متفرقات

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور بندۂ مزدور

مئی کا مہینہ گھونگٹ اُٹھاتا ہے تو مزدوروں کے عالمی دن کی یاد ہمارے ذہنوں پر دستک دیتی ہے ۔ پوری دنیا کا نظام مزدوروں کی محنتِ شاقہ کا رہین منت ہے ۔ خالقِ کائنات نے محنت کشوں کو اپنا دوست قرار دیا ہے ۔ محنت کے خوگر لوگ ہی رونق بزم نگاراں ہیں۔ مزدوروں کی انتھک محنت سے ہی کاروبارِ حیات میں رونق ہے۔ مزدور کی عظمت کے حوالے سے دنیا بھر میں شعور موجود ہے ۔ اُن کی محنت کا ادراک بھی کیا جاتا ہے لیکن اُس کی زندگی کے خاردار مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہم آج تک ناکام ہیں۔ بندۂ مزدور عظمت کے حوالے سے مختلف دانشوروں اور صحافیوں نے لاتعداد مضامین لکھے ہیں لیکن مزدور کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ شاعرِ مشرق ، اقلیمِ سخن، شہسوارِ تخیل ، طائرِ رجائیت ، اور مفکرِ پاکستان، ڈاکٹر علامہ محمدا قبال نے اپنے افکار میں مزدور کی قدر و منزلت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔اقبال  آنے والے کل کو آج سے بہتر دیکھنے کے خواہاں رہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اُن میں انقلاب کی خو موجود تھی۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں انقلابی ترقی کا پیغام دیتے رہے۔ یہ انقلاب محنت کے بغیر ناممکن ہے ۔ اُنھوں نے اپنی شاعری اور نثر میں  تمام شعبہ ہائے فکر کو نوید نو عطا کی ہے۔ وہ مغرب کی اخلاقی پستی اور بے راہ روی کے خلاف لکھتے رہے لیکن اہلِ مغرب کی سخت کوشی اور جذبۂ محبت کو سراہتے رہے۔ اُنھوں نے یورپ میں گزارے ہوئے لمحات کو اپنے افکار کی زینت بنایا۔ وہ سمجھتے تھے کہ قومی زندگی میں محنت کامیابی کی کنجی ہے۔وہ اہلِ مغرب کی تعمیری ترقی کے خوشہ چیں رہے۔ بنظر عمیق اگر ہم فکرِ اقبال کا مطالعہ کریں تو اسلام اور انسان اُن کا خاص موضوع ہے ۔ تلاوتِ قرآن پاک ، علامہ اقبال کے معمولات میں سرِ فہرست ہے ۔ قرآنی تعلیمات میں دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ہاں مزدور کی عظمت کا پورا ادراک موجود ہے ۔ آج بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت' مزدوری اور مشقت کا چارٹر پوری دنیا میں زندہ ہے۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک ضابطۂ حیات کے گرد گھومتے ہیں۔


 ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ہاں مزدور کی عظمت کا پورا ادراک موجود ہے ۔ آج بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت' مزدوری اور مشقت کا چارٹر پوری دنیا میں زندہ ہے۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک ضابطۂ حیات کے گرد گھومتے ہیں۔


معاشرتی زندگی میں یوں تو ہر شخص مزدور ہے لیکن خون پسینہ بہا کر زلفِ روزگار سلجھانے والا' اپنی محنت سے جوئے شیر لانے والا' سنگلاخ چٹانیں توڑنے والا' قافلے لٹا کر منزل کو سینے سے لگانے والا اور دھوپ میں جل کر دوسروں کو چھائوں بخشنے والا حقیقی مزدور کہلاتا ہے۔ اس کی اہمیت مسلمہ حقیقت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ دستکار کے تعاون کے بغیر خوش حال نہیں ہوسکتا ۔ حتیٰ کہ معاشرتی ترقی کا دارومدار مزدور کی محنت سے وابستہ ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں محنت کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن اسلام نے مزدور کی عظمت کا اعتراف جس انداز سے کیا ہے'وہ عالمگیر حقیقت ہے۔ اسلام سرمایہ کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ مادیت میں گم ہوکر روحانیت کو بھول جانے کا مخالف ہے۔ اسلام میں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اقدار کی ترقی اور احیاء لازم و ملزوم ہیں۔ تاجدارختم نبوت ، شہنشاۂ عرب و عجم، محمد مصطفی ۖ ،غرباء کے ماحول میں رہے اور دعا مانگتے رہے کہ قیامت میں بھی وہ غریبوں کی صف میں کھڑے ہوں۔
مغربی مفکرین کایہ خیال بالکل غلط ہے کہ مغرب نے مزدور کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اسلام بطور مذہب مزدور اور آجر کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے ۔ آنخصورۖ نے فرمایا'' مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو اور کسی کو کام پر لگا نے سے پہلے اس کی اجرت بتا دو۔ '' قرآن و حدیث میں محنت کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ حضور اکرم ۖ خود محنت کیا کرتے تھے اور دوسروں کو محنت کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ جنگ خندق کے موقع پر آپ ۖنے خود بھی خندق کی کھدائی میں حصہ لیا۔ سفر کے وقت اپنی باری کے وقت سواری کی اور پیدل چلنے کے وقت پیدل سفر کیا ۔ آپۖ کردار وعمل کے پیکر تھے۔ ان کی زندگی کا ایک اک لمحہ عالم انسانیت کے لیے قابل تقلید و عمل ہے۔ تاجر ہو یا مزدور' حاکم ہو یا محکوم' سپہ سالار ہو یا سپاہی' استاد ہو یا طالب علم گویا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ' فخر دو جہاںۖ کی سیرت ہمارے لیے قابل عمل ہے۔
ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن دراصل ان مزدوروں اور محنت کشوں کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے شگاگو میں 1886ء کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ چند محنت کشوں نے اپنی جانیں قربان کرکے مزدوروں کی عالمی تحریک کو بقائے دوام بخشا ۔ انھوں نے اپنے خون سے تاریخ کا ایک نیا باب شروع کیا۔ گویا یکم مئی ایک تاریخ ساز دن ہے یہ دن تمام دنیا کے محنت کشوں کے لیے جدو جہد کی فتح کا دن ہے۔یہ دن منا کرمزدور اپنے شکاگو کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔مزدور اپنے اپنے ملکوں میں مختلف مظاہروں کے ذریعے تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ ظلم و استبداد ' ناانصافی اور استحصال کے خاتمہ کے لیے جدو جہد تیز کریں گے اوردنیا میں سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی قائم کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
شکا گو کے محنت کشوں کی قربانیوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ انھوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو شمع روشن کی وہ ہمیشہ منور رہے گی۔مزدور خون پسینہ بہاتا ہے تو معاشرہ خوش حال ہوتا ہے۔ مزدور کے بچوں کے آنسوؤں سے امیر کے زیور اسپ کا ایک موتی بنتا ہے ۔کلیساء اسی کے خون سے پلتا ہے۔ مزدور دراصل چمن کے ڈاکوؤں سے خون لالہ کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ صدا دبائی جائے تو انقلاب برپا ہوتا ہے۔گھپ اندھیرے کے بعد اجالا فطری امر ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے اپنے کلام میں مزدور کی قدر و منزل بہت احسن انداز میں بیان کی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا ہے کہ غارت گر باطل بھی تو 
شاعرِ انقلاب ، ڈاکٹر علامہ اقبال کا مرکزی نظریہ خودی بھی محنت کا متقاضی ہے ۔ انسان کی پہچان محنتِ شاقہ سے اُبھرتی ہے ۔ علامہ اقبال لفظوں سے عروق مردہ میں خون زندگی دوڑانے کا فن جانتے تھے۔ وہ انصاف اور مساوات کے علمبردار تھے۔ ان کے نزدیک انسانی رفعت ' محنت میں مضمر ہے۔ محنت کی قدر اور معاشی خوشحالی کے پیغامات کی وجہ سے کئی ناقدین انھیں اشتراکیت پسند شاعر بھی کہتے ہیں لیکن وہ معاشی خوش حالی کی خاطر ''خودی'' فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ فرماتے ہیں:
بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے 
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام  کائنات 
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر 
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات 
علامہ اقبال اشتراکیت کے حامی نہ تھے۔وہ دولت جمع کرنے ' جاگیر داری ' سرمایہ داری اور استحصال کے خلاف تھے۔
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے 
تاریخ عالم گواہ ہے کہ وہی معاشرہ خوش حال اور ترقی کی منازل احسن طریقے سے طے کرسکتا ہے جہاں کے مزدورکومحنت کے عوض محبت حاصل ہو۔ محبت کی خاطر یہی مزدورپہاڑوں سے جوئے شیر بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مزدوروں کی مختلف اقسام ہیں ایک وہ جو دفاتر میں کام کرتے ہیں' کچھ وہ جو کارخانوں میں فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرتے ہیں اور ایک وہ طبقہ جو عمارات اور کھدائی کا کام کرتے ہیں اگر مزدور اپنے کام دلجمعی اور لگن سے کریں تو صنعتی ترقی میں چار چاند لگ جائیں ۔


تاریخ عالم گواہ ہے کہ وہی معاشرہ خوش حال اور ترقی کی منازل احسن طریقے سے طے کرسکتا ہے جہاں کے مزدورکومحنت کے عوض محبت حاصل ہو۔ محبت کی خاطر یہی مزدورپہاڑوں سے جوئے شیر بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مزدوروں کی مختلف اقسام ہیں ایک وہ جو دفاتر میں کام کرتے ہیں' کچھ وہ جو کارخانوں میں فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرتے ہیں اور ایک وہ طبقہ جو عمارات اور کھدائی کا کام کرتے ہیں اگر مزدور اپنے کام دلجمعی اور لگن سے کریں تو صنعتی ترقی میں چار چاند لگ جائیں ۔


پاکستان کی عمر زیادہ نہیں ہے حصول پاکستان میں مزدوروں کا بہت حصہ رہا اور پاکستان بننے کے بعد تعمیر وطن میں بھی پاکستانی مزدوروں نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔تاریخ گواہ ہے کہ احترام آدمیت کی بنیاد سرمایہ نہیں بلکہ محنت ہوتی ہے۔
ریاست کا فرض ہے کہ وہ محنت کش مزدوروںکی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ ملکی ترقی ' صنعتی ترقی وانقلاب اور معاشی خوش حالی کا راز مزدور کی خوش حالی سے وابستہ ہے۔ یوم مئی کا مطلب صرف جلسے اور جلوس مظاہرے کرنا نہیں بلکہ اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کے مزدور اپنے خیالات میں نئے ولولوں اور جذبوں کا اضافہ کریں۔ دنیا میں خوش حالی کا دور دورہ کرنے کے لیے اپنی سرگرمیوں کو تیز کریں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال مزدور کے لیے دعا گو ہیں
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں 
ہیں تلخ بہت  بندہ  مزدور کے اوقات 
کب ڈوبے  گا  سر مایہ   پرستی  کا سفینہ  
دنیا  ہے  تیری   منتظر    روز   مکافات 
مزدور کو معاشرے میں باعزت مقام دینے کی ضرورت ہے۔ میرے ملک کا مزدور ناانصافی کا شکار ہے۔ معمولی تنخواہ پر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تو کجا وہ اپنے پیٹ کا ایندھن بھی نہیں خرید سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر مزدور کا بیٹا مزدور ہی بنتا ہے۔
یوم مئی کو ہائے ہو کے بجائے سنجیدگی سے منائیے کہ مزدور کو قومی ترقی میں کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسے اپنی خوشیوں میں شامل کیجئے' کسی مزدور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیے' آپ کو زندگی کا لطف آ جائے گا۔ مزدور کے دکھ درد کا احساس کیجیے۔ جو اپنی گزر اوقات کے لیے آپ کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔مزدور کی اجرت اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ باعزت طریقے سے زندگی بسر کر سکے۔ اقبال کے پیغامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستانی مزدور آج کسم پرسی کا شکار ہیں۔ قلیل تنخواہ میں گیس، بجلی، پانی، کے بلوں کی ادائیگی کے علاوہ ٹیکسوں کی بھرمار نے اُسے مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے ۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ غریب کی خوشحالی کے بغیر کسی بھی ملک  کا استحکام ممکن نہیں ہوتا ۔ یکم مئی کا تقاضا ہے کہ ہم غریبوں کی حالتِ زار بہترین کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ بقول شاعر مشرق:
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو 
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کے کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو ||


مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]

 

 

یہ تحریر 202مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP