قومی و بین الاقوامی ایشوز

پاکستان کا دفاعی بجٹ، عسکری اخراجات اور دشمن عناصر کی ریشہ دوانیاں

پاکستان کا دفاعی بجٹ ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے جس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ اسی لیے بہت سی افواہیں زیر گردش رہتی ہیں۔اغیار کی ریشہ دوانیاں ایک طرف، ملک کے اندر موجود دشمن عناصر دانستہ طور پر پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے کیونکہ اس کے سالانہ بجٹ کا ستر سے اَسّی فیصد افوج پاکستان پر خرچ ہو جاتا ہے جس کے باعث عوام کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔یہ تاثر کس حد تک درست ہے، آئیے چند اعداد و شمار کا سہارا لے کر حقائق پر نظر ڈالتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف ادوار میں دفاع کے لیے مختص کی گئی رقم کی حقیقی حد کیا رہی اور اسے کس طرح ملکی دفاع پر خر چ کیا گیا۔



مالی سال2018-19 کاکل بجٹ 5932 ارب روپے تھا۔اس میں دفاع کے لیے 1100 ارب روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔مالی سال2019-20کا کل بجٹ 7022 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے 1150 ارب مختص کیے گئے۔یہ کل بجٹ کا 16.37 فیصد بنتا ہے۔سال 2020-21 کا کل بجٹ 7136 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے کل 1290 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کل بجٹ کا 18 فیصد بنتا ہے۔خراب ملکی حالات اور دگرگوں معیشت کے پیش نظر گزشتہ برس دفاعی مد میں 1370 ارب روپے مختص کیے گئے۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں دفاعی بجٹ میں خاصی کمی واقع ہوئی نہ کہ اضافہ۔


مالی سال2018-19 کاکل بجٹ 5932 ارب روپے تھا۔اس میں دفاع کے لیے 1100 ارب روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔مالی سال2019-20کا کل بجٹ 7022 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے 1150 ارب مختص کیے گئے۔یہ کل بجٹ کا 16.37 فیصد بنتا ہے۔سال 2020-21 کا کل بجٹ 7136 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے کل 1290 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کل بجٹ کا 18 فیصد بنتا ہے۔خراب ملکی حالات اور دگرگوں معیشت کے پیش نظر گزشتہ برس دفاعی مد میں 1370 ارب روپے مختص کیے گئے۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں دفاعی بجٹ میں خاصی کمی واقع ہوئی نہ کہ اضافہ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ 80کی دہائی کے  اختتام تک پاکستان اپنے جی ڈی پی(یا مجموعی ملکی پیداوار) کا 7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا جو 90 اور 2000 کی دہائی میں کم ہو کر 3.9 فیصد رہ گیا۔ مالی سال2014-15 میں دفاعی بجٹ میں مزید کمی دیکھنے کو ملی جب اسے گھٹا کر 2.4 فیصد کردیا گیا۔ اب یہ تناسب مزید کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گیا ہے لیکن اس کے باوجود افواج پاکستان کے پایہ استقلال میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ ہی اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں کوئی خلل پڑا ۔انتہائی کم خرچ میں دنیا کی ساتویں بڑی فوج کا انتظام چلانا یقینا لائق تحسین ہے۔ 
بجٹ کے متعلق یہ اعداد و شمار خطے میں موجود دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑی افواج کے بجٹ اور اخراجات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے کس قدر زیادہ ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کا دفاعی بجٹ 76بلین ڈالرز جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ11 بلین ڈالر ہے۔بھارت دنیا بھر میں''ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار'' بن کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد بھارت دنیا بھر میں دفاعی اخراجات کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک بھی جانا جاتا ہے جو اس کے انتہا پسندانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی بھرپورعکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں بھارت کو منہ توڑ جواب دینا اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاکستان اپنی دفاعی استعداد میں اضافہ نہ کرے۔اس کے باوجود کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ قلیل ہے، افواج پاکستان دشمن کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔
دیگر ممالک میں سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 46.32 بلین ڈالرز، چائنہ 293بلین ڈالرز، ایران 24.6بلین ڈالرز،متحدہ عرب امارات 22.5بلین ڈالرزاورترکی کا ڈیفنس بجٹ 22.1 بلین ڈالرز ہے۔بڑی اور بالخصوص دشمن طاقتوں کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ افواجِ پاکستان کے لیے ہمیشہ سے ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔مقام افسوس ہے کہ ملکی دفاع کے لیے مختص اس معمولی بجٹ پر بھی افواجِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ دو سالوں میں دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اگر GDPکا صرف2فیصد بھی دفاع کے لیے مختص نہ کیا جائے تو ملکی سا لمیت اور وقار کو قائم رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
 2022 میں SIPRI سٹاک ہوم ادارہ برائے عالمی امن ریسرچ (Stockholm International Peace Research Institute) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں دفاع کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ 2،112 ارب ڈالر زلگایا گیا ہے جو کہ عالمی جی ڈی پی کا 2.2 فیصد بنتا ہے۔جبکہ اعداد و شمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ امریکہ  دنیا بھر میں دفاعی بجٹ رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پرسالانہ 801 ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے جو گلوبل دفاعی اخراجات کا40فیصد بنتا ہے۔ 


دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑی افواج کے بجٹ اور اخراجات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے کس قدر زیادہ ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کا دفاعی بجٹ 76بلین ڈالرز جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ11 بلین ڈالر ہے۔بھارت دنیا بھر میں''ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار'' بن کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد بھارت دنیا بھر میں دفاعی اخراجات کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک بھی جانا جاتا ہے جو اس کے انتہا پسندانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی بھرپورعکاسی کرتا ہے۔


اب ذرا ایک نظر ان اعداد و شمار پر بھی ڈالتے ہیں جن سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان اپنے ایک سپاہی پر سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے۔دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ شرح بھی اپنی کم ترین سطح پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان اپنے ایک فوجی پر سالانہ13400 ڈالر زخرچ کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت اپنے ایک سپاہی پر 42000 ڈالرز خرچ کرتا ہے۔امریکہ میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔وہ اپنے ایک فوجی پر سالانہ 392,000 ڈالر زخرچ کرتا ہے۔سعودی عرب371000 ڈالر ز اور ایران 23000 ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ (اعدادو شماربمطابق ڈاکٹر فرخ سلیم، مضمونPakistan's Defence Expenditures:Debunking the Misconceptions، شائع شدہ ماہنامہ  ہلال انگلش،شمارہ مارچ2023)
افواج پاکستان میں ایک سپاہی کی اوسط تنخواہ 20 ہزار سے شروع ہوتی ہے جو وقت اور رینک بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے جبکہ اسے کھانا، رہائش اورمیڈیکل بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق سیکنڈ لیفٹیننٹ سے کیپٹن بننے تک گریڈ 17 کے ایک ملازم کی تنخواہ  70 ہزارتک ہوتی ہے جس سے اس کی رہائش کا کرایہ منہا کر لیا جاتا ہے۔ آفیسرز اپنے یوٹیلٹی بلز خود ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام بھی خود کرتے ہیں۔ اگرچہ افواج پاکستان کی جانب سے انہیں صحت و تعلیم اور کھانے پینے کی کچھ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود دیگر معاملات کی انجام دہی میں ان کی تنخواہ کا ایک کثیر حصہ صرف ہو جاتا ہے۔ گریڈ 18 کے افسر کی تنخواہ 90 ہزار سے شروع ہوتی ہے جو سروس کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ تنخواہوں اور دیگر مراعات سے قطع نظر، افواج پاکستان کا ہر سپاہی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کو اپنا نصب العین سمجھتاہے اور وطن عزیز کی سا  لمیت کے دفاع کی خاطر ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ تنخواہوں اور مراعات کے ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہاں سخت احتسابی نظام کو اپنایا گیا ہے۔ آفیسرز اور سپاہیوں کی ٹریننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ ملکی مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر فوقیت دیتے ہیں۔
یہاں ایک اور منفی تاثر کی نفی کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ دفاعی بجٹ سے مراد صرف وہ بجٹ نہیں ہے جو پاکستان آرمی کے لیے مختص کیا جاتاہے بلکہ یہ بجٹ افواجِ پاکستان کی تینوں شاخوں،پاک آرمی، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اسی طرح باقی اداروں جن میں انٹر سروسز ادارے، ڈیفنس پروڈکشن ڈویژن اور پاکستان ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹس شامل ہیں، کا انتظام بھی اسی بجٹ سے چلایا جاتا ہے ۔ بجٹ کا زیادہ ترحصہ ملازمین کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، اسی سے صحت، تعلیم، ملٹری ٹریننگ، آپریشنز کی فنڈنگ،جدید ہتھیاروں اور نئی اشیاء کی خریداری بھی کی جاتی ہے۔ 
افواج پاکستان نے ملکی اور عالمی سطح پر جس قدر کامیابیاں سمیٹی ہیں ان کا سہرا بلاشبہ اس کی اعلیٰ قیادت کے سر ہے۔ دنیا بھرکی افواج حیران ہیں کہ صرف.2 2 فیصد GDPکے اندر رہتے ہوئے نہ جانے کس طرح پاکستان کی مسلح افواج نے دفاع پاکستان کو ناقابلِ تسخیربنا دیاہے۔اسی طرح ضرورت کے مطابق نئے ہتھیاروں کو اپنی دفاعی استعداد میں شامل کیا گیا تاکہ دشمن کے مقابلے میں اپنی حربی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ گزشتہ چند برسوں میں افواج پاکستان نے سائبر وارفیئر کی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ جدید ترین میزائلوں اور جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی خاصی پیش رفت کر کے اپنے دفاع کو مضبوط بنایا ہے۔ دنیا میں سب سے کم دفاعی بجٹ رکھنے کے باوجود پاکستان آرمی دنیا کی واحد فوج ہے جس نے دہشت گردی کے عفریت کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسی بجٹ سے افواج پاکستان نے مغربی بارڈر کے دفاع کو باڑ (Fencing) اور بارڈر فورٹس تعمیر کرکے مضبوط بنایا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دفاعی بجٹ میں مسلسل کٹوتی ہونے کے باوجود اگلے محاذوں پر دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ ی ، آپریشن ضربِ عضب، رد الفساد اور دیگر کئی آپریشنز بھی اسی بجٹ کے اندر رہتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔


 دنیا میں سب سے کم دفاعی بجٹ رکھنے کے باوجود پاکستان آرمی دنیا کی واحد فوج ہے جس نے دہشت گردی کے عفریت کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسی بجٹ سے افواج پاکستان نے مغربی بارڈر کے دفاع کو باڑ (Fencing) اور بارڈر فورٹس تعمیر کرکے مضبوط بنایا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دفاعی بجٹ میں مسلسل کٹوتی ہونے کے باوجود اگلے محاذوں پر دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ ی ، آپریشن ضربِ عضب، رد الفساد اور دیگر کئی آپریشنز بھی اسی بجٹ کے اندر رہتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔


 افواج پاکستان کے نصب العین میں شامل ہے کہ افراد ی قوت کو بہتر طریقے سے استعمال میں لا کر اسے ملک و قوم کے لیے سود مند بنایا جائے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں افواج پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں افرادی قوت کو احسن طریقے سے استعمال میں لاکر دورس نتائج حاصل کیے گئے ہیں۔ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ جدید حربی ہتھیاروں، ہیلی کاپٹرز، گاڑیوں اور دیگر مشینری کو اوورہال کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے تاکہ قومی بجٹ پر اس کے اثرات کم سے کم ہوں۔ 
اپنے دفاعی اخراجات کو احسن طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے افواج پاکستان نے اپنے بہادر جوانوں اور آفیسرز کے لیے ایک ویلفئیر رجیم بھی قائم کی ہے۔ اپنے جوانوں کے ساتھ ان کا رشتہ مہد سے لحد تک کا ہوتا ہے۔تعلیم و تربیت، شہدا ء اور ان کی فیمیلیز کے لیے خصوصی مالی و مراعاتی پیکجز، شہداء کے بچوں کی کوٹے میں بھرتی کا عمل، یہاں تک کہ یونیورسٹی لیول تک کی تعلیم کی مفت فراہمی، صحت عامہ کی سہولتیں چاہے وہ سندھ کے دور دراز ریگستانوں میں پہنچانی ہوں یا پھر بلوچستان کے پہاڑی علاقوںمیں، شمالی علاقہ جات کے کٹھن اور دشوار گزارپہاڑی سلسلے ہوں یا پھر کشمیر اور گلگت بلتستان کی حسین وادیوں میں موجود اپنے ہم وطنوں کی فلاح عامہ کے اقدامات، افواج پاکستان کے جوان اور آفیسرز ہر جگہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اسی طرح ملکی ترقی کے منصوبے اور قبائلی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی بھی اسی بجٹ کی مرہون منت ہے۔الغرض افواج پاکستان اپنی اعلیٰ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی حال میں اپنے بہادروں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی اور ہمیشہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ 
دشمن عناصر کی جانب سے ایسے کئی مغالطے،قیاس آرائیاں اور شکوک و شبہات پھیلا کر عام ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے تاکہ افواج پاکستان کے خلاف نفرت پھیلا کر اسے کمزور کیا جا سکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا محل وقوع اور جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اسے ہمہ وقت بے شمار چیلنجز درپیش رہتے ہیں جن میں عالمی سازشیں، پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیاں، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی،سرحد پاردہشت گرد حملے اور ففتھ جنریشن وار سمیت بے شمار اندرونی وبیرونی مسائل شامل ہیں۔ افواج پاکستان اپنے قلیل بجٹ سے نہ صرف اپنے آپریشنل اخراجات پورے کرتی ہیں بلکہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے بھی نمٹتی ہیں۔وسیع پیمانے پر ہونے والے پراپیگنڈہ اور منفی ہتھکنڈوں کے باوجود ہماری افواج Motivated  ہیں۔ وہ ملکی سا  لمیت کی خاطر اپنے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔
 ان تمام حقائق اور اعداد و شمار کا بغور جائزہ لینے کے بعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے تندہی اور جانفشانی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ ایسے منفی تاثرات اور ہتھکنڈوں سے نہ صرف دفاعی ادارں کے مورال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ قومی سطح پر فوج کے خلاف منفی جذبات بھی پروان چڑھتے ہیں جو ملکی سا  لمیت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کٹھن حالات میں جب کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، افوج  پاکستان پر غیر ضروری تنقید کرنے کے بجائے ان کا ساتھ دیا جائے اور ان کے شانہ بشانہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔ ||


مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
[email protected] 

یہ تحریر 703مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP