شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
(ناصر کاظمی)
صدیوں پہلے جب دریائے نیل کنارے آباد قدیم مصر میں فرعونِ وقت عظیم الشان اہرام بنانے میں مگن تھے۔عراق میں موسوپوٹامیہ کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی۔قدیم چینی تہذیبیں جنم لے رہی تھیں۔دریائے ہاکڑہ کے کنارے جنوبی ایشیا کی پہلی بڑی تہذیب'ہڑپہ' ہڑپائی تہذیب جدید صنعت و حرفت کے حامل خوبصورت، کشادہ، ہوادار اور سیدھی سڑکوں والے ترقی یافتہ شہر آباد کر رہی تھی۔وادیِ سندھ کا سب سے پرانا موہانڑو قبیلہ اور سندھ کی قدیم تہذیب موہانڑو جودڑو(موہن جودڑو) جنم لے رہی تھی۔عین اسی وقت ہندوستان کے راجہ رام کا بیٹا راجہ لوہ سطح سمندر سے چھ سو اٹھانوے فٹ بلند شہر لاہور کی بنیاد رکھ رہا تھا۔اسی سبب لاہور کو موہن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم عصر بھی کہا جاتا اور اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ایک مدت تک لاہور لوہ کا قلعہ کے طور پہ جانا جاتا رہا کیونکہ راجہ لوہ نے یہاں ایک شاندار قلعہ تعمیر کروایا تھااور تب سے آمد اسلام تک لاہور کئی بار اجڑا اور پھر بسا۔
تخت لاہور کے حصول کے لیے کشت و خون کی کہانیاں پرانی ہیں۔اقتدار کے لیے خونی رشتوں کو تہہ تیغ کرنے کے قصوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ دسویں صدی تک شہر لاہور ہندو راجائوں کے زیر تسلط رہا۔پھر گیارہویں صدی میں محمود غزنوی نے پنجاب فتح کیا تو ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔ غزنوی دور میں ہی لاہور اسلام سے روشناس ہوا ۔بعد ازاں شہاب الدین غوری نے لاہور کو فتح کیااور پھر یہ شہر خاندان غلاماں، خلجی خاندان، تغلق خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان سے ہوتا ہوا بالآخر پندرہ سو چھبیس عیسوی میں ظہیر الدین بابر کی مغلیہ سلطنت کے زیر سایہ آیا۔مغلیہ دور میں لاہور کی ترقی پہ جو کام ہوا وہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ مغل بادشا جلال الدین محمد اکبر نے لاہور میں اپنی عدالت لگائی اور لاہور کو مغل حکومت کا دارالحکومت بنایا۔کم و بیش ایک ہزار سال سے لاہور پنجاب کا پایۂ تخت ہے۔مغلوں نے یہاں بے شمار بے مثال عمارتیں بنائیں جن میں سے اکثر ابھی تک موجود ہیں۔بیرونی حملوں سے حفاظت کے لیے قلعہ بنایا اور شہر کے گرد نو میٹر بلند ایک فصیل تعمیر کروائی جس کے ساتھ خوبصورت باغات لگائے گئے اور فصیل میں تیرہ دروازے رکھے گئے جنہیں بیرونی طرف سے آپس میں ملانے کو ایک یک سرکلر روڈ بنائی گئی۔ان تیرہ دروازوں میں سے بھاٹی دروازہ، دہلی دروازہ، کشمیری دروازہ، لوہاری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ اور روشنائی دروازہ موجود ہیں۔جب کہ اکبری دروازہ، موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، موری دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، یکی دروازہ اور مستی دروازہ کو کچھ وقت کی دیمک چاٹ گئی۔
اکبری دروازہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے تعمیر کروایا تھا اور انہی کے نام سے منسوب ہے لیکن اب اس دروازے کا صرف نام ہی باقی رہ گیا نشان خستگی و بوسیدگی سے مٹ چکا ہے۔موچی دروازہ عہد اکبری کے ایک ہندو محافظ کے نام سے منسوب تھا جسے برطانوی دور میں مسمار کر دیا گیا تھا یعنی اس دروازے کا بھی محض نام باقی ہے۔شاہ عالمی دروازہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے و جانشین محمد معظم شاہ عالم سے منسوب ہے ، قیام پاکستان کے بعد اسے مسمار کر دیا گیا تھا ۔موری درواز فصیل شہر کے باقی تمام دروازوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے سبب موری دروازہ کہلاتا تھا لیکن اسے بھی وقت کی دیمک چاٹ گئی۔دہلی دروازہ چونکہ مشرقی سمت میں دہلی کی طرف بنایا گیا ہے اس لیے اس نام سے منسوب ہے اور آج بھی یہ دروازہ موجود ہے اس دروازے کے باہر ریلوے سٹیشن بنایا گیا ہے ۔ٹیکسالی دروازہ کی وجہ شہرت جوتوں کے بازار اور شاہی محلہ ہے۔ یہ دروازہ بھی ابھی تک موجود ہے۔لوہاری دروازے کا اصل نام لاہور دروازہ تھا لیکن مشہور لوہاری سے ہوا اور یہ دروازہ بھی ہنوز قائم ہے۔یکی دروازہ ایک یکی نامی محافظ کے نام پہ تھا اور اب نہ محافظ رہا نہ ہی دروازہ شیرانوالہ دروازہ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کروایا اور اس میں شیروں کے دو پنجرے رکھے جس کے سبب یہ شیرانوالہ دروازہ مشہور ہو گیا اور آج بھی یہ دروازہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔کشمیری دروازہ چونکہ کشمیر کی جانب ہے اس لیے اس نام سے منسوب ہے اور یہ دروازہ ہنوز قائم ہے۔مستی دروازہ مغلیہ دور کے اک شاہی ملازم مستی بلوچ کے نام سے منسوب تھا پھر نہ شاہی رہی نہ مستی اور نہ ہی دروازہ روشنائی دروازہ کو شام کے وقت نمازیوں کی گزرگاہ کے طور پر روشنی سے منسوب کیا جاتا تھا اور یہ واحد دروازہ ہے جو آج بھی اپنی قدیم شکل میں قائم و دائم ہے ۔بھاٹی دروازہ لاہور کے مغرب میں واقع ہے۔ کسی زمانے میں یہاں راجپوتوں کی کثیر تعداد رہائش پذیر تھی اسی سبب اس کا پرانا نام بھٹی دروازہ تھا جو زمان و مکاں کی گردشوں سے بھاٹی ہو گیا۔ یہ بہت تاریخی دروازہ ہے۔ یہاں علامہ اقبال سمیت بیشتر نامور شخصیات نے سکونت اختیار کی۔
لاہور جہاں تاریخی شہر ہے وہیں خوش نصیب بھی ہے کہ یہاں سے جو تحریک چلی منزل تک پہنچی۔آل انڈیا مسلم لیگ نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں لاہور کے منٹو پارک (اقبال پارک)میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کے سبب برصغیر کے مسلمانوں کو اک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 14 اگست 1947کو ایک آزاد و خود مختار ملک مملکت پاکستان عطا ہوا۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز بھی اس شہر کے پاس ہے۔
کبھی لاہور فصیل کے اندر کا شہر تھا جس کے دروازے غروب آفتاب کے بعد بند کر دیے جاتے تھے لیکن آج اندرون لاہور ایک کونے میں حیران پریشان کھڑا شہر لاہور کے پھیلائو کو تکتا ہے جس کے انتظامی معاملات کوسنبھالنے کے لیے پاکستان کے اس دل کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا شور فضائوں میں ہے۔اسی لاہور کے بارے مشہور مزاح نگار پطرس بخاری نے کیا ہی خوب فرمایا تھا کہ:
کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلبہ کی سہولت کے لیے میونسپیلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے____اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہو رہا ہے____ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہو گا_____جس کا دارالخلافہ پنجاب ہو گا_____یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے____گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔''
اچے برج لاہور دے، جتھے بلدے چار مشال
ایتھے ای میاں میر دی بستی، ایتھے ای شاہ جمال
اک پاسے دا داتا مالک، اک دا مادھو لال
اچے برج لاہور دے، جتھے بلدے چار مشال
مضمون نگار کی حال ہی میں ٹلہ جوگیاں پہ تاریخ و تصوف کے حسین امتزاج پہ مبنی جوگی، جوگ اور ٹلہ نامی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ان کی تین کتب دیوسائی ، وطن، فرض اور محبت اور کوسٹل ہائی وے پہ ہوا کا دروازہ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 95مرتبہ پڑھی گئی۔