمیں من حیث القوم احساس ہے اور ہم مؤثر جواب دینے کے لیے خود کو تیار رکھے ہوئے ہیں۔
نوجوان
 ان کے بنیادی تصورات کو صا ف اور انہیں صحیح راستے پر لے جانا
پاکستان کو نوجوان قوم کہا جاتا ہے کیونکہ ہماری 60 فیصد سے زیادہ آبادی 30 سے 35 سال کی عمر سے کم ہے۔ یہ بہت نازک عمر ہے جب انسان مختلف معاملات کے بارے میں اپنی رائے تیار کر رہا ہوتا ہے۔ جب وہ کوئی رائے بنا لیتا ہے تو زیادہ تر ساری زندگی اس پر قائم رہتا ہے۔ اگر ہم نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کریں تو یہ ملک کا قیمتی اثاثہ بن سکتے ہیں اور اگر نوجوانوں کو رہنمائی کے بغیر چھوڑ دیا جائے تو یہ وطن کے لیے بم بن سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ملک میں مسائل ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ میں نوجوانوں کو اپنی پرورش اور کیریئر بنانے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ آپ کے گھر میں آپ کے پڑوسی کے گھر سے کم سہولیات ہو سکتی ہیں لیکن یہ آپ کا گھر ہے۔ آپ اس گھر کے مالک ہیں اور آپ کے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ اپنے گھر میں فرسٹ کلاس شہری کی طرح اپنی زندگی گزاریں۔ ہم اس گھر کو وقت گزرنے کے ساتھ بہتر بنا سکتے ہیں لیکن اگر ہم اسے کھو دیں تو ہم اسے کبھی واپس نہیں لے سکتے ۔
سوشل میڈیا
 بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے لگام نہیں ہونا چاہیے
پاکستان میں نوجوانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے جو اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس میڈیا کا عام طور پر ہمارے نوجوان غلط استعمال کرتے ہیں۔ اب جب ملک میں سیاسی محاذ آرائی چل رہی ہے، نوجوان زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر اپنی مخالف جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں پوسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک سیاسی طور پر چارج ہونے والے نوجوانوں کے بڑے ہتھیار ہیں جہاں وہ نہ صرف دوسروں کو گالی دیتے ہیں بلکہ مخالفین پر غدار، بدعنوان اور بے ایمان کے الزام لگاتے ہیں۔ اس عمل نے ہمارے قومی اتحاد اور طاقت کو داغدار کر دیا ہے۔ ہم دو واضح تقسیموں میں بٹے ہوئے ہیں جہاں ایک دوسرے کے وجود کو ماننے کو تیار نہیں۔ بعض اوقات وہ اپنی بحثوں میں دفاعی اداروں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا تک بہتر رسائی رکھنے والا ہمارا ہر وقت کا دشمن ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کو دیکھ رہا ہے اور جب بھی ہمارے اپنے لوگ ہمارے دفاعی اداروں کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں تو ہمارا دشمن اسے کٹ پیسٹ کر کے رائی  کا پہاڑ بنا دیتا ہے جو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور بین الاقوامی برادری میں ہماری ساکھ اور ہمارے قومی عزم اور سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
والدین کا کنٹرول
موجودہ روزمرہ کی زندگی میں، والدین اپنے بچوں کے بارے اپنا فرض ادا نہیں کر رہے خاص طور پر وہ جو ٹین ایجرز(Teen agers) ہیں یا بڑے ہیں۔ والدین انہیں کھلاتے ہیں، اچھے اداروں میں بھیجتے ہیں لیکن ان کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھتے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے ان کے بچوں پر دنیا کھول دی ہے جس میں وہ ہر قسم کی اچھی بری باتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ نا پختہ ذہن کے طور پر، وہ پانچویں نسل کی جنگ کا پہلا اور آسان ہدف ہیں۔ وہ پاکستانی شخصیات کو اپنے ہیروز کے طور پر نہیں دیکھتے اور زیادہ تر وہ ان لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں جن کا ہماری اپنی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہیں تو وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا وقت ضائع کررہی ہیں۔ جس نوجوان کی کوئی سمت نہیں ہے وہ ہمارے مستقبل کے لیے اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ پاکستان مخالف پروپیگنڈے سے متاثر ہے کیونکہ بے سمت نوجوانوں کو پہلے سماج دشمن عناصر استعمال کریں گے اور آخر کار وہ غیر ملکی عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہوں گے۔
اساتذہ کا کردار 
ہم نے مشرقی پاکستان سے ایک سبق سیکھا کہ وہاں سکولوں اور کالجوں میں ہندو اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بنگالی نوجوانوں کو اپنے وطن متحدہ پاکستان کے خلاف نقطہ نظر سے متاثر کیا۔ اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل پر بار بار غیر ذمہ دارانہ سیاسی بیان بازی سے ہمارے نوجوان گمراہ ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں تو سکول، کالج، یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ جہاں کہیں سوچتے ہیں کہ طالب علم غلط راستے پر جا رہے ہیں، وہاں طلبا کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور رہنمائی کریں ۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے سکول کے زمانے میں اساتذہ کسی غلط کام پر طلبا کو نہیں چھوڑتے تھے اور صرف طالب علم کو صحیح راستے پر رکھنے کے لیے سخت اقدامات کرتے تھے۔ والدین نے کبھی اپنے بچوں کو سزا دینے پر اساتذہ کو ٹوکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
مذہبی رہنمائوں کا کردار 
پاکستان کی بنیاد ہمارا اسلامی نظریہ ہے۔ یہ ملک صرف اس بنیاد پر وجود میں آیا کہ مسلمان ہندوئوں سے الگ قوم ہیں۔ یہ بنیاد مذہبی علما پر زور دیتی ہے کہ وہ نہ صرف اس بنیاد پر مضبوط رہیں بلکہ اپنے خطبات جمعہ میں اس پر بحث کریں اور اپنے مدارس کے طلبا اور پیروکاروں میں اس نظریہ کو عام کریں۔ اسلام ہمیں اجتماعیت اور اتحاد کا سبق دیتا ہے۔ اسلام ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ا پنا دفاع کرنے کے لیے مضبوط رہیں۔ اسلام ہمیں کہتا ہے کہ سنی سنائی بات پر یقین نہ کرو اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سچ کی تحقیق کرو۔ اگر ہم اپنے مذہب کی صرف ان چند ہدایات پر عمل کرلیں تو ہم اتحاد و یکجہتی کے فقدان کے حوالے سے اپنے بڑے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
 قائداعظم کے تین اصول: اتحاد، ایمان، نظم و ضبط
قائداعظم نے یہ تین سنہر ے اصول ہماری ملکی سالمیت اور خوشحالی کے لیے بنائے لیکن بدقسمتی سے ہم ان اصولوں کو فراموش کر بیٹھے  ہیں۔ ہم نے اپنی ایک قوم کے درمیان فرقوں، برادریوں، خطوں، زبان وغیرہ کے ناموں پر دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ہم فرقوں میں بٹ گئے ہیں 
سماج کے مذکورہ بالا طبقات اور ان کے قائدین کے علاوہ، اس ریاست کے ہر شہری کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ اس ریاست کے بارے میں کیسا ردعمل ظاہر کر رہا ہے جہاں وہ پیدا ہوا اور بڑا ہوا۔ یہ وطن ہماری دنیا میں پہلی اور آخری پہچان ہے۔ ہم اپنے آپ سے صرف ایک سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ہم پاکستانی نہیں تو ہمارا تعارف کیا ہے؟ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہوں گے؟
ہم ہمیشہ اپنے اعمال پر نظر ڈالنے کے بجائے دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں پر تنقید اور صرف تنقید کرنے کے بجائے اس پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں؟اور اگر ہم اس ملک کے لیے کچھ نہیں کر رہے تو ہمیں دوسروں کو نشانہ بنانے کا بھی کو ئی حق نہیں ہے۔


مضمون نگار اسلام آباد میں اردو اخبار انگریزی ویب پورٹل اور میگزین کے ایڈیٹر ہیں ۔ وہ صحافت اور دفاعی امور پر لکھنے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
 [email protected] 

یہ تحریر 481مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP