قومی و بین الاقوامی ایشوز

پاکستان میں سبز انقلاب کی نوید


ہر انقلاب کی ابتدا ہمیشہ تعمیری سوچ سے شروع ہوتی ہے۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل عالمِ شباب میں وطن سے محبت کے اظہار کے لیے ایک نغمہ لکھا تھا جس میں ربِ کریم سے دعا گو ہوتے ہوئے کہا تھا۔ 
جو دریا ہیں چاندی بہاتے رہیں
سدا کھیت سونا اگاتے رہیں
 الحمداللہ آج وہ دعا قبول ہوتی نظر آرہی ہے۔ جب ملک کی سول اور ملٹری قیادت نے 10جولائی 2023 کو گرین پاکستان انیشیٹو(Green Pakistan Initiative)منصوبے کا آغازکیا۔ پاکستان 24 کروڑ 18 لاکھ 31 ہزار آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ساتھ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضرورت کو پورا کرنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جبکہ ہمارے ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے۔ زیادہ بارشوں کی وجہ سے کئی علاقوں کو سیلابی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 کے مطابق پاکستان کی 20.3 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہمیں گندم سے لے کر سبزیوں تک عام استعمال کی تقریباً 54 فیصد اشیا دوسرے ممالک سے مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔ ملک کو درپیش اس تاریخی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں سبز زرعی انقلاب لانے کی ملکی اور عالمی سطح پر مربوط کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے فوجی فائونڈیشن فون گرو کے مینیجنگ ڈائریکٹرمیجر جنرل طاہر اسلم (ر)ستارہ امتیاز ملٹری نے عرب نیوز کے نمائندے کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ ساٹھ کی دہائی کے سبز انقلاب کے بعد پاکستان اب ایک مرتبہ پھر زرعی ترقی کے ایک خوشحال دور کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے اور اس سلسلے میں فون گرو کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے ہر طرح سے کمر بستہ ہے۔ آپ نے آگاہ کیا کہ گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام کے دو پہلو نہایت اہم ہیں:۔


 

فوجی فائونڈیشن کا ذیلی اداراہ  فون گرو زرعی کاروبار کا وسیع تجربہ رکھتا ہے، جس کا تیار کردہ سیریل (Cereal Food) پچھلے چند سالوں سے ملکی اور خلیجی ممالک میں پزیرائی حاصل کر چکا ہے۔ فون گرو کا ایک اور کارپوریٹ فارم، نکرجی، ضلع ٹنڈومحمد خان کی تحصیل برلی شاہ کریم میں 2498 ایکڑپرواقع ہے۔ جو صوبہ سندھ  کے شہر حیدرآباد سے 65 کلو میٹر ٹی ایم کے سجاول روڈ سے ملحق ہے۔ یہ بڑا فارم 1958 میں فوجی فائونڈیشن، شوگر مل بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اس کا دوسرا بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں گنوں کی فصلوں اور جانورں کی افزائشِ نسل پر تحقیق ہو سکے۔ اس علاقے کی ٹوپو گرافی کے مطابق اس کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہاں پر تحقیق کرنے والے آفیسرز ، دیگر عملے کی رہائشی کالونی اور کثیر حصے پر فارم ہائوس ہیں یہاں پر بھی بین الاقوامی معیار کی زرعی مشینیں کاشت کاری اور جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے جدید طریقوں پر عمل کیا جارہا ہے۔


1))موجودہ قابلِ کاشت زمین کو دس لاکھ سے پندہ لاکھ ایکڑ تک بڑھاکرمئوثر طریقوں سے زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
2))دوسرا قابلِ عمل اہم ترین پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے سے مختلف ٹکڑوں میں جو ناقابل کاشت 500 لاکھ ایکڑ زمینوں کا بے کار رقبہ پڑا ہوا ہے اسے نئی حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ قابلِ کاشت بنانے کی بھرپور کوششیں کی جائیں۔
جس طرح چین کے صحرائی علاقے زن جیانگ میں 52 لاکھ ایکڑ پر کامیابی سے فصلیں اگائی جارہی ہیں۔ بالکل اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے برازیل میں بھی کاشت کاری جاری ہے۔ یہ حقائق بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ خیالوں کے محل تعمیر نہیں کیے جارہے بلکہ اچھی زراعت کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جو دنیائے زراعت میں کی جاچکی ہیں، جس کے لیے ہمیں سعودی عرب خلیجی ممالک سے کافی سرمایہ کاری حاصل کرنی پڑے گی تاکہ پاکستان بھی جدید ترین مہنگی زرعی مشینیں خرید کر اپنے نظامِ آبپاشی کو بہتر بناتے ہوئے نئے طور طریقوں کو اپنا کر ملک میں سبز انقلاب تیزی سے لے کر آئے۔
ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لانے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کا قیام عمل میں آچکا ہے، جو پاکستان میں پانچ سیکٹرز کی ترقی کے لیے خاص طور پر کام کرے گی جن میں زراعت کا شعبہ سرِفہرست ہے تاکہ پاکستان کی معاشیات کو سدھارا جاسکے۔
فون گرو ،پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے زرعی شعبے میں سبز انقلاب لانے کے لیے ضروری منصوبہ بندی مکمل کر چکی ہے۔ درکار سٹرکچرل اصلاحات کے بعد زرعی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ممکن ہو سکے گا۔ 
فون گرو نے اپنے زرعی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی زراعت کی ترقی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ۔ آج جبکہ پاکستانی کسان صرف 8 فیصد بیج ہائرڈ اور بقیہ 92 فیصد بیج منصوعی قسم کا استعمال کرتے ہیں جس سے پیداوار کم ہوتی ہے اور کاشت کاروں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ان حالات کے پیش نظر فون گرو،فصلوں کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے اچھے بیج فراہم کرے گی۔ 
فون گرونے منصوبہ بندی کی ہے کہ ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے، ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمینوں کے رقبے کو قابل کاشت بنا دیا جائے۔رواں سال میں 5000 ایکڑ کا فارم تیار کر دیا جائے گا۔ اگلے سال دوسرے فارم کے رقبے کو بڑھا کر 10000 ایکڑ کر دیا جائے اور بتدریج ہر نئے سال ان کارپوریٹ فارمز کو 20000 اور 25000 ایکڑ تک بڑھا یا جائے گا۔ ان بڑے مقاصد کے حصول کو پانے کے لیے فون گرو بین الاقوامی معیار کی بڑی زرعی ہارویسٹ مشینیں، ٹریکٹر اور زرعی ڈرون وغیرہ خریدے گی جس کے لیے کچھ سرمایہ کار دوست ممالک نے وعدے بھیکیے ہیں۔
فون گرو نے خانیوال کے علاقے پیرو وال میں کارپوریٹ ماڈل فارم قائم کردیا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا منفرد زرعی  فارم ہے۔ جسے 2250 ایکڑ کے وسیع رقبے پر بنایا جارہا ہے۔ اس طرح زراعت کے شعبے میں نیا زریں باب رقم کر کے سبز انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
پاکستانی زرعی شعبے میں فون گرو و ٹرینڈ سیٹر ہے جس نے فرنٹ لوڈ ہائی ٹیک فارمنگ میکنائزیشن کے ذریعے عملی طور پر ایک کارپوریٹ فارمنگ کا جدید نظام متعارف کرادیا ہے۔ یعنی اب معیاری بیجوں، آبپاشی کے جدت پر مبنی طریقوں کے ذریعے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ یقینی ہے۔ اسی طرح فون گرو کے توسل سے ہمارے ملک کے دیگر کسانوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی میسر آسکے گی جو ہمارے زرعی منظر نامے کو انتہائی دلکش و شاداب بنا دے گی۔



فون گرو کا جدید کارپوریٹ ماڈل 40/60  یہ ظاہر کرتا ہے کہ 60 فیصد پیدا شدہ زرعی اجناس ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کی جائیں گی جبکہ 40 فیصد زرعی پیداوار کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کر کے قیمتی زرِ مبادلہ حاصل کیا جائے گا۔ اس قسم کی زرعی تجارت کو عملی طور پر آگے بڑھانے کے لیے چین اور خلیجی ممالک سے معاہدے کیے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اس سے بہتر زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کی جانب بھی رجوع کیا جائے۔
خلیجی ممالک ہر سال تقریباً 78 ملین ٹن گندم خریدتے ہیں جو زیادہ تر ان ممالک سے خریدی جاتی ہے جن کا تعلق مسلم امہ کمیٹی سے نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بھی فون گرو کی اعلیٰ قیادت سعودی عرب ، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات سے رابطوں میں ہے۔ کارپوریٹ کی سطح پر سعودی عرب کی مشہور کمپنیوں حسار، الدھارا اور الخریاف سے بات چیت جاری ہے۔
میجرجنرل طاہر اسلم(ر)نے بتایا کہ ہم نے زراعت کی صنعت میں کاروبار کے لیے کچھ اور ماڈل بھی متعارف کروائے ہیں مثلاً
کارپوریٹ ماڈل
اس معاہدے کے تحت شامل ہونے والے سب ممالک برابر کے شراکت دار ہوں گے اور حکومتی سطح پر ایک مشترکہ کمپنی بنائی جائے گی۔
تین رکنی ماڈل
 اس ماڈل میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور پاکستان، تینوں شامل ہوں گے پاکستان اس معاہدے کے مطابق سعودی عرب  اور متحدہ عرب امارات کو ان کے جانوروں کی خوراک مہیا کرے گا اور پاکستان اس فراہم کردہ خوراک کی قیمت کے مساوی خلیجی ممالک کی کمپنیوں سے اپنی ضرورت کے مطابق اشیا ء خرید لے گا اوراس طرح قیمتی زرمبادلہ کو خرچ ہونے سے بچا لیا جائے۔
کارپوریٹائزیشن ماڈل
اس قسم کے ماڈل بھارت اور برطانیہ میں بھی پریکٹس کیے جارہے ہیں اس ماڈل کے تحت ایک گائوں یا چند گائوں کے کسانوں کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ 2500 سے لے کر 3000 ایکڑ تک کی زمین اجتماعی طور پر کاشت کریں۔ جس کے لیے ایک زرعی مشیر اور ماہرِ زراعت کی خدمات حاصل کی جائیں گی تاکہ جدید مشینوں اور نئے طریقوں کو بروئے کار لا کر کاشت کاری کی جائے اور زرعی اجناس کی مطلوبہ مقدار میں اچھی فصلیں حاصل کی جائیں اور بعد میں اپنی اپنی زمین کے حصوں کے تناسب سے خرچوں اور آمدنی کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے گا۔
ایک تجزیہ بتاتا ہے کہ ملکی سطح پر ہم گندم کی کٹائی کے دوران تقریبا20 لاکھ ٹن گندم ضائع کر دیتے ہیں جو کل پیداوار کا 20 فی صد حصہ بنتا ہے اور جس کی قیمت اربوں روپے کے مساوی ہے ہم پہلے ہی اپنی ملکی غذائی ضرورت سے 30 لاکھ ٹن اناج کم پیدا کر رہے ہیں جسے جدید مشینوں کی مدد سے ایک فی صد ضیاع سے بھی کم پر لایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ہم فصلوں کی کٹائی کے بعد زرعی اجناس ذخیرہ کرنے والے گوداموں کی سہولیات کوجدید دور کے مطابق ڈھال لیں تو ہم اپنی زرعی اجناس کو مناسب وقت آنے پر بہت بہتر قیمتوں پر فروخت کر سکتے ہیں۔ ہم پہلے ہی 2500ایکڑ رقبہ پر تقریباً آٹھ سے نو ماہ کے قلیل عرصے میں تین فصلیں حاصل کرنے کا تجربہ کامیابی سے سر انجام دے چکے ہیں جن میں گندم اور کپاس جیسی قیمتی زرعی اجناس شامل تھیں۔
فوجی فائونڈیشن کا ذیلی اداراہ  فون گرو زرعی کاروبار کا وسیع تجربہ رکھتا ہے، جس کا تیار کردہ سیریل (Cereal Food) پچھلے چند سالوں سے ملکی اور خلیجی ممالک میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ فون گرو کا ایک اور کارپوریٹ فارم، نکرجی، ضلع ٹنڈومحمد خان کی تحصیل برلی شاہ کریم میں 2498 ایکڑپرواقع ہے۔ جو صوبہ سندھ  کے شہر حیدرآباد سے 65 کلو میٹر ٹی ایم کے سجاول روڈ سے ملحق ہے۔ یہ بڑا فارم 1958 میں فوجی فائونڈیشن، شوگر مل بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اس کا دوسرا بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں گنوں کی فصلوں اور جانورں کی افزائشِ نسل پر تحقیق ہو سکے۔ اس علاقے کی ٹوپو گرافی کے مطابق اس کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہاں پر تحقیق کرنے والے آفیسرز ، دیگر عملے کی رہائشی کالونی اور کثیر حصے پر فارم ہائوس ہیں یہاں پر بھی بین الاقوامی معیار کی زرعی مشینیں کاشت کاری اور جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے جدید طریقوں پر عمل کیا جارہا ہے۔
یہاں ہم ایک مرتبہ پھر فون گرو کے خانیوال کے گائوں پیرو وال میں قائم کارپوریٹ فارم کا ذکر کریں گے۔ 20 مئی2022 کو یہاں فون گروزرعی ماہرین کی ٹیم سروے کے لیے پہنچی جنہوں نے اس جگہ کی زمین کے 54 جبکہ پانی کے 5 نمونے تجربات کے لیے جمع کیے اور پھر فینٹم 4 ملٹی سپکٹریل ڈرون کے ذریعے تمام علاقے کی کوآرڈینیٹس جاننے کی فلم بندی کی اور زمین کاسروے مکمل کرنے کے بعد مناسب آبپاشی کا نظام قائم کر کے 2023 کے شروع میں بیج بونے کا آغاز کیا اور سات سے آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں تین فصلیں حاصل کیں۔
زرعی مشوروں کے لیے ڈیٹا بیس کمیٹی کا قیام
فون گرو نے جو بنیادی معلومات اکٹھی کیں ان سے پتا چلا کہ ہمارے ملک کے اکثر کسان دنیائے زراعت میں ہونے والی جدید ترین ترقی، نئی مشینوں اور کاشت کاری کے نئے اصولوں سے ابھی تک نا آشنا ہیں۔ لہذا اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ فون گرو کو فارمز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ آکر نئے طورطریقوں اور مشینوں کا مشاہدہ کریں۔ نئے نظام کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور کچھ تربیت حاصل کر کے اچھی کوالٹی کے ہائیبرڈ بیج استعمال کر کے اپنے آبپاشی کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے  زمین کی خصوصیات کو پرکھتے ہوئے اپنی فی ایکڑ پیداوار میں بتدریج اضافہ کریں۔
ڈیری فارم اور لائیو سٹاک
کسانوں کو روزی کمانے کے واسطے ، ڈیری فارم اور لائیو سٹاک سے بہتر کوئی روزگار نہیں ویسے بھی یہ شعبہ کسی بھی فارم ہائوس کی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کا خوش گوار ماحول جانوروں اور پرندوں کی پرورش و افزائش کے لیے بڑا سازگار ہے۔ پاکستان میں نکالے جانے والے دودھ کی قیمت، گندم ، چاول ،مکئی  اور گنوں کی فصلوں کی مجموعی قیمت سے زیادہ ہے 
ٹیکنالوجی اور ایگری سروسز
 کھادیں ، جراثیم کش ادویات اور اچھے ہائبرڈ بیجوں کی دستیابی کے لیے فون گرو نے ایگری سروسز کا شعبہ بنایا ہے۔ ملک کے دیگر کسان جس سے استفادہ حاصل کر کے بائیو ٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینئرنگ  سے پیسٹ مزاحمت کو بڑھا کر فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ جدید مشینوں کے استعمال نے فصلیں بیجنے، ان کی کٹائی اور اس دوران ان پر ادویات کے سپرے اور کھادیں ڈالنے کے عمل کو آسان اور تیز بنا دیا ہے یعنی پہلے جو کام حل، سہاگے کی مدد سے کسان آہستہ آہستہ خود کئی دنوں میں کرتے تھے اب وہ جدید مشینوں اور ذرائع سے تیزی سے کر لیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ چھوٹے کسانوں کی روزی کو کارپوریٹ فارمنگ اپاہج بنا دے گی اور زراعت کے شعبے پر بڑی مشینیںاور بڑے رقبے رکھنے والے کسان غالب آجائیںگے۔ چھوٹے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے  فون گرو نے کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ بنایا ہے جس کی تفصیل ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ 
فون گرواور دوسرے زرعی حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ملک کے عام کسانوں کی تربیت اور آگاہی کے لیے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز، چاروں صوبوں کی علاقائی زبانوں میں بنا کر سوشل میڈیا پر (اپ لوڈ)کر دیں جس سے ملک کے عام کسانوں کو بھی جدید مشینوں کی صلاحیت اور زراعت کے نئے طور طریقے پتا چل سکیں۔ 3 سے5 منٹ  کی مختصر موبائل پر دیکھی جانے والی ویڈیوز میں مثالوں سے بتایا جائے کہ پہلے جو کام 30 کسان مل کر بیج بونے، فصلیں کاٹنے، کھاد دینے، جراثیم کش دوائیں چھڑکنے کا عمل دو ہفتوں کے دوران کرتے تھے اب وہ نئی بیج بونے والی مشین یا فصل کٹائی کرنے والی مشین صرف چند گھنٹوں میں کر لیتی ہے۔ تاکہ چھوٹے کسانوں کے دل سے یہ اندیشہ  دور ہو کہ شاید فون گرو حکومت کے ساتھ مل کر پورے ملک کی زراعت پر خود غالب آنا چاہتی ہے۔ ریڈیو، ٹی وی چینلز کے پروگراموں اور بروشرز کے ذریعے عام کسانوں کو بتایا جائے کہ سولر ٹیوب ویلز، ہائی برڈ بیچوں اور کھادوں اور زرعی مشینوں وغیرہ پر کہاں سے کسان کس طرح آسانی کے ساتھ کیا مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔
صرف یہ کہہ دینا مناسب نہ ہو گا کہ متعلقہ محکمے یہ کام کر رہے ہیںبلکہ ہر سطح پر بے کار پڑی ہوئی زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے بھی قوانین بنانے کی ضرورت ہے اور جن زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنائی جارہی ہیں ان پر بھی قدغن لگانے کے لیے قانون سازی کا عمل بہت ضروری ہے۔ جس کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC)کے گزٹ(Gazette) کے تحت قانونی شکل دی جاسکتی ہے۔ ||


 

یہ تحریر 142مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP