ایک قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ باعمل اور باکردار ہو۔اِس طرح وہ لوگوں کے لیے نمونہء عمل بن جائے گا۔علامہ چاہتے تھے کہ مسلمان ایسے کردارکے مالک بن جائیں کہ کسی اور کو اُن پر اُنگلی اُٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ایک ایسے مفکّر ہیں جن کے فرمودات ہمارے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں کیونکہ علامہ اقبال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فلسفی بھی تھے۔ اُن کی شاعری میں اُس زمانے کے مسلمانوں کی حالتِ زاراور اِس کی وجوہات کا تذکرہ ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری میںہمیں تفسیرِ قرآن بھی ملتی ہے اور مسلمانوں میں خودی اجاگر کرنے کی کوشش بھی۔ اُن کے کلام میں ہمارے اسلاف کے کارنامے بھی نظر آتے ہیں اوریہ بھی کہ خالق اپنی مخلوق سے کیا چاہتا ہے۔یوں تو اقبال کے کلام پر مختلف زاویوں سے بحث کی جا سکتی ہے لیکن ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ قیادت کرنے کے لیے کن صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور دنیاکی قیادت کریں۔ علامہ اقبال اس بات پر یقین رکھتے تھے:
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
بصیرت
قیادت کا پہلا اُصول بصیرت ہے۔بصیرت کا مطلب ہے "تخیل کی طاقت"۔ایک قائد کے لیے بصیرت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اِسی لیے علامہ کی خواہش تھی کہ ہم تفکر کریں اور اپنی بصیرت کوبصارت کی حدود سے آگے لے جائیں۔صرف ایسی صورت میں ہی ہم اعلیٰ مقاصد حاصل کر سکیں گے۔ علامہ فرماتے ہیں :
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اعلیٰ عزائم
ایک قائد کی اہم صلاحیت اُس کا اعلیٰ عزم ہے اُ س کا مقصد عظیم ہونا چاہیے اور پختگی کے ساتھ مقصد کی تکمیل کے لیے محنت لازمی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
علامہ نے ''شاہین''اور''عقاب''کے استعارات اپنی شاعری میں متعدد بار استعمال کیے ہیں۔شاہین کو پرندوں کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُس کی نظر کی طاقت، دلیری اور حملہ کرنے کی صلاحیت لاثانی ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ مسلمان دنیا میں وہ مقام حاصل کریں جو پرندوں میں شاہین اور عقاب کو حاصل ہے۔ فرماتے ہیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ چاہتے تھے کہ مسلمان اعلیٰ اہداف مقرر کریں اور اُن کی تکمیل کے لیے بھرپور طریقے سے کوشش کریں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
اپنی تربیت
چونکہ ایک اچھے قائد میں یہ مہارت ہونی چا ہئے کہ وہ خود اپنا تجزیہ کرے۔ اسی لیے علامہ اقبال اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہر قائد کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔اس میں پہلا قدم اپنی نقطہ چینی (Self Criticism)ہے:
برا سمجھوں انہیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
حضرت علی فرماتے ہیں "جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے خدا کو پہچان لیا"۔علامہ چاہتے تھے کہ ہر انسان اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے غوروخوض کرے اور خود اپنی تربیت پر توجہ دے۔ اس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
اپنے نفس پر قابو پانابھی قائدانہ صلاحیتوں میں شامل ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:۔
خود آگاہی نے سکھا دی جس کو تن فراموشی
حرام آئی ہے اس مردِ مجاہد پر زرہ پوشی
ایک قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ باعمل اور باکردار ہو۔اِس طرح وہ لوگوں کے لیے نمونہء عمل بن جائے گا۔علامہ چاہتے تھے کہ مسلمان ایسے کردارکے مالک بن جائیں کہ کسی اور کو اُن پر اُنگلی اُٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔
سلسلۂ ربط اور متفقہ کوشش
تمام افراد کو اپنے ساتھ شامل کرکے جدوجہد کرنا قیادت کا ایک اہم جزو ہے۔ افراد صرف اُس وقت اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جب وہ مل کرکوشش کریں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اتفاق سے رہیں اور اپنے رشتہء اسلام کو ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رکھیںکیونکہ تنہا ہماری کوئی قدر نہیں ہو سکتی۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
علامہ اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے ،تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
ذمہ داری سونپنا
ہر بندے کو اپنی صلاحیت کے مطابق ذمہ داری سونپنا قیادت کی مہارت ہے۔ علامہ اقبال بھی اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہر انسان کی اپنی اہمیت ہے۔ کوئی شخص بھی بے کارنہیں،اُس کو اپنی قدر پہچاننی چاہیے۔ ہر انسان کا اپنا ایک کردارہے، جواگر وہ احسن طریقے سے انجام دے تواُمتِ مسلمہ خود بخود اپنے مقاصد حاصل کرسکے گی۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
رجائیت
ارشادِ ربّانی ہے۔ترجمہ :
'' اے ایمان والو بد گمانی سے بچو۔ بلا شبہ کچھ بدگمانیاں گناہ ہیں''(سورةالحجرات)
رجائیت قیادت کا ایک اہم جزو ہے۔ ایک مثبت انسان برے حالات میں بھی مثبت پہلو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ ایک منفی انسان اچھے حالات میں بھی کوئی نہ کوئی مصیبت اور اُداسی کی وجہ تلاش کر لیتا ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں، "ایک مکھی کی طرح برتائو مت کرو، جو صحتمند جسم کو چھوڑ کر غلیظ پھوڑے پربیٹھتی ہے"۔چونکہ ہمارے تصوارت اور مفروضے، ہمارے خیالات بناتے ہیں۔نتیجتاً ہمارے خیالات سے ایمان بنتا ہے۔ اس لیے ایک قائد کی مثبت سوچ ضروری ہے۔ اُمید اس صورت کا پہلا قدم ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:۔
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اظہارِ خیال اور مذاکرات
اِظہارِ خیال کی مہارت ایک ایسی قائدانہ صفت ہے جو باقی تمام صفات پرحاوی ہے۔ ایک اچھے قائد کا اندازِ تکلّم متاثر کُن ہوتا ہے، جس وجہ سے لوگ یکجا ہوتے ہیں اور اعلیٰ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ علامہ اقبال اس بات کا پرچار کرتے تھے کہ ایک قائد میں اعلیٰ عزم کے ساتھ ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی مہارت ہونی ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک قائد میں عمیق نظری کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی طاقت بھی ہونی چاہیے۔ تبھی وہ اپنی قوم کومنزل پرپہنچا سکتا ہے۔
نگہ بلند ،سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
کشیدگی کا نظام
ایک اچھے قائد کی ایک اہم صلاحیت اپنے اعصابی دبائو پر قابو پانا ہے۔ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ ایک قائد مشکلات میں بھی اپنے اعصاب پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ وہ آنے والی مشکلات کو رجائیت کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اپنا مقصد فراموش نہیں کرتا۔
غرض علامہ اقبال کی دِلی خواہش تھی کہ مسلمان قوم اپنے اندرایسی خوبیاں اور صفات پیدا کرے اور اپنی زندگی ایسے طریقے سے گزاریں جیسا کہ اﷲ چاہتا ہے۔
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے ||
لیفٹیننٹ کرنل عمارمتیٰ الحسنین اعوان کا تعلق پاکستان آرمی ائیر ڈیفنس سے ہے۔ انہوں نے مارچ١٩٩٨ میں کمیشن حاصل کیا۔ دورانِ ملازمت مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔
[email protected]
یہ تحریر 850مرتبہ پڑھی گئی۔