جب آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں اقبال کے تصور پاکستان کو اپنے واضح، قطعی اور متعین سیاسی پروگرام میں ڈھال لیا اور اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیاتو اس عوامی جمہوری تحریک کی روز افزوں مقبولیت نے مغربی دنیا کے صحافتی اور علمی حلقوں میں بھی تشویش و تجسس کی لہریں دوڑا دیں۔ تحریکِ پاکستان کی معنویت کو سمجھنے کے لئے جن لوگوں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا اُن میں برطانیہ کے افسانہ نگار صحافی بیورلی نکلس بھی شامل ہیں۔ موصوف نے ایک برس سے زیادہ عرصے تک ہندوستانی زندگی کے حقائق کو سمجھنے کے لئے مطالعہ و مشاہدہ اور تجزیہ و تحسین میں بسر کیا۔ اُس نے برطانوی ہند کے تمام سر کردہ سیاسی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کرنے کے بعد سب سے آخر میں قائداعظم سے مکالمہ کیا اور اس مکالمہ کو اپنی کتاب "Verdict on India" (پہلی اشاعت، لندن،١٩٤٤ئ) میں Dialogue With a Giant کے عنوان سے شامل کر دیا۔ اپنے تعارفی اور اختتامی کلمات میں بیورلی نکلس نے قائداعظم کو ایشیا کا عظیم ترین سیاسی مدبّر قرار دیا۔ اس ''دیوقامت شخصیت'' کے ساتھ اپنے تاریخی مکالمے کے دوران اُس نے دو قومی نظریے پر جو چبھتے ہوئے سوالات کئے تھے وہ قائداعظم کے دو ٹوک جوابات سمیت قارئین کی نذر ہیں:
سوال کنندہ : کیا آپ اُن اساسی اصولوں کی وضاحت فرمائیں گے جو آپ کے مطالبۂ پاکستان کی بنیاد ہیں؟
جناح: صرف پانچ لفظوں میں: ''مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔'' اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور اگر آپ ایک دیانتدار شخص ہیں تو آپ پاکستان کے مطالبہ کو ضرور تسلیم کر لیں گے۔ اگر قیام پاکستان کی راہ میں حائل موجودہ مشکلات سو گنا بڑھ جائیں تب بھی آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی۔ البتہ اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں تب.. ...انھوں نے اپنے کندھے سکیڑے اور مسکرائے.....تب مکالمہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔
سوال کنندہ : جب آپ مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دیتے ہیں تو کیا آپ مذہب کے حوالے سے سوچ رہے ہوتے ہیں؟
جناح: یاد رہے کہ اسلام فقط مذہبی عبادات تک محدود نہیں ہے۔ اسلام زندگی کا ایک عملی ضابطۂ حیات ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں تو میں زندگی اور زندگی کی ہر اہم چیز کے حوالے سے سوچ رہا ہوتا ہوں۔ میں اپنی تاریخ، اپنے ہیروز، اپنے آرٹ، اپنے فنِ تعمیر، اپنی موسیقی، اپنے قانون کے معنوں میں سوچ رہا ہوتا ہوں۔
سوال : از راہِ کرم ذرا سا توقف کیجئے! یہ سب کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔
جناح: (ذراتوقف سے) ان تمام معاملات میں ہمارا اندازِ نظر ہندوؤں سے نہ صرف بنیادی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات انتہائی متصادم ہے۔ ہم دو الگ الگ ہستیاں ہیں۔ ہم سراسر جداگانہ وجود ہیں۔ ہماری زندگیوں میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں باہم مربوط کرتی ہو۔ ہمارے نام، ہمارے لباس، ہماری خوراک…ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی، ہمارے تعلیمی نظریات، خواتین سے ہمارا برتاؤ، جانوروں سے ہمارا سلوک… ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ صرف ایک سوال پر غور فرمالیں۔ گائے کا ابدی سوال۔ ہم گائے کھاتے ہیں اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اسی شہر میں صرف چند روز قبل گائے کا یہی مسئلہ انتظامیہ کا بہت بڑا دردِ سر ہو کر رہ گیا تھا۔ ہندوؤں نے صرف اس بات پر زبردست احتجاجی جلوس نکالا تھا کہ شہر میں گائیں ذبح کی جا رہی ہیں۔ گائے کا یہ مسئلہ اس طرح کے ہزاروںمسائل میں سے ایک ہے۔ (ذرا توقف سے) آپ نے اب تک کیا لکھا ہے؟
سوال کنندہ: میں نے صرف یہ لکھا ہے : The Muslims are a Nation.
جناح: اور کیا آپ اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں؟
سوال کنندہ: جی ہاں! میں تسلیم کرتا ہوں…''(اقتباس)
بیورلی نکلس نے قائداعظم سے ١٨دسمبر١٩٤٣ء میں کیاگیا یہ انٹرویو اپنی کتاب میں من و عن درج کرنے کے بعددو قومی نظریئے کی بنیاد پر اسلامیانِ ہند کا مطالبۂ پاکستان جائز اور برحق قرار دیتے ہوئے مغربی دُنیا کے لبرل حلقوں کی بے خبری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ مغرب کے یہ لبرل دانشور ہندوؤں کے جھوٹے پروپیگنڈے سے گمراہ ہو کر رہ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف ہندو ہی ہندوستان کے مالک ہیں۔ انھوں نے برٹش ہاؤس آف کامنز میں ہندوستان کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے چیخ چیخ کر دلائل دینے والے سیاستدانوں کی حقائق ناشناسی پر تنقید بھی کی ہے۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان صرف ایک تصور، صرف ایک خواب تھا اور قائداعظم اس خواب کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر عملی جامہ پہنانے کی خاطر تحریکِ پاکستان کی قیادت کا حق ادا کرنے میں مصروف تھے۔ اُس زمانے میں لبرل دانشور اکھنڈ بھارت کے تقدس کے نام پر فکری انتشار پھیلانے کو ترقی پسندی اور وسیع النظری کا لازمہ سمجھتے تھے۔ آج جب پاکستان ایک حقیقت ہے خود پاکستان کے چند دانشور بھی پاکستان کی مسلمہ نظریاتی اساس یعنی دو قومی نظریے کو پھر سے متنازع فیہ بنانے میں سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلے میں بابائے قوم کے فرمودات کی غلط تعبیر پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ چنانچہ قائداعظم کے اس ساٹھ برس پرانے انٹرویو کو ایک بار پھر پڑھنا اور سمجھنا ہماری قومی ضرورت بن گیا ہے۔ ||
مضمون نگار ایک ممتاز دانشور ہیں۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق ریکٹر ہیں۔ آپ کی تحاریر قومی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
یہ تحریر 4457مرتبہ پڑھی گئی۔