انجمن ترقی پسند مصنفین بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں مختلف الخیال حریّت پسند ادیبوں کے متحدہ محاذ کی صورت میں وجود میں آئی تھی - اِس میں جہاں پنڈت نہرو کے انند بھوون میں عرصہء دراز تک مقیم رہ کر اُن کے پرسنل سٹاف میں کام کرنے والے میاں بیوی محمود الظفر اور رشید جہاں سرگرم عمل تھے‘ وہاں مولانا حسرت موہانی کا سا صوفی مومن بھی فعال تھا- مختلف تصورات اور خیالات کے حامل یہ سب افراد سیاسی آزادی ، معاشی انصاف اور معاشرتی اخوّت و مساوات کے اصولوں پرمتحد ہوئے تھے مگر ایک دوسال کے اندر اندر اِس پر کمیونسٹ نظریہ سازوں کی آمریت مسلّط ہو گئی-تخلیق کار اپنی دُھن میں تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے مگر یہ غیر تخلیقی اشتراکی نظریہ ساز اِن کی جا و بے جاگرفت میں مصروف رہتے تھے-تخلیق کی آزادی پر یہ قدغن جوزف سٹالن کی متشددانہ حکمتِ عملی اور سوویٹ رائٹرز یونین کی کورانہ تقلید پر مبنی تھی-
ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین میں پنڈت نہرو کے اثر و رسوخ اور کمیونسٹ پارٹی کے تسلط کی نمایاں ترین مثال پاکستان کا وہ قومی و ملی ترانہ ہے جسے مخدوم محی الدین اپنے منسوخ کلام میں شامل کرنے پر مجبورکر دیئے گئے تھے- 1 یہ پاکستان کا وہ قومی و ملّی ترانہ ہے جس کی گونج سن چالیس کی دہائی میں پورے برصغیر میں یہاں وہاں سُنائی دینے لگی تھی- اِس کی تخلیق مخدوم محی الدین اور اسرارالحق مجاز کا مشترکہ کارنامہ بتایا جاتا ہے- یہ ترانہ مجاز کے مجموعہء کلام ’’شب تاب‘‘ میں شامل ہے-ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نزدیک :
’’مجاز کے اِس مجموعہء کلام کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مجاز نے اِس کا انتساب 23مارچ 1945ء کو لکھا تھا- 23مارچ کے بجائے اُنھوں نے ’’یومِ پاکستان‘‘ لکھنا پسند کیا- عبارت کی ترتیب یوں ہے:
عصمت کے نام
مجاز
یومِ پاکستان - دلّی مارچ 1945ء......‘‘2
شفقت رضوی اپنی کتاب بعنوان ’’مخدوم محی الدین: حیات اور ادبی خدمات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’یہ ترانہء پاکستان مخدوم اور مجاز کی مشترکہ شعری کاوش ہے- ’’نظر حیدر آبادی اسے مخدوم کی تخلیق بتلاتے ہیں- مخدوم سے ذاتی واقفیت اور جس مشاعرے میں مخدوم نے اِسے سُنایا تھا‘ اُس میں موجودگی کی بناء پر اُن کے بیان کو مصدقہ تسلیم کیا جاتا ہے-نظر نے لکھا ہے: مخدوم نے ’’ترانہء پاکستان‘‘ بھی لکھاتھاجسے مجاز نے اپنی دماغی علالت کے زمانے میں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اپنے نام سے شائع کر دیا تھا- اِس کی اشاعت کے فوراً بعد کمیونسٹ پارٹی کے مشہور اخبار ’’نیا زمانہ‘‘ بمبئی نے حقیقتِ حال کا انکشاف کر دیا تھا۔3 صحیح صورتِ حال کا انکشاف مرزا ظفر الحسن نے کیا ہے- اکتوبر1945ء میں جب کُل ہند ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس حیدر آباد دکن میں منعقد ہوئی ظفر الحسن دکن ریڈیو سے وابستہ تھے- اِس موقع پر دکن ریڈیو نے کُل ہند مشاعرے کا اہتمام کیا- وہ اِس کے منتظمین میں شامل اور مشاعرے میں موجود تھے- وہ لکھتے ہیں کہ مخدوم نے اِسی میں اپنی نظم ’پاکستان ہمارا ‘نشر کی۔4 مرزا ظفر الحسن نے اپنی ایک اور کتاب میں مزید وضاحت کی ہے کہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد کرشن چندر نے مجھ سے کہا حیدر آباد ریڈیو بڑا ترقی پسند سٹیشن ہے- اگر تم یہ نظم آل انڈیا ریڈیو سے نشرکرواتے تو انگریز تمھیں اور تمھارے پورے خاندان کو سولی پر لٹکا دیتے۔5‘‘ کامریڈ کے ایل مہندرا کمیونسٹ پارٹی میں مخدوم کے دیرینہ رفیقِ کار تھے۔ اُنھوں نے مخدوم محی الدین پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :
’’پارٹی نے پاکستان کی تحریک کی حمایت شروع کر دی تھی لیکن بعد میں نظرثانی کے بعد حمایت ترک کر دی- انھوں نے (مخدوم نے) وہ نظم لکھی جس میں ’’پاکستان ہمارا‘‘ کے نعرہ کو ایک عوامی نعرہ کی حیثیت سے استعمال کیا گیا تھا- مخدوم کو پارٹی کے فیصلوں میں نظرثانی کے بعد اِس نظم کے مضمرات پر بھی غور کرنا پڑا اور انھوں نے اپنے کلام سے خارج کر دیا مگر عرصہ تک یہ نظم محفلوں اور مجلسوں میں دادِ تحسین حاصل کرتی رہی۔6‘‘
شفقت رضوی صاحب نے اپنی اِسی کتاب میں صورتِ حال پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے : ’’ترانہء پاکستان عرصہ تک کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے مزدوروں کے جلسوں میں بھی پڑھا جاتا رہا- ممکن ہے مجاز نے اِس میں لفظی ردوبدل بھی کیا ہو لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخدوم کی شعری کاوش ہے اور وہ ایسے ترقی پسند شاعر تھے جو قیامِ پاکستان کے حامی تھے- 7‘‘اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو شاعروں کی مشترکہ تخلیق’’ پاکستان کا ملی ترانہ‘‘کا مکمل متن زیرِ غور لائیں:
آزادی کی دُھن میں کِس نے آج ہمیں للکارا
خیبر کے گردُوں پر چمکا ایک ہلال اک تارا
سبز ہلالی پرچم لے کر نکلا لشکر سارا
پربت کے سینے سے پُھوٹا کیسا سرکش دھارا
سرمائے کا سُوکھا جنگل اُس میں سُرخ شرارا
پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا
سو انجیلوں پر ہے بھاری اک قرآن ہمارا
روک سکا ہے کوئی دشمن کب طوفان ہمارا
ہر تُرک اپنا، ہر حُر اپنا، ہر افغان ہمارا
ہر شخص اک انسان یہاں ہے ہر اِنسان ہمارا
ہم سب پاکستان کے غازی پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا
اِس بحث سے قطع نظر کہ درج بالا رو ح پرور ترانے کی تخلیق میں مجاز کا کتنا حصہ ہے اور مخدوم کا کتنا ؟ اِس حقیقت سے آنکھیں چار کرنا ضروری ہے کہ دہلی سے لے کے دکن تک ترقی پسند شاعروں کے دل و دماغ میں تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال ہر آن مچل رہے تھے- انجمن ترقی پسندمصنفین پر مسلّط کمیونسٹ آمریت سے سرتابی کی مجال نہ رکھتے ہوئے بھی شاعر اور ادیب ، کسان اور مزدور طلوعِ پاکستان کے انتظار میں نغمہ سنج تھے- کاش انجمن کی قیادت نہ پنڈت جواہر لال نہرو کے انند بھوون کے جادو میں اسیر ہوتی اورنہ ہی رُوس کی کمیونسٹ پارٹی کی تنخواہ دار!
حواشی
1۔ مخدوم محی الدین ، حیات اورکارنامے، ڈاکٹر شاذ تمکنت ، حیدر آباد دکن، 1986ء، صفحہ272‘273
2تحریکِ آزادی میں اُردو کا حصہ، معین الدین عقیل، کراچی،1976ء، صفحہ 526
3۔ اقبال اور حیدر آباد ، نظر حیدر آبادی، کراچی، سن ندارد، صفحہ13
4۔ عمر گذشتہ کی کتاب ، مرزا ظفر الحسن ، کراچی،1978ء، صفحہ 107
5۔ ذکرِ یار چلے، مرزا ظفر الحسن، کراچی، سن ندارد، صفحہ393
6۔ کامریڈ مخدوم، رسالہ نیا ادب، مخدوم نمبر، حیدر آباد دکن، جنوری 1970ء، صفحات77‘78
7۔ مخدوم محی الدین : حیات اورادبی خدمات، شفقت رضوی، کراچی، سن ندارد، صفحہ108
نذرِ وطن
ہمیشہ آنکھ میں روشن رہے تصویر مٹی کی
بدن کو نو ر کرتی ہے بہت تاثیر مٹی کی
سمندر کا سفر ہو یا سفر ہو وہ خلاؤں کا
مرے پاؤں میں رہتی ہے سدا زنجیر مٹی کی
کوئی نغمہ ہو کوئی نظم ہو یا ہو غزل کوئی
جھلکتی ہے مرے الفاظ میں تنویر مٹی کی
کبھی اِک حرف بھی آنے نہ دوں گا اس کی حُرمت پر
متاعِ جاں سے بڑھ کر ہے مجھے جاگیر مٹی کی
وہ جس کو سنگِ مر مر میں سجی تصویر بھاتی ہے
بیاں اُس سے نہیں ہو گی کبھی تفسیر مٹی کی
نجانے کون سے خوابوں کے امکاں ساتھ لائے گی
یہی جو اِک سفر میں ہے نئی تعبیر مٹی کی
ڈاکٹر نثار ترابی
یہ تحریر 899مرتبہ پڑھی گئی۔