متفرقات

طلوع شمس مفارقت ہے 

جناب امجد اسلام امجد کے حوالے سے ان کی صاحبزادی محترمہ روشین عاقب کی تحریر
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا  ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے 
میرے پیارے پاپا۔۔۔
آپ کے اس شعر کے جو معنی اب مجھ پہ کھلے ہیں اس سے پہلے نہیں کھلے تھے۔ 



آج قلم اٹھایا ہے ،کچھ لکھنے بیٹھی ہوں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ جب سے آپ ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں ذہن مائوف ہے، ہر چیز اپنے مقام سے ہل گئی ہے، نہ زمین وہاں پر رہی نہ ہی آسمان اپنی جگہ پر ہے ۔ سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں رہی جو آپ کے ہوتے ہوئے تھی۔ ہم سانس لے رہے ہیں چل پھر رہے ہیں لیکن یوں لگتا ہے ایک خلا ہے جہاں کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔



آپ ہمارے لیے ایک سائبان تھے ۔ایک ایسا درخت تھے جس کا پھل کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ آپ ہمارے پاور ہائوس تھے ہم آپ سے طاقت  لیتے تھے ۔ زندگی کے ہر مشکل مقام پر،میں  نے سب سے پہلے آپ سے بات کی اور آپ نے ہمیشہ دو جملوں میں میری پریشانی دور کی ۔ میں ایک زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہی ہوتی تھی اور آپ میرا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے۔اور اچانک ہر چیز تبدیل ہو جاتی تھی۔سارا منظر نامہ بدل جاتا تھا۔  وہی مسئلہ جو بہت بڑا لگ رہا ہوتا تھا ایک بے معنی سی بات میں تبدیل ہو  جاتا تھا۔


آپ چلے گئے ،میں سمجھ نہیں پا رہی کہاں اور کیسے چلے گئے۔ آپ نے تو کبھی ہمیں تنہا نہیں  چھوڑا تھا ۔جب بھی مجھے کہیں اکیلے جانا پڑتا تھا تو آپ پریشان ہو جاتے تھے ۔ آپ نے ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑے رکھا ۔ آپ ہمارے لیے ایک سائبان تھے ۔ایک ایسا درخت تھے جس کا پھل کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ آپ ہمارے پاور ہائوس تھے ہم آپ سے طاقت  لیتے تھے ۔ زندگی کے ہر مشکل مقام پر،میں  نے سب سے پہلے آپ سے بات کی اور آپ نے ہمیشہ دو جملوں میں میری پریشانی دور کی ۔ میں ایک زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہی ہوتی تھی اور آپ میرا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے۔اور اچانک ہر چیز تبدیل ہو جاتی تھی۔سارا منظر نامہ بدل جاتا تھا۔ وہی مسئلہ جو بہت بڑا لگ رہا ہوتا تھا ایک بے معنی سی بات میں تبدیل ہو  جاتا تھا۔ ہم تو آپ کی اولاد ہیں لیکن جب سے آپ گئے ہیں مجھے سیکڑوں لوگ ملے جو یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ نے ایک باپ کی طرح ان پر سایہ کیے رکھا تھا۔ انہیں راستہ دکھایا تھا ۔ ان کی راہوں  کے کانٹے ہٹائے تھے ۔
اللہ نے آپ کو بے انتہا شہرت، عزت اور محبوبیت سے نوازا۔ لوگ آپ کے گرد پروانوں کی طرح طواف کرتے تھے ، آپ سے پیار کرتے تھے، عشق کرتے تھے ۔ سربراہان ممالک، بڑے بڑے آرٹسٹ، آپ کے پرستارہیں، میں نے ہر کسی کو آپ کی محبت کا دم بھرتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ آپ جتنا عروج پاتے رہے اتنا ہی جھکتے رہے اور عاجز اور منکسر ہوتے گئے۔  آپ نے ہمیشہ اللہ کی رحمتوں ، نعمتوں کا  بے انتہا شکر کیا اورآپ کے قدم ہمیشہ زمین پر جمے رہے۔ 



پاپا۔۔۔ نہ جانے آپ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے تھے ۔ آپ کا دل اتنا بڑا کیسے تھا ۔ آپ نے کبھی اپنی کسی نیکی کا بدلہ انسانوں سے نہیں چاہا۔ کبھی اس امید پہ بھلائی نہیں کی کہ جواب میں سامنے والا آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو معاف کیا ۔  آپ نے ایک بار جسے اپنا لیا اسے اس کی خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ اپنایا اور پھر کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ 


آپ نے کہا " جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے" میں نے خود دیکھا آپ نے کیسے محبتیں بانٹیں۔ ہر ایک سے محبت کی ۔ محبت کرنے والوں سے بھی محبت کی ۔ آپ کی محبت دائرہ در دائرہ پھیلتی ہی رہی  ۔ آپ نے ہمیشہ دوسرے کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھا۔  ہر ایک کی تکلیف کو محسوس کیا ۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی  انہیں اپنا وقت دیا، کوشش کی ، تسلی دی اور ہمت دی۔
پاپا۔۔۔ نہ جانے آپ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے تھے ۔ آپ کا دل اتنا بڑا کیسے تھا ۔ آپ نے کبھی اپنی کسی نیکی کا بدلہ انسانوں سے نہیں چاہا۔ کبھی اس امید پہ بھلائی نہیں کی کہ جواب میں سامنے والا آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو معاف کیا ۔  آپ نے ایک بار جسے اپنا لیا اسے اس کی خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ اپنایا اور پھر کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ 
آپ ہمارے لیے ہمارے پاپا تھے لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ آپ کتنے بڑے تخلیق کار تھے ۔ آپ کی شاعری پڑھی اور آپ سے دوبارہ محبت ہو گئی ۔ آپ کی نظمیں جن میں کھل کر آپ واضح ہوتے ہیں ۔ کیسی کیسی خوبصورت نظمیں آپ نے لکھ دیں۔ آپ کی نظموں میں جو روانی ہے ، تسلسل ہے، منظر نامہ ہے، ردھم ہے ، خیال ہے، تصور ہے ۔ ایک ایک نظم پڑھتی ہوں اور حیرت کے ایک جہاں میں کھو جاتی ہوں۔ جب بھی آپ کچھ نیا لکھتے، فوراً مجھے فون کرتے ، کہتے کہ میں نے کچھ نئی چیزیں لکھی ہیں، پڑھ کے بتا کیسی ہیں ، ابھی تمہیں بھیجتا ہوں ۔ ساتھ ہی آپ کا میسج آتا اور تھوڑی دیر بعد پھر کال۔۔۔
پڑھ لیں !
کیسی لگیں !!
جب میں تعریف کرتی تو آپ ایسے خوش ہوتے جیسے کوئی بچہ خوش ہوتا ہے۔ 


 آپ نے ڈرامہ لکھا اور ڈرامے کی تاریخ بدل دی ۔ ڈرامے کو اس معیار پہ لے گئے جہاں بہت کم لوگ ہی پہنچ پائے۔ کیسے کیسے کردار بنائے آپ نے ۔۔۔۔ انسانی  نفسیات، جذبات،  احساسات کو کتنی گہرائی سے جانتے تھے آپ ۔۔۔آپ کے کرداروں میں کتنے رنگ تھے ۔ کتنی پرتیں تھیں۔ جہاں وارث کا چوہدری حشمت لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرتا تھا وہیں اس کے اندر ایک وقار تھا، شائستگی تھی، اس کے اپنے اصول تھے وہ ان پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا ۔ 



 آپ نے ڈرامہ لکھا اور ڈرامے کی تاریخ بدل دی ۔ ڈرامے کو اس معیار پہ لے گئے جہاں بہت کم لوگ ہی پہنچ پائے۔ کیسے کیسے کردار بنائے آپ نے ۔۔۔۔ انسانی  نفسیات، جذبات،  احساسات کو کتنی گہرائی سے جانتے تھے آپ ۔۔۔آپ کے کرداروں میں کتنے رنگ تھے ۔ کتنی پرتیں تھیں۔ جہاں وارث کا چوہدری حشمت لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرتا تھا وہیں اس کے اندر ایک وقار تھا، شائستگی تھی، اس کے اپنے اصول تھے وہ ان پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا ۔ 
مجھے آپ کے ڈرامے 'سمندر' سے عشق تھا ۔ کتنے کردار بنائے آپ نے اور ہر کردار کے ہر پہلو کو دکھایا۔ آپ جب مکالمے لکھتے تھے تو آپ پہلے اسے خود بولتے تھے ۔ چار چار صفحے کے مکالمے میں  بھی کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی ۔ آپ زبان کتنی خوبصورت استعمال کرتے تھے، آپ کا کردار جس پس منظر سے متعلق ہوتا تھا ویسی ہی زبان بولتا تھا ۔ ویسی ہی اپروچ رکھتا تھا ۔ آپ کے سب کردار زمینی تھے۔ یہیں ہمارے آس پاس کے۔
اللہ نے آپ کو کتنا تخلیقی ذہن دیا ۔ میں نے ہمیشہ آپ کو کچھ نہ کچھ لکھتے دیکھا ہے۔ لکھنے کے لیے آپ کو کبھی خاموشی اور تنہائی کی ضرورت نہیں پڑی۔ آپ گھر کے لائونج میں بیٹھ کر بھی لکھ لیتے تھے ۔ آپ نے بچپن میں بھی کبھی ہمیں نہیں ڈانٹا۔ ہم چاہے جو بھی اودھم مچاتے رہتے آپ وہیں خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ۔ میں نے کبھی آپ کا موڈ آف نہیں دیکھا ۔ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے ۔ آپ انتہائی مثبت سوچ کے  مالک تھے ۔ کبھی کسی مادی نقصان پر غمزدہ نہیں ہوئے۔ آپ نے ہمیشہ کہا جو چلا گیا اس کا غم نہ کرو، یہ دیکھو ابھی بھی تمہارے پاس کتنا کچھ ہے ۔آپ کا مصرع ہے " وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ،جو نہیں ملا اسے بھول جا۔۔۔'' آپ اس مصرعے کی عملی تفسیر تھے۔ 
میری تمام عمریہی حسرت رہی کاش میں آپ کی positivity کا دس فیصد بھی اپنے آپ میں پیدا کر سکتی۔آپ نے ماما سے کتنا پیار کیا ۔ ان کا کتنا احترام کیا ۔ ان کی خوشی پوری کرنے کے لیے آپ نے ان تھک محنت کی ۔ ان کے چہرے پر آنے والی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہوتے رہے ۔ ان کے قدموں کے نیچے اپنی ہتھیلیاں رکھیں۔  ان کو ایک ملکہ کی طرح رکھا ۔
 اب نجانے وہ کیا کریں گی۔۔۔
اب نجانے ہم کیا کریں گے !!! 
پاپا آپ خاموشی سے چلے گئے ۔ نیند میں چپکے سے ۔۔۔
آپ نے سوچا ہو گا کہ اگر میں بیمار پڑ گیا تو میرے بچے پریشان ہو جائیں گے ۔ میری بیوی پریشان ہو جائے گی ۔ آپ نے کبھی ہمیں پریشان نہیں ہونے دیا۔  ہمارے سارے بوجھ اپنے کندھوں پر لیے رکھے ۔ آپ کا دل نہیں چاہا ہو گا کہ بچوں پر کوئی ذمہ داری ڈالوں۔۔۔
لیکن پاپا ایسے کیسے۔۔۔۔ ہم آپ کے بغیر کیسے جئیں گے ۔ ہمیں تو آپ کے بغیر جینا آتا ہی نہیں۔۔۔
ایسے کیسے پاپا۔۔۔۔ایسے کیسے۔؟؟ ||


مضمون نگار شاعر، ڈرامہ نگارامجد اسلام امجد مرحوم  کی صاحبزادی اور معروف شاعر انور مسعود کی بہو ہیں۔

یہ تحریر 174مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP