قومی تشکیل میں محب وطن قائد سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ولولہ انگیز جذبوں سے بھرپور قائد ہی قوم کی کشتی کا بہاؤ ساحل مراد کی طرف موڑ لیتا ہے۔ نگہ بلند ، سخن دلنواز اور جذبہ پر سوز سے مزین رہنما قوم کا درد اپنی ذات میں محسوس کرتا ہے ۔ مسلمان قائدین نے ہر کڑے وقت پرقوم کی ڈگمگاتی ناؤ کو راہ ٔمستقیم پر گامزن کیا ۔ کائنات کی گردشِ دوراں ہزاروں سال جاری رہتی ہے تو پھر ایک انسان پیدا ہوتا ہے ۔ منتشر عوام کو قومی روپ میں ڈھالنے کے لیے بطلِ جلیل کا منظر عام پر آنا ایک معجزہ کہلاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ معجزے روز روز نہیں ہوتے ۔وقت مدتوں کسی نابغہ ٔروزگار کی تلاش میں رہتا ہے اور پھر ایسا قائد منصہ شہود پر آتا ہے جو قوم کی آواز بن جاتا ہے ۔ زمین کا وہ ٹکڑا کتنا خوش نصیب ہے جس پر کسی دیدہ ور کی آنکھ کھلتی ہے ۔ مادرِ گیتی ایسے فرزندِ جلیل کو جنم دے کر خود بھی فخر محسوس کرتی ہے ۔ جس قوم کو ایسا عظیم انسان میسر آجائے ، اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا ۔ محمد علی جناح ایسے ہی جلیل القدر انسانوں کی صف میں شامل ہیںجن کی ذات پر برعظیم پاک و ہند کے مسلمان فخر کر سکتے ہیں ۔ وہ قوم کے نباض اور دانائے راز تھے ۔ ایک نئی قوم کے بانی ، مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ، انسانیت ، شرافت ، صداقت ، امانت اور پیکرِ ایثار تھے ۔ انھوں نے دوقومی نظریے کی تفہیم و ترویج کر کے مسلمانوں کی عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑا دیا ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930 ء میں خطبہ الہٰ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا جو خاکہ پیش کیا اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے محمد علی جناح کی ولولہ انگیز بصیرت کام آئی ۔ اُن کا فلسفہ ٔ حیات کام ، کام اور بس کام تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اور لارڈریڈ کلف نے یہ بات تسلیم کی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو کسی قیمت پر نہیں خریدا جا سکتا ۔ وہ اولوالعزم انسان تھے ۔ جس بات پر ڈٹ گئے کبھی پیچھے نہ ہٹے ۔ تحریک پاکستان کو مہمیز لگانے میں اُن کا تاریخی کردار رہا ۔ وہ بچپن ہی سے صاف شفاف شخصیت کے مالک تھے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی میں ہی ہوگیا تھا ۔ وہ اس وقت لندن میں زیر تعلیم تھے ۔ علمی و ادبی سرگرمیوں میں ان کی گہری دلچسپی رہی ۔ وہ انگریزی زبان کے بہترین مقرر تھے ۔ لندن میں ہندوستانی طلبا ء کی انجمن قائم ہوئی تو اُنھوں نے بڑی سرگرمی کا مظاہرہ کیا ۔ 1885ء میں کانگرس معرض وجود میں آئی ۔ کانگرس نے ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔ قائد اعظم نے بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ کام کیا ۔ ہندوستان واپس لوٹے تو حالات ناگفتہ بہ تھے ۔ انگریز حکومت نے 1905ء میں ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے تنسیخ بنگال کا حربہ استعمال کیا ۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں نے خوب احتجاج کیا ۔ اس احتجاجی مہم کے نتیجہ میں 1906ء میں مسلم لیگ معرض وجود میں آئی ۔1909ء میں مسلمانوں کا ایک وفد لندن روانہ ہوا ۔مسلمانوں کو جداگانہ تشخص مل گیا ۔ منٹو مارلے اصطلاحات کے بعد انگریز حکومت نے 1911ء میں اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا ۔
صوبہ بمبئی کی کانگرس کمیٹی نے آپ کو صدر منتخب کر لیا لیکن جلد ہی کانگرس کا چہرہ منظر عام پر آگیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف کڑی تنقید کی۔1909 ء میں آپ کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنا دیا گیا اور پاکستان بننے تک مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے ۔ انھوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کر لیا ۔ حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے مسلمان ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے ۔ ایک عرصہ تک انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کوشش کی ۔ انھیں سفیر ِاتحادکہا جانے لگا لیکن ہندوؤں کی دوغلی پالیسی سے وہ مایوس ہوتے گئے ۔وہ بیس سال کانگرس میں رہے اور مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا ۔ ہندو لیڈروں نے پسِ پردہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ 1913 ء میں مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔
قائد اعظم نے محسوس کر لیا کہ کانگرس ایک فرقہ پرست جماعت ہے ۔ اس کے پیش نظر صرف ہندوؤں کا مفاد ہے ۔ اس تلخ حقیقت نے مجبور کیا کہ قائد اعظم کانگرس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ کی از سر نو تنظیم سازی کریں اور مسلمانوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کریں ۔ 1934 ء سے پہلے مسلم لیگ میں بے حد انتشار تھا ۔ رجعت پسند مسلم لیگیوں نے بھی اُن کی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن وہ اپنی دھن کے پکے تھے ۔ آخر اُن کا عزم صمیم رنگ لایا اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کا نعرہ بلند کیا جس سے کانگرسی لیڈ ر بوکھلا اُٹھے ۔ پہلی جنگ عظیم1914 ء سے 1918ء تک جاری رہی ۔ اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگرس میں میثاق لکھنؤ1916ء میں منظر عام پر آیا ۔ قائد اعظم کی بصیرت سے مسلمان آزادی کی راہ پر گامزن ہوگئے ۔1919ء میں انڈین نیشنل ایکٹ نافذ ہوا ۔ تحریک خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلمان حصول آزادی کے لیے سرگرم ہوگئے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے ۔ حکومت کا ہر حربہ ناکام نظر آنے لگا ۔ 1928 ء میں نہر و رپورٹ منظر عام پر آئی ۔ نہرو کا دعویٰ تھا کہ یہ برصغیر پاک و ہند کے مسائل کا حل ہے ۔ اس کے جواب میں1929ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات نے برعظیم پاک و ہند کی سیاست میں ہلچل مچادی ۔ شاعرِ مشرق ، ترجمان حقیقت ، اقلیم سخن ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ا لہٰ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار مملکت کا مطالبہ کر دیا ۔ علامہ محمد اقبال نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں ان پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہونی چاہیے ۔ چودھری رحمت علی نے اسے ''پاکستان '' کا نام دیا ۔ہندوؤں اور مسلمانوں میں سیاسی بے چینی نے حالات مزید خراب کر دیے ۔ انگریزوں نے1935 ء میں ایک نیا ایکٹ نافذ کر دیا ۔ مسلمانوں کے عظیم قائد محمد علی جناح نے اس ایکٹ کو ایک ایسا چیک قرار دیا جو کیش نہیں ہو سکتا ۔ اس ایکٹ کے تحت1936ء میں الیکشن ہوئے ۔ کانگرس نے فتح حاصل کر کے کانگرسی وزارتیں تشکیل دے دیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کچھ عرصہ کے لیے لندن تشریف لے گئے ۔ کانگرسی وزارتوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ۔ اصول فطرت ہے کہ ظلم ایک نہ ایک دن مٹ جاتا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی ۔ انگریزوں کو مسلمانوں کی ضرورت پیش آگئی اور انھوں نے کانگرسی وزارتوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے کہنے پر مسلمانوں نے یوم تشکر منایا ۔ قائد اعظم کی بصیرت کے سامنے ہندوؤں ، سکھوں اور انگریزوں کی چال بازیاں دم توڑ گئیں ۔ انگریز دوسری جنگ عظیم میں مصروف تھے کہ قرارداد لاہور کا مرحلہ قریب آگیا۔ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی لاہور آمد سے پہلے18 مارچ 1940ء کو خاکسار تحریک کے جلوس پر حکومت کی وحشیانہ فائرنگ سے 28 خاکسار شہید ہوگئے ۔جمعتہ المبارک 22 مارچ 1940 ء میں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ۔منٹو پارک ( موجودہ اقبال پارک ) میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ پیش کیا ۔ انھوں نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں دو قومی نظریے کے نمایاں خدوخال پیش کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں ۔ دونوں کے مذہبی عقائد مختلف ہیں ۔ ثقافت مختلف ہے ، طرز حیات مختلف ہے ، زبان مختلف ہے ، اس لیے ان کا الگ الگ ہونا بہت ضروری ہے ۔23مارچ 1940ء کو قرار دادِ لاہور پیش کی گئی اس کا متن صرف چار سو لفظوں پر مشتمل ہے ۔ مینار پاکستان پر یہ عبارت آج بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ جب یہ قرارداد ِ لاہور پیش کی گئی تو بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اسے قراردادِ پاکستان قرار دیا ۔ 24 مارچ 1940ء کو قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اس قرارداد پر دستخط کیے گئے ۔ تاریخِ پاک و ہند میں یہ ایک عظیم الشان مرحلہ تھا جب مسلمانوں نے متفقہ طور پر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا ۔ اس اجلاس کے بعد ہندو لیڈر مسلمانوں کی مخالفت پر میدان عمل میں آگئے ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق قائد اعظم کے عزم و استقلال میں جوش آتا گیا ۔ محمد علی جناح اپنے مؤقف پر چٹان کی طرح ڈٹ گئے کیوںکہ انھیں اس کی سچائی کا پورا پورا یقین تھا ۔ ہندوؤں ، سکھوں اور انگریزوں نے کئی منافقانہ گُر استعمال کیے لیکن وہ مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی جناح کی بصیرت تک نہ پہنچ سکے ۔ وہ ہندو ذہنیت کوبخوبی سمجھتے تھے۔ عالمی شہرت یافتہ دانش ور ،ماہر تعلیم ، ماہر اقبالیات ،پر وفیسر منور مرزا نے اس ساری صورت حال کو اپنی کتاب '' ہندو ذہنیت '' میں پیش کیا ہے ۔ ہندو رہنما کسی مقام او رکسی موقع پر بھی قائد اعظم کو شکست نہ دے سکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر معروف صحافی حمید نظامی نے 23 مارچ 1940 ء کو ''نوائے وقت '' کا اجراء کیا جس نے دو قومی نظریے کی ترویج کا فریضہ ادا کیا ۔ ہندو پریس نے قراردادِ لاہور کو قرار داد ِ پاکستان قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ۔ 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہوئی تو برعظیم پاک و ہند میں امن قائم کرنے کے لیے مختلف کوششیں شروع کر دی گئیں۔ 28دسمبر 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم اسٹو ڈنٹس فیڈریشن احمد آباد کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
''حضرات! ہندوستان کو تقسیم کر دینا چاہیے تاکہ ہندو اور مسلمان اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ سکیں او ربقدر شعور و صلاحیت ترقی کر سکیں ۔ اگر ہندوؤں نے سارا ہندوستان لینے کی کوشش کی تو وہ سارے کا سارا کھودیں گے لیکن اگر انھوں نے ایک تہائی مسلمانوں کو دے دینے پر رضا مندی ظاہر کی تو انھیں دو تہائی مل جائے گا ۔ ہندو صوبوں کی مسلم اقلیتیں اپنی تقدیر پر شاکر رہیں لیکن وہ مسلم اکثریتی صوبوں کی آزادی میں کبھی مزاحم نہ ہوں گی ۔''
قائد اعظم نے مسلم اکثریت کے مختلف علاقہ جات کا طوفانی دور ہ کیا او رسب کو دعوت فکر دی ۔ ہندو قائد ین کو مشورہ دیا کہ وہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں کہ وہ ہندو راج قائم کر سکیں گے ۔ کانگرس کی نام نہاد کوششیں قائد اعظم کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں ۔ قائد اعظم نے انگریزی حکومت کی ہر منفی چال کو دلائل سے ناک آوٹ کر دیا ۔ قائداعظم اکیلے سوئے منزل چلے تھے کہ ان کے کارواں میں بہت سے مخلص لوگ شامل ہوگئے ۔2مارچ 1942 ء کو قائد اعظم نے واضح کر دیا کہ ہمارا مقصد حصولِ پاکستان ہے ۔انھوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ'' سب سے پہلے آپ کو تعمیر قوم کی ادارت میں محنت کی داد دینا ہوگی آپ پوچھیں گے یہ ادارت کون سے ہیں او رکیا ہیں ؟ لیجیے میں آپ کو بتاتا ہوں دنیا میں کم از کم تین ستون رکن ایسے ہیں جو کسی قوم کو صاحب مملکت اور لاحقی حکومت بننے کا حق دار ٹھہراتے ہیں ۔ ان میں سے ایک تعلیم ہے ۔ تعلیم کے بغیر آپ اسی حالت میں ہوں گے جیسا کہ کل رات پنڈال کے اندر اندھیرے تھے اور اگر تعلیم ہوگی تو آپ کی کیفیت اس وقت کی سی ہوگی کہ روزِ روشن میں بیٹھے ہیں ۔ ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ دوسروں کو دھمکیاں دیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ سینے یہ ایک سیدھا سا معاملہ ہے ہم نے اپنے اپنے مدعا کی بنیاد ، دیانت ، انصاف اور صداقت پر رکھی ہے تو یہ ہوئی پہلی وجہ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو طاقتور ہوتے ہیں اپنے آپ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیتے ہیں ۔''
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنوں اور پرائیوں کے دروازے پر دستک دی اور انھیں تحریک پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی ۔ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے حصولِ آزادی کا نعرہ لبوں سے نہیں بلکہ دلوں سے لگایا تھا ۔ قدرت خلوص اور سچی نیت کو رائیگاں جانے نہیں دیتی ۔ مختلف مکتب ہائے فکر کے خواتین و حضرات نے قائد اعظم کے ساتھ قدم بقدم آگے بڑھنا شروع کر دیا ۔ ہندو سامراج نے انگریزوں کو غلط فہمیوں میں پھنسانے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ قائداعظم نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
'' ہم کو اپنے گھر بار او راپنے نصب العین جو ہماری متاع عزیز ہے کی حفاطت کے لیے تیار ہوجانا چاہیے پاکستان کو حاصل کرنا تمہارے اختیار میں ہے گو ہندوستان منطقہ جنگ سے باہر ہے لیکن ہندوستان میں بھی ایک قسم کی جنگ جاری ہے ۔میں اپیل کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو ناگہانی صورت کے لیے تیار رکھو ! علی گڑھ مسلم ہندوستان کا اسلحہ خانہ ہے اور تم اس کے بہترین سپاہی ہو تو دیہاتوں میں پھیل جاؤ،ہمارے آدمیوں کو تعلیم دو ، انھیں سدھارو ، انھیں ہمارا مقصد سمجھاؤ، بہت سے لوگ انھیں بہکانے کی کوشش کر رہے، انھیں ایک دفعہ سمجھ لینے دو تو پھر وہ اپنی منزل مقصود کی طرف چل پڑیں گے ۔ ''
سوئے منزل چلتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح اور اُن کے ساتھی کسی مرکز پر بھی نہ رکے ۔ قائد اعظم نے اپنی صحت کی پروا کیے بغیر سفر جاری رکھا ۔ مختلف اجتماعات میں حصولِ پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ وہ علامہ اقبال کی طرح جانتے تھے کہ نوجوانوں میں قوت عمل بہت زیادہ ہے ۔ وہ جذبۂ آزادی کو بیدار کر سکتے ہیں اس لیے انھوں نے نوجوانوں کے جلسوں کو ترجیح دی ۔ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ پاکستان حاصل کرنے کے لیے صداقت ، مساوات اور انصاف کا جذبہ بہت ضروری ہے ۔ ملک و قوم کی ترقی کا دارمدار اللہ تعالیٰ پر توکل اور سخت محنت میں مضمر ہے ۔ مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد منعقدہ 4 اپریل 1942 ء میںقائد اعظم نے کہا '' ہمیں ایک ایسا کھیل کھیلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس میں فریق مقابل فریب کاری سے کام لے رہا ہے آپ کو معلوم ہے کہ ہماری مجلس عاملہ 27مارچ سے ان تجاویز کا مطالعہ بڑی احتیاط سے کر رہی ہے اور دقت نظر سے ان کا امتحان لے رہی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سر اسٹیفورڈ کرپس او رملک معظم کی حکومت بلا تامل وہ ضرور تعزیرات کر دیں گے جن سے قیام پاکستان کی مکمل وضاحت ہو گئی ہے جس پر عمل کی ضرورت ہے ۔ مسلمانان ہند ایک اور محض ایک قوم کی حیثیت میں اپنی حکومت کے متعلق خود فیصلہ کرنے کے مختار ہوں ۔ ہمیں امید ہے کہ انجام کار ان مشوروں اور باہمی صلاح کار سے ایک ا یسا منصفانہ سمجھوتا پیدا ہوگا جس سے سب کا احترام برقرار رہے گا او رجسے سب قبول کریں گے ۔''قائد اعظم کے معالج انھیں آرام کا مشورہ دیتے رہے لیکن انھوں نے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد جاری رکھی ۔ 15 نومبر1942 ء کو جالندھر میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان کے بارے میں کہا ''ہمیں اپنی قوم کو منظم کرنا ہوگا ۔ دوسری قومیں شاید اس کو پیش دستی کہیں اور ہماری اس تنظیم کو فرقہ ورانہ جذبات پر محمول کریں ۔ یہ قومیں صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور مستقبل میں بھی زندہ رہیں گی۔ پاکستان ایک ایسی حکومت ہوگی جس میں سب قوموں کو زندگی کی تمام آسائشوں کا حصہ ملے گا ۔ اس لیے ا ب تمام مسائل حل کر لیجیے ، پاکستان ایک ایسی حکومت ہوگی جہاں ذات پات کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوگا ۔ ایسی کوششوں کو فرقہ واریت کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جتنی جلدی آپ حقائق کا سامنا کرنے کی کوشش کریں گے اتنی ہی جلدی آپ موجودہ مسائل کا حل تلاش کرلیں گے ۔''قائد اعظم محمد علی جناح نے سچی و مخلص لگن کے ساتھ پاکستان کا مطالبہ کیا ۔ کئی کمیشن ہندوستان آتے گئے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک ہی مطالبہ سامنے رکھا اور وہ ''پاکستان '' تھا ۔
1946 ء میں مرکزی او رصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے ۔ مسلمانوں نے مطالبہ ٔ پاکستان کی تائید اس صورت میں کی کہ مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت لیں او رصوبائی اسمبلیوں میں بھی مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی ۔ ہندوؤں اور انگریزوں کو یقین ہوگیا کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوں گے ۔ ہندوؤں اور انگریزوں کو بالآخر مسلمانوں کے مطالبہ ٔ پاکستان کے سامنے سر جھکا نا پڑا ۔3جون1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان کر دیا گیا ۔
ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے گورنمنٹ ہاؤس دہلی میں تقسیم ہند کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر بھی محمد علی جناح نے واضح کر دیا کہ مسلم اکثریت کے صوبوں کا اقتدار مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیے ۔ آخر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ہوئے ۔ 14 اگست 1947 ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔26 اور 27 رمضان المبارک6 136ھ کو تلاوتِ قرآن پاک کی گونج میں پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا ۔ قیام پاکستان ایک معجزہ سے کم نہیں تھا ۔ وہ قوتیں جو تصور پاکستان کو مضحکہ خیز کہا کرتی تھیں ،انھیں منہ کی کھانا پڑی ۔ وہ پاکستان جسے انگریز دیوانے کا خواب سمجھتے تھے ان کے منہ کھلے رہ گئے ۔ ہر چند تقسیم ہند کے وقت جانبدارانہ رویہ اختیار کیا گیا لیکن پھر بھی پاکستان کا وجود پوری دنیا کو تسلیم کرنا پڑا ۔ تقسیم ہند کا اعلان سنتے ہی مشرقی پنجاب او ریوپی کے مسلمانوں پر کوہِ الم ٹوٹ پڑا ۔ انھیں نہتا جان کر ہندودرندوں کی طرح اُن پر پل پڑے ۔ لاکھوں بے گناہ بچوں ، عورتوں اور مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ دنیا بھر کے مسلمان خون کے آنسو روئے ۔ اس ظلم پر چشم انسانیت غم ناک ہی ہوئی بلکہ شرم سے جھک گئی ۔ اب 1947 ء کے ان درندہ صفت لوگوں کے مظالم یاد آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں کراچی میں پاکستان کی نو مولو د حکومت کی بنیاد رکھی ۔ فسادات کے دوران ریڈیو کی تقاریر عزم و ہمت کی قندیلیں تھیں۔ 11 اکتوبر1947 ء کو سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان نے کہا ''جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گزشتہ دس برس جدوجہد کی ہے ، آج بفضل تعالیٰ ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے ، مگر کسی قوم کا ریاست کو معرض وجود میں لانا مقصد بالذات نہیں ہو سکتا ،بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریںجہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں ، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے او رجہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے ۔ ''
قائدا عظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے ان تھک کام کیا ۔ دن رات کام کرنے سے اُن کی صحت خراب ہوگئی ۔ اُن کو زیارت ( کوئٹہ کے قریب ایک صحت افزا مقام ) پر لے جایا گیا ، لیکن وہ صحت یاب نہ ہو سکے ۔ ڈاکٹر وں نے مشورہ دیا کہ انھیں حکومت کے کام چھو ڑ دینے چاہئیں ، لیکن ان کی ہمت نے یہ گوارا نہ کیا اور بیماری کے عالم میں بھی وہ ضروری امور طے کرتے رہے اور احکام صادر فرماتے ۔ آخر کار ان کی صحت نے بالکل جواب دے دیا تو انھیں کراچی لایا گیا اور11 ستمبر 1948ء کو اسلام کا مخلص خادم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا ۔
اِنَّا لِلّٰہ وَاِنآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ۔
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 159مرتبہ پڑھی گئی۔