ہمارے غازی وشہداء

داستان شجاعت

میجر محمد سلیمان خان ،ستارہ ٔجرأت جو 1948 میں کشمیر کے محاذ پر تعینات تھے کی رودادِ شجاعت 
لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) امجد حسین امجدکے قلم سے

میجر جنرل شوکت رضا کی کتاب پاکستان آرمی 49 ۔1947پڑھتے ہوئے جہاں بہت سی معلومات ملیں وہاں کتاب کے آخر میں ایک گروپ فوٹو بھی ملا جس میں 1948 کے آپریشن میں ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی تصویر تھی ، یہ تصویر میں نے اپنے کورس میٹ کرنل شاہد سلیمان کے ساتھ شیئر کی تو وہ بہت خوش ہوئے کہ اس تصویر میں ان کے والد مرحوم بھی موجود تھے جنہوں نے 1948 کی کشمیر کی جنگ میں ٹٹھوال سیکٹرمیں ستارہ ٔجرأت حاصل کیا تھا۔
افواج پاکستان کے بہادر سپاہیوں اورقابل افسران کے ساتھ ساتھ ذمہ دار صوبیدار صاحبان نے ماضی کے مختلف معرکوں میں اپنی جرأت اور بہادری کا لوہا منوایا ہے۔چکوال سے تعلق رکھنے والے میجر محمد سلیمان خان(مرحوم)،ستارہ جرأت کی داستان شجاعت بھی ایک ایسے ہی نڈر سپاہی کی کہانی ہے جنہوں نے ٹٹھوال سیکٹر میں اخروٹ والی ٹیکری کے قبضے میں اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے زخمی حالت میں دشمن کے انتہائی قریب پہنچ کر اسے کاری ضرب لگائی۔ایسے آپریشنز کا ذکر ہمارے مستقبل کے مسلح افواج کے لیڈروں کی تربیت اور آگاہی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں تاکہ نئی نسل کا خون ان کے عظیم کارناموں سے گرم رہے۔



کشمیر وادی جنت نظیر ہے ۔پہاڑ،دریا، درخت اور سبزہ اس کا حسن ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری اس طویل تنازع کے حل کے لیے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ، حق بقا اور حق خود ارادیت دینے کے لیے درجنوں قراردادیں پیش کی گئیں۔ ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش ارضی خدوخال سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں جو شاندار مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ کشمیر قدرتی اور سیاحتی مقامات سے نوازا گیا ہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیرکے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔ کشمیر کا جغرافیائی اور تاریخی الحاق ہمیشہ سے سرزمین پاکستان سے رہا ہے۔ پاکستان کے تمام دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔ دریائے نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے۔ بھارت میں اسے دریائے کشن گنگا بھی کہتے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں گرتا ہے۔ اس مقام سے کچھ ہی آگے جہلم پر منگلا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ دریا اپنے شفاف نیلگوں پانی کی وجہ سے مشہور ہے۔دریائے نیلم پر نوسیری کے پاس نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کے لیے ٹنل بھی بنائی گئی ہے۔جس سے علاقے میں سڑکوں اور دوسرے ترقیاتی کاموں کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔نیلم وادی سے ہوتی ایک  سڑک کیل تک جاتی ہے۔اس سڑک پر مظفر آباد، پٹیکا،نوسیری،جورا،ٹٹھوال،کنڈل شاہی،اٹھمقام،کرن بائی پاس، دواریاں، شاردہ اور کیل اہم اور تاریخی مقام ہیں۔شاردہ میں پہلی صدی عیسوی کی ایک تاریخی یونیورسٹی کے آثار بھی ملے ہیں۔ اس علاقے میں دریا کے دونوں اطراف پاکستان اور انڈیا کی سرحدی پوسٹیں ہیں اور قیام پاکستان کے وقت سے مختلف مواقع پر انڈیا پرامن شہریوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔



نیلم کی وادی
قیام پاکستان کے فوراً بعد متعصبانہ سرحدی تقسیم کے باعث کشمیر کا تنازع شروع ہو گیا تھا، پاکستان آرمی کو مختلف وجوہات کے باعث کشمیر میں ریگولر فورسز بھیجنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی جب کہ انڈیا نے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھایہ ذمہ داری انڈین 163 بریگیڈ کے پاس تھی۔23 مئی 1948 کو بھارت نے ٹٹھوال پر قبضہ کر لیا تھا۔پاکستانی 10 بریگیڈ ایبٹ آباد میں موجود تھا جب اسے یہ اطلاع ملی کہ انڈیا نے ٹٹھوال پر قبضہ کر لیا ہے۔بریگیڈیر حاجی افتخا ر احمد کی زیر قیادت 10 بریگیڈ کو دشمن سے اپنے علاقے واپس لینے کا حکم دیا گیا ۔مظفر آباد سے نیلم وادی کی طرف ٹریک کی حالت بہت خراب تھی۔ بریگیڈ نے اس کام کے لیے16/4 پنجاب کو منتخب کیا ۔ یہ یونٹ جنگ عظیم دوم میں اپنی بہادری کا لوہا منوا کر رزمک میں مختلف مقابلوں میں  بھی نمایاں پوزیشن حاصل کر چکی تھی۔
 رچھمار گلی سے انڈیا نے پنجکوٹ نالہ کے آس پاس کی تمام پوزیشنوں کا بلا روک ٹوک مشاہدہ کیا تھا اور توپ خانے میں بھارتی برتری کے باعث نوسیری کی طرف دن بھر کی نقل و حرکت کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان (کمانڈنگ آفیسر 16/4 پنجاب)کواپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود اعلیٰ حکام کو اس  حملے کے منصوبے پر راضی کرنے میں کچھ وقت لگا۔
لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان کا منصوبہ ایک کمپنی کے ساتھ3.7 انچ کی ماؤنٹین گن کی مدد سے ٹیکری پر حملہ کرنا تھا، یہ گن پہلے ہی چنج پر آزمائی جا چکی تھی۔ تمام تر تیاریوں کے بعد 13 اکتوبر کو کیپٹن حبیب اللہ خان اور صوبیدار سلیمان خان کی قیادت میں 'بی' کمپنی نے حملہ کیا۔ اسے ماؤنٹین گن سے 700 گز کے فاصلے سے دشمن کے بنکروں میں ڈائریکٹ  فائرنگ کرنے اور ٹیکری پر ان ڈائریکٹ توپ خانے اور مارٹروں کی مدد حاصل تھی۔ بھارتی توپ خانے، مشین گنوں اور بھارتی فضائیہ کے 'بی' کمپنی کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے باعث حملہ ہدف تک نہیں پہنچایا جا سکا ۔ کمپنی نے پوزیشنوں کے ارد گرد تاروں اور بارودی سرنگوں کو عبور کرنے کے لیے پانچ الگ الگ کوششیں کیں اور اگرچہ انجینئرز بالآخر ایک خلا پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن کمپنی کوئی پیش رفت نہیں کر سکی کیونکہ بھارت اس خلا کو پورا کرنے کے لیے مشین گنوں کو آگے لے آیا تھا۔ ابتدائی حملے کا اچانک پن ضائع ہو گیا تھا اور یہ بھی کہ 'بی' کمپنی کو36 زخمیو ں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے چھ شہید بھی ہوئے،ان سنگین حالات کے پیش نظر لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان نے دوپہر تک مزید حملہ جاری رکھنے  کا ارادہ ملتوی کر دیا۔بھارتیوں نے اپنے ریڈیو پر اعلان کر  دیا کہ انہوں نے ایک مکمل بریگیڈ حملے کو پسپا کر دیا ہے۔اس حملے کے دوران سب سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ کرنے والے صوبیدار محمد سلیمان خان تھے، جو M9A1 گرینیڈ سے لیس 3 جوانوں کے ساتھ دشمن کے بنکروں کے 20 گز کے فاصلے تک پہنچے اور مشین گن کی شدید فائرنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے بنکروں کو اڑانے میں کامیاب ہو گئے جن میں خودکار ہتھیار تھے اور اسی طرح مسلح 4 آدمیوں کی ایک اور پارٹی کو ٹیکری کے عقب میں لے گئے اور بنکروں کے ایک اور جال کو تباہ کر دیا،تاہم  ٹیکری  پربھارتی قبضہ برقرار رہا۔
15 اکتوبر کو لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان نے ایک اور حملہ کیا، لیکن ٹیکری سے دشمن کو پسپا کرنے میں دوبارہ ناکام رہے۔ اس دوران بھارتیوں نے پوزیشن کو کافی مضبوط کر لیا تھا اور اپنے بنکروں اور اس کے ارد گرد تاروں کی مرمت کر لی تھی۔ اس طرح یہ واضح تھا کہ صرف ایک بڑی کارروائی ہی  بھارتیوں کو اخروٹ والی ٹیکری سے باہر کرنے پر مجبور کر سکتی تھی اور رچھمار گلی میں اہم بھارتی پوزیشن پر قبضہ کرنے کے لیے اس سے بھی بڑے آپریشن کی ضرورت تھی۔ تاہم بین الاقوامی مذاکرات جو چل رہے تھے،  انہوں نے اس طرح کی بڑی جارحانہ کارروائی کو روک دیا۔ معمول کی گشت، عمومی گھات کی کارروائی ، توپخانے کی گولہ باری اوربھارتی فضائی کارروائیوں میں صورتحال پھر سے تعطل کا شکار ہوگئی۔لیکن یونٹ لیول پر بہت اعلی کام کیا گیا تھا۔اس آپریشن کی کامیابی کا سہرا غیر روایتی کارروائی، اچانک پن کا حاصل کرنا، غیر متوقع سمت سے حملہ کرنا، جونئیر لیڈرز میں پہل کرنے کا عمل اور مشکل علاقوں میں مہارت سے کاروائی کرنے کو جاتا ہے۔تقریباً 74 سال قبل اس علاقے میں سہولتوں کی شدید قلت تھی۔



 آپریشنل ایریا کا نقشہ
اس مضمون کی تیاری میں 16/4 پنجاب موجودہ 17 پنجاب کے کرنل شہباز سے بھی رہنمائی لی گئی، انہوں نے اپنے مضمون میں شہزادی گن کا ذکر کیا تھا۔ جس سے ایک گنر آفیسر کا دھیان جنرل شوکت رضا کی کتاب " عزت و اقبال " کی طرف جاتا ہے۔ جس سے پڑھ کر معلوم ہوا کہ کتنی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس آپریشن کے لیے 3.7انچ شہزادی گن کو ایبٹ آباد سے چنج فیچر تک پہنچایا گیا۔ میں نے پوائنٹ 7229 گن پوزیشن 2008 میں دیکھی تھی اور نوسیری سے گن پوزیشن تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے تھے-تب جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ ساٹھ سال پہلے، 1948 میں حالات اور ٹریکس کی  حالت کتنی خراب ہو گی اور جنگ کے بادلوں کے دوران رات کے وقت دریائے نیلم (کشن گنگا)کی خوفناک او ر خونی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے گن کو مطلوبہ گن پوزیشن تک لے جانا اور اسے رسوں کی مدد سے ڈائریکٹ فائر کے قابل بناناتوفرمان علی جیسے گن پوزیشن آفیسر کا ہی کام تھااس سلسلے میں برٹش آفیسر میجر سلون آفیسر کمانڈنگ انجینئر کمپنی کی خدمات کو تسلیم کرنا بھی مناسب ہو گا جن کی انتھک محنت سے شہزادی گن کو مختلف حصے عارضی پل بنانے کی وجہ سے اس بلندی تک پہنچاناممکن ہوا۔بعد میں یہ آفیسر اسی آپریشن کے دوران مائنز کلئیرنس کے دوران ہلاک ہو گیا اور ایبٹ آبادمیں دفن ہے۔اگر انفنٹری نے کرنل نوشیرواں جیسے بہادر کمانڈنگ آفیسراس آپریشن کے لیے دیے تو توپخانے نے بھی راؤفرمان علی خان جیسے قابل گن پوزیشن آفیسر بھیجے۔چنج،کائی اور کافرخان پوزیشنز پر توپخانے کے حیران کن اور تباہ کن فائر کے بعد سکھوں نے 2 کوہاٹ بیٹری کے لیے یہ اعزازی کلمات  کہے تھے۔



'' اوئے ایہنوں حقہ بنایا ہویا جے
جتھے جاندے ہو اس نوں نال لے جاندے او''
 میجر جنرل شوکت رضا کی کتاب" عزت و اقبال" اور  میجر (ریٹائرڈ) آغا ہمایوں امین کی کتاب " کشمیر میں پاکستان انفینٹری بٹالینز کی پرفارمنس" میں اس معرکے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انڈین جنرل ہربخش سنگھ نے اپنی کتاب "لائن آف ڈیوٹی" میں بھی اس آپریشن کا ذکر کیا ہے۔آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صرف نے کشمیر کی جدوجہد پر دو والیم پر مشتمل تفصیلی کتاب لکھی ہے کہ بھارت نے 23 مئی کو ٹٹھوال پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہاں سے مظفرآباد کا فاصلہ صرف 30 میل تھا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف 12/5 ایف ایف آر کی ایک کمپنی تھی۔ بریگیڈیئر ہربخش سنگھ نے اپنے فوجیوں کو دو دن آرام دیا۔ اس  وقت میجر محمد اکبر ایک پارٹی کے  ساتھ ٹٹھوال کے نواح میں پہنچے۔10  بریگیڈ کا ایڈوانس کالم، 30 میل طویل پہاڑی فاصلہ پیدل اور آرام کے بغیر طے کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچا۔کئی قبائلی جنگجو بھی ان کے ساتھ مل گئے-پاک فوج نے کہوڑی کے مقام پر  رسوں اور پلی کی مدد سے پل تعمیر کیا اور کرنل نوشیرواں نے نوسیری کے مقام پر اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔
صوبیدا رسلیمان خان نے 9 سال تک 16/4 پنجاب رجمنٹ میں سروس کی جو بعد میں 17 پنجاب بن گئی اور اس یونٹ کے ایک عظیم سپوت  میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کے محاذ پر نشان حیدر حاصل کیا۔پنجاب رجمنٹ میں سروس کے دوران انہوں نے جنگ عظیم دوم اور کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا اور داد شجاعت دی۔ اس کے بعدانہوں نے 3 بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا  اور میجر کے رینک تک1963 تک  سروس کی ۔ 3 بلوچ رجمنٹ نے بھی باٹا پور کے محاذ پر اپنی بہادری کا لوہا منوایا تھا۔ 1965 کی جنگ میں میجر (ریٹائرڈ)محمد سلیمان خان نے بطور ریزروسٹ حصہ لیا اور اپنے جنگی تجربے سے یونٹ کے لوگوں کو آگاہ کیا۔
 23 سالہ سروس کے دوران   میجر(ریٹائرڈ)سلیمان خان نے بے شمار محاذوں پر  لڑائی میں شرکت کی اور  انہیں درج ذیل  میڈل اور سٹارز سے نوازا گیا۔
1۔ ستارۂ جرأت -13 اکتوبر 1948
2- تمغہ دفاع جنگ 1948
3۔سٹار-45 1939
4۔افریقہ سٹار 8 آرمی  کے ساتھ
5۔ اٹلی سٹار
6۔تمغہ دفاع 1939-45
7۔تمغہ جنگ 1939-45
8۔تمغہ پاکستان 14 اگست 1947
9۔تمغہ یادگاری 23 مارچ 1956 
جنرل مو سیٰ اور جنر ل اکبر کی طرح صوبیدار سلیمان خان نے بھی سپاہی کے رینک سے ترقی کرتے ہوئے آفیسر رینک حاصل کیا۔میجر سلیمان خان مرحوم کے بیٹے  کرنل شاہد سلیمان نے بھی پاک فوج میں خدمات سرانجام دیں۔
پاکستان آرمی نے  میجر سلیمان خان کی بہادری کا ذکر ''کشمیر کمپین 48-1947 میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی بہادری ،شجاعت اور قومی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے پورٹریٹ کو آرمی میوزیم راولپنڈی کی زینت بنا رکھا ہے۔اس کے علاوہ ان کے نام کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے راولپنڈی میں ایک سڑک اور لاہور کینٹ میں ایک سٹریٹ کا نام بھی ''سلیمان سٹریٹ'' رکھا ہے۔وہ 29 اکتوبر 1994 کو بھر پور زندگی گزارنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنے آبائی گائوں ڈھریالہ کہون ضلع چکوال  میں آسودہ خاک ہیں جہاں اہم قومی دنوں میں یونٹ اور گردونواح کے لوگ فاتح پڑھنے آتے ہیں اور اپنے بچوں کو اس عظیم مجاہد کی  داستان شجاعت سناتے ہیں۔

کیپشن

(میجرمحمدسلیمان خان، ستارہ جرت ایوارڈ حاصل کرنے والوں کے ساتھ،دائیں سے پہلے بیٹھے ہوئے)


 

یہ تحریر 360مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP