ہمارے غازی وشہداء

بریگیڈیئر ایوب حید ر  ۔۔بہادری کی ایک زندہ کہانی

پاکستان نڈر ، بہادر لوگوں ، سر بکف غازیوں اور شہیدوں کی سرزمین ہے اور اعلیٰ تربیت کی حامل مسلح ا فواج کے لیے جانا جاتا ہے۔پاک فوج میں سپاہی سے لے کر جنرل تک ہر شخص ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے۔



کہا جاتا ہے نام اور شخصیت کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔جواں جذبوں کے مالک بریگیڈیئر ایوب حید ر اپنے نام کی طرح صابر بھی ہیں اور بہادر بھی ۔ وہ کشمیر ،سیاچن ، سوات اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں اپنے  جوانوں کے لہو گرمانے کا ہنر جانتے ہیں اور وہ یہ کام ذاتی مثال ،جرأت اور ثابت قدمی سے سر انجام دیتے ہیں۔وہ مستقبل میں جھانکنے کا ہنر جانتے ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آنے والے حالات کو پرکھنے کے لیے ظاہری آنکھوں کا ہونا ضروری نہیں۔ ان  کی یاد داشت بہت اعلیٰ ہے۔ اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں انہوں نے اپنے کورس میٹس کے نام لے کر مختلف واقعات بیان کیے۔ وہ اپنی دونوں آنکھیں وطن کی خاطر قربان کرنے اور جسم کے کئی حصوں پر زخم کھانے کے باوجود زبان پر کبھی شکوہ نہیں لائے اور سراپا صبر وشکر ہیں۔ اس بے مثال جرأت کے حامل شخص کے الفاظ سے انسان کی ہمت اور جوانوں کا اپنی ذمہ داریوں کے بارے احساس بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنی بینائی کھونے کے فوراً بعد اپنے ملک کے جوانوں اور اپنے بھائیوں کو ایک پرجوش پیغام جاری کرتے ہیں:''فکر مت کرو اور مسکراتے رہو۔ یہ چند دنوں کی بات ہے اور میں جلد تمہارے ساتھ واپس آئوں گا۔''  یہ ہے بہادری کا ایک زندہ افسانہ "بریگیڈیئر ایوب حیدر"۔ 


وہ اپنی دونوں آنکھیں وطن کی خاطر قربان کرنے اور جسم کے کئی حصوں پر زخم کھانے کے باوجود زبان پر کبھی شکوہ نہیں لائے اور سراپا صبر وشکر ہیں۔ اس بے مثال جرأت کے حامل شخص کے الفاظ سے انسان کی ہمت اور جوانوں کا اپنی ذمہ داریوں کے بارے احساس بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنی بینائی کھونے کے فوراً بعد اپنے ملک کے جوانوں اور اپنے بھائیوں کو ایک پرجوش پیغام جاری کرتے ہیں:''فکر مت کرو اور مسکراتے رہو۔ یہ چند دنوں کی بات ہے اور میں جلد تمہارے ساتھ واپس آئوں گا۔''  یہ ہے بہادری کا ایک زندہ افسانہ "بریگیڈیئر ایوب حیدر"۔ 


بریگیڈیئرایوب حیدرکا تعلق مانسہرہ سے ہے۔ بریگیڈیئر ایوب حیدر کی ہمہ جہت شخصیت میں ان کے والدین کی تربیت کا بہت عمل  دخل ہے۔ اکتوبر 1994 میں انہوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے 90 پی ایم اے لانگ کورس میں کمیشن حاصل کیا۔ اس کورس  میں کیپٹن کرنل شیرخان شہید( نشان حیدر (، کیپٹن عمار شہید (ستارۂ جرأت)،میجر قمرنواز شہید،کرنل سہیل شہید، بریگیڈیئر خالد شہیدجیسے بہادر آفیسرز شامل ہیں۔ کمیشن کے بعدلیفٹیننٹ ایوب حیدر 34 آزاد کشمیر رجمنٹ(جنگجو بٹالین)میں شامل ہو ئے۔ اس وقت یونٹ کشمیر میں تعینات تھی۔یہ یونٹ بھی مختلف معرکوں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ اس یونٹ کے ایک عظیم آفیسر جنرل اشفاق ندیم (مرحوم)بھی تھے ۔ جب کرنل ایوب حیدر ، بریگیڈیئر بنے تو جنرل اشفاق ندیم نے انہیں رینکس لگائے۔ بریگیڈیئر ایوب حید ر نے مختلف آپریشنل شعبوں میں فرائض سرانجام دیے۔ انہوں نے اپنی سروس کے دوران انسداد دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ایک انٹرویو کے دوران بریگیڈیئر ایوب حید ر نے بتایا کہ ان کے جسم کے مختلف حصوں  میں سپلنٹرز موجود ہیں اور راڈ ڈلے ہوئے ہیں اور ان کی ایم آر آئی کرنا بھی مشکل ہے، جس کی وجہ سے وہ "آئرن مین" کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے بلند حوصلے کے لیے پاکستان آرمی کی تربیت ، یونٹ کے ماحول ، اپنے کورس میٹس ، دوستوں اور فیملی ممبرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے جوانوں کو بھی پیغام دیتے ہیں کہ تخریبی کارروائیوں اور پروپیگنڈا کے لیے دشمن کا آلہ کار نہ بنیں اور ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے کا م کریں۔ بریگیڈیئر ایوب حید ر کا مورال ہمیشہ بلند رہتا ہے ، وہ اپنے انڈر کمانڈمیں اعتماد پیدا کرتے ہیں اور اپنی حس مزاح اور قابلیت سے ماحول کو  خوشگوار رکھتے ہوئے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے  کی تربیت دیتے ہیں۔
بریگیڈیئر ایوب حید ر  نے درج ذیل مقامات پرعسکری  فرائض سر انجام دئے ہیں۔
سیاچن
کیپٹن ایوب حید ر نے سیاچن کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔انہوں نے  سیاچن  میں نامساعد حالات اور شدید سردموسم کے باوجود  اپنی ڈیوٹی مکمل کی ۔ جونئیرز لیڈرز اکیڈمی شنکیاری میں پوسٹنگ کے دوران انہوں نے   سیاچن جانے کے لیے تحریری درخواست دی اور گیاری سیکٹر میں تابش پوسٹ پر دو ماہ سے زیادہ عرصہ رہے جو کہ ایک ریکارڈہے۔



کشمیر ۔لائن آف کنٹرول
کیپٹن  ایوب حید ر نے 648 مجاہد رجمنٹ میں آزاد کشمیر میں خدمات سر انجام دیں ۔اس وقت انہوں نے کارگل کے محاذ کے لیے رضاکارانہ خدمات  پیش کیں تاہم بارڈر پر حالات کی سنگینی کے پیش نظر ان کی پوسٹنگ کشمیر میں ہی رہی۔ یہاں جنگ کے سائے منڈلا رہے تھے اور روزانہ فائرنگ ہوتی رہتی تھی۔ 2005 کے زلزلے کے دوران وہ کشمیر میں تعینات تھے جہاں انہوں نے زلزلہ متاثرین کی بحالی میں کام کیا۔
اندرون ملک سکیورٹی کے فرائض
انہوں نے  میرن شاہ شمالی وزیرستان، چارسدہ، سوات اور ڈیرہ غازی خان میں  سکیورٹی کے فرائض انجام دئے۔ ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیااور قومی سلامتی کے لیے عہد وفا نبھایا۔
یونٹ کی کمانڈ
بریگیڈیئر ایوب حید ر نے اپنی یونٹ 34 آزاد کشمیر رجمنٹ دو دفعہ کمانڈ کی جو کہ بذات خود ایک اعزاز کی بات ہے۔کیونکہ یونٹ کی کمانڈ ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے اور یونٹ کے ہر جوان کی تربیت اور ڈسپلن کے  لیے کمانڈنگ آفیسر ذمہ دار ہوتا ہے۔
دیگرعسکری فرائض کی ادائیگی
یونٹ کے علاوہ وہ جونئیرز لیڈرز اکیڈمی شنکیاری، کراچی، کوئٹہ اور پاکستان رینجرز سندھ میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا چکے ہیں۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور  امریکہ سے بھی اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کر چکے ہیں۔انہوں نے پنجاب رینجرز میں بطور ڈپٹی سیکٹر کمانڈر ڈیزرٹ رینجرز خدمات سر انجام دیں۔
اقوام متحدہ امن مشن
 اقوام متحدہ امن مشن کے لیے پاکستان فوج کی خدمات قابل ذکر ہیں۔بطورِمیجر ایوب حیدر اقوام متحدہ کے امن مشن آئیوری کوسٹ کے دوران، اگرچہ پروٹوکول آفیسر کے طور پر تعینات تھے، لیکن  انہوں  نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے رضاکارانہ طور پر امریکہ، ترکی، رومانیہ، الجزائر اور دیگر ممالک کے سفارت کاروں اور اہلکاروں کو کیپیٹل سٹی عابدجان کے جنگ زدہ علاقوں سے ریسکیو کیا۔ ڈیوٹی سے بڑھ کر ان کی انتہائی لگن اور بہادرانہ طرز عمل کا اقوام متحدہ اور متعلقہ ممالک نے ریاستی سطح پر اعتراف کیا۔


 ان جیسے جنگجو پاکستان کے کسی بھی دشمن کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ وہ طبی لحاظ سے دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے اور اب سپیشل کمپیوٹر کی مدد سے دوسرے لوگوں سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ ان کے سینے پر سنہری زخم کی پٹی ملک کے لیے ان کی قربانیوں کو بیان کرتی ہے۔ بریگیڈیئر ایوب حیدر کی بہادری،قوت فیصلہ اور جاںنثاری کے اعتراف میں صدر پاکستان نے انہیں 2020 میں دوسری بار تمغہ بسالت کے اعزاز سے نوازا


 باچا خان یونیورسٹی دہشت گردی کا واقعہ
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ  میں دہشت گرد پشاور آرمی پبلک سکول کی طرز پر کارروائی کر کے بھاری نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔اس آپریشن میں(اس وقت) کرنل ایوب حیدرنے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران بہادری کا مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی کیمپس کو شرپسندوں سیخالی کرایا جس سے معصوم طلبا کی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ۔شدید سردی اور دھند کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ اس وقت کرنل ایوب مردان کے علاقے میں سرچ اور کارڈن آپریشن کر رہے تھے۔پولیس والوں کے ساتھ ہونے سے وائرلیس سیٹ پراس واقعے کی اطلاع موصول ہوئی۔یہ ایریا اگرچہ کرنل ایوب حیدر کی ذمہ داری کے علاقہ میں شامل نہیں تھا لیکن اچانک اطلاع ملنے پر انہوں نے اپنے جنرل آفیسر کمانڈنگ سے اس آپریشن میں حصہ لینے کی خصوصی اجازت مانگی۔ انہوں نے تمام سروس مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے گزاری۔ اس  بہادری اور دلیرانہ اقدام پر انہیں  تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
آپریشن ردالفساد
2017میں یہ آپریشن دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایسے وقت میں شروع کیا گیاجب قبائلی علاقوں میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد  دہشت گردوں نے پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے اور پورے ملک میں دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کی ایک ناکام کوشش کی۔ بریگیڈیئر ایوب حید ر پاکستان  رینجرز پنجاب میں بطور کرنل  خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ان کی زیر قیادت فورس نے" آپریشن ردالفساد "میں دس بڑے اور چھوٹے آپریشنز کے ذریعے کئی دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ 



دسمبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں مختلف افسوس ناک واقعات سے بھر اپڑا ہے۔6 دسمبر 2018  کو ایک ایسے ہی آپریشن کے دوران  ڈیرہ غازی خان کے علاقے درہ کوڑا میں دہشت گردوں نے بریگیڈیئر ایوب حیدر کے ساتھیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ ایسی جگہ پر ہونے سے دہشت گرد آسانی سے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں داخل ہو کر تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔شدید فائرنگ کے باوجود بریگیڈیئرر ایوب حید ر نے جوابی فائر سے ایک دہشت گرد کو زخمی کرنے کے بعد اسے زندہ پکڑنے کی کوشش کی۔ان  کے قریب پہنچتے ہی زخمی دہشت گرد نے خود کو گرنیڈ دھماکے سے اڑا لیا۔جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور اپنی دونوں آنکھیں وطن پر قربان کر دیں۔شدید سردی اور دشوار گزار علاقے کے باوجود کرنل ایوب حید ر اور ان کی ٹیم نے بہادری اور جانثاری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ انہیں ہیلی کاپٹر پر سی ایم ایچ ملتان پہنچایا گیا۔ ان کی دونوں آنکھیں، بایاں بازو، سینہ اور پھیپھڑے متاثر ہوئے تھے ۔ اس آپریشن کے دوران بریگیڈیئر ایوب اپنی آنکھیں کھو بیٹھے۔ لیکن پاک فوج کے اس مضبوط ارادے سے بھرپور افسر نے نہ تو اپنے ہدف کو کھویا اور نہ ہی اپنے اعلی مقاصد کو جاری رکھنے کا جذبہ ۔ انہوں نے دوسرے ہم وطنوں کے لیے ہمت اور لگن کی مثال قائم کی۔ ان جیسے جنگجو پاکستان کے کسی بھی دشمن کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ وہ طبی لحاظ سے دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے اور اب سپیشل کمپیوٹر کی مدد سے دوسرے لوگوں سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ ان کے سینے پر سنہری زخم کی پٹی ملک کے لیے ان کی قربانیوں کو بیان کرتی ہے۔ بریگیڈیئر ایوب حیدر کی بہادری،قوت فیصلہ اور جاںنثاری کے اعتراف میں صدر پاکستان نے انہیں 2020 میں دوسری بار تمغہ بسالت کے اعزاز سے نوازا ۔ بریگیڈیئر ایوب حیدرنے کہا کہ ہم ہمیشہ دشمن کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اور آنے والی لڑائیوں میں بھی دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔
 ہمیں دھرتی کے ان نڈر بیٹوں اور ان کی قربانیوں کا بہت احترام ہے جو انہوں نے مادر وطن کے لیے دی ہیں۔
 بلند عزائم
صحت یاب ہونے کے فورا بعد بریگیڈیئر ایوب حید ر نے اپنی نقل و حرکت کی واقفیت اور تربیت مکمل کی۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں ان کا کہناتھا کہ تربیت سے انہیں اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے پاک فوج، اپنے ساتھیوں، دوستوں اور خاندان کا شکریہ ادا کیا کہ آزمائش کی گھڑی میں وہ ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ ایک انٹرویو میں ان سے آپریشن کے بارے میں پوچھا گیاکہ  اس واقعے کے بعد ان کی زندگی کیسے بدلی؟ انہوں  نے جواب دیا کہ اس واقعے کے بعد مجھے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میرے خاندان، ساتھیوں اور پاک فوج نے مجھے یہ سوچنے کی اجازت نہیں دی کہ اب میں معذور ہوں۔ میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف نوجوان افسروں اور سپاہیوں نے اپنے ملک کے لیے اپنی جانیں دیں، بلکہ اعلیٰ افسران نے بھی مادر وطن کے لیے اپنا خون دیا ہے۔ میں اس سے مستثنیٰ نہیں ہوں۔دہشت گردی کی جنگ نے بے شمار مائوں سے ان کے لخت جگر چھینے ، دلہنوں سے ان کے سہاگ جدا کیے، والد ین   کے جذبے کمزور کرنے کی کوشش کی ، بہنوں کے مائوں اور بھائیوں کی شان کم کرنے کی کوشش کی اور دوستوں سے ان کے دوست جدا کرنے چاہے، لیکن پاکستان کے محب وطن سر فروشوں کے جذبے ماند پڑنے کے بجائے  مزید بلند ہوئے اور 2018  کے اس واقعے کے بعد بھی کئی لخت جگر وطن کے کام آئے۔اس وقت بھی ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف بھر پور کارروائی جاری ہے۔ بریگیڈیئر ایوب حیدر اس وقت بھی پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ملک کے ینگ آفیسرز اور جوانوں کے لیے زندہ و تابندہ مثال ہیں۔
بریگیڈیئر ایوب حیدر اس وقت جنرل ہیڈ کوارٹرز(انفنٹری ڈائریکٹوریٹ) میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں پاکستان آرمی کی طرف سے سپیشل اپلیکشین والا کمپیوٹر دیا گیا ہے ۔جس میں جاب ایکسس وتھ سپیچ(JAWS-) سافٹ وئیر استعمال کیا گیا ہے۔یہ سافٹ وئیرانہیں لکھنے اور پڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ اوروہ اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ ||


 مضمون نگار عسکری و قومی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
 [email protected]
 

یہ تحریر 788مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP