دور فضا میں ایک ہیولا سا نمودار ہوتا ہے جو کبھی پرندہ اور کبھی جہاز کی مانند لگتا ہے۔ بھارتی فوجی اپنے علاقے سے دشمن کی طرف سے آئے اس جہاز کو دیکھ چکے ہیں اور بلا کی پھرتی سے بھارتی فوجیوں نے اپنی مشین گنوں اور میزائلوں کا رخ پاکستان سے آئی ہوئی اس عجیب سی فضائی مخلوق کی طرف کر دیا ہے۔ اب جیسے ہی اس جہاز نما چیز نے بھارتی بارڈر پارکیا تو جہاز کو مار گرانے والی توپوں نے گولے داغنے شروع کر دیے۔ بھارتی پرعزم تھے کہ وہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کے پاکستان سے چائے پی کر آنے کے اس داغ کو آج دھو کر چھوڑیں گے اور پاکستانی جہاز کو اسی طرح نشانہ بنائیں گے جس طرح27 فروری کو مگ 21 جہاز کا بنایا گیا تھا۔ ارے یہ کیا دشمن کا جہاز بھارتی گولیوں کی زد میں آ کر زمین کی طرف آ رہا ہے۔ پورا آسمان بھارتی فوجیوں کے جے ہند کے نعروں سے گونج اٹھا ۔ سب فوجی ایک دوسرے کو اس کامیابی پر داد دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام کو اس کامیابی کی اطلاع بھی دی جا رہی ہے ۔ آج کا دن صحیح طور پر بھارت کی افواج کی برتری کا دن ہے اور اس نے وہ دکھ بھلا دیا جب چینی فوجیوں نے لداخ کے ٹھنڈے علاقے میں بھارتی فوجیوں کے رخسار تھپڑوں اور ڈنڈوں سے گرم کر دیے تھے۔ انہوں نے وہ شرمندگی بھی بھلا دی جب ابھی نندن کو پاکستان نے واہگہ بارڈر سے مرہم پٹی کرکے اور گرم چائے پلا کر رخصت کیا تھا۔ اس موقع پر جہاز کے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک تصویر تو بنتی ہے تاکہ تمام عمر یہ کامیابی بھارتی فوجی اپنی یادوں میں رکھیں۔ ابھی یہ فوجی موقع پر پہنچے ہی تھے کہ۔۔۔یہ کیا جس جہاز کو مار گرانے پر وہ پرم ویر چکر لینے کے خواب دیکھ رہے تھے وہ جہاز نہیں بلکہ پاکستان سے آیا گیس کا غبارہ تھا جس کی شکل جہاز نما تھی اور بھیجنے والے شخص نے شرارت سے اس کے پیچھے پی آئی اے کا نشان بھی بنایا ہوا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی فوجیوں نے دوربین سے اس آتے غبارے کو دیکھ کر کیسے یہ سمجھ لیا کہ یہ جہاز ہے اوراپنی توپوں کے منہ کھول دیے۔ پھر بات سمجھ میں آئی کہ بیچارے بھارتی فوجی دودھ کے جلے ہیں، اس لیے اب چھا چھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔ ہمیں بھارتی ٹریننگ پر کوئی شک نہیں ہے کہ وہ سخت ہوتی ہو گی لیکن یہ کیا بات ہے کہ پاکستان سے آئی ہر چیز پر بھارتیوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ۔ کبھی غبارے کو جہاز اور کبھی پاکستان سے آئے کبوتر کو کلبھوشن یادیو سے بڑا جاسوس گردانتے ہیں ۔ بھارتی میڈیا کو سلام کہ وہ معصوم سے کبوتر کو اتنی عزت دیتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا نمبر ایک جاسوس پکڑ لیا ہے۔
چانکیہ کا پیروکار ہونے کے ناتے ہر ناکامی کو ظاہری طور پر اپنی کامیابی بتانا سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارت کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جو بیچنا چاہ رہا ہے اسے کوئی خرید بھی رہا ہے کہ نہیں۔
اب اس میں ابھی نندن کی مثال ہے جس کے حوالے سے دیگر ممالک کے اخبار نے پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ 27 فروری کے واقعے میں انڈیا کا جہاز گرا تھا اور ثبوت کے طور پر پاکستان نے بڑا دل رکھتے ہوئے ابھی نندن کو واہگہ کے راستے انڈیا کے حوالے کیا۔
اس بات پر شرمندہ ہونے کے بجائے بھارت نے اس کو اپنی کامیابی بتایا اور ابھی نندن کو انڈیا کا اعلیٰ ترین بہادری کا ایوارڈ" پرم ویر چکر" دیا۔ اس میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ابھی نندن خود بھی اس بات پر حیران ہوگا اور پوچھتا پھر رہا ہوگا کہ اس پر یہ کرم نوازی کس وجہ سے کی گئی ہے۔ بھارت کی دیوانگی اور خود فریبی یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں بھارت میں جی 20 کا اجلاس کروا کر اور اس میں غیر ملکی رہنماؤں کو گول گپے کھلا کر بھارت یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ اپنے اصل عکس کو گول گول گھما دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اجلاس کے دوران بھارت جو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پہلے ہی دنیا کی نظر میں آیا ہوا ہے، وہاں اس نے دہلی کے بے زبان کتوں کو بھی نہیں بخشااور ان کا وہ قتل عام کیا کہ کتے بھی کہتے ہوں گے کہ ان کے نصیب میں بھارت میں پیدا ہونا کیوں لکھا تھا اور تو اور، دہلی جو کہ غریبوں اور مفلسوں کی ایک آماجگاہ ہے جس نے اپنی اصلیت کو خوشبو اور رنگوں میں تو چھپا دیا لیکن جو بیچارے شانتی نگر میں رہ رہے تھے ان کے ارد گرد وسیع دیوار کا ایسا حصار بنایا کہ ان کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔بھارت خودفریبی کی داستان رقم کررہا ہے اور حیلے بہانوں سے اپنا عکس بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت کی ان حرکتوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
بھارتی حکومت کو سوچنا ہو گا کہ ان کی افواج میں تربیت کی وہ کیا کمی ہے جس کی وجہ سے دنیا کی پانچویں بڑی فوج پاکستان سے آئے کبوتروں ، فاختاؤں اور غباروں سے خوف کھاتی ہے ۔ ||
یہ تحریر 154مرتبہ پڑھی گئی۔