بیاد اقبال

اقبال کے انگریزی خطبات کے تراجم۔۔ ایک تجزیہ

ہمارے عظیم اسلامی مفکر علامہ محمد اقبال نے بیسویں صدی میں اپنے شاندار افکار و خیالات  اور بے مثال شاعری کے ذریعے برصغیر کی مسلم قوم کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونکی اور امت مسلمہ کو تگ و تاز زندگی میں سر اٹھا کر جینے کے قرینوں سے آگاہ کیا ۔آپ کا یہ کارنامہ انسانی تاریخ کا ایک نادر اور شاندار واقعہ ہے۔ علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ جہاں انہیں انسانی فکر و فلسفے کی تاریخ میں بلند مقام عطا کرتا ہے وہاں وہ اسلامی فلسفے اور الٰہیات کی تاریخ میں بھی ایک منفرد اور عہد ساز مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے جہاں امت مسلمہ کو ایک ولولہ تازہ دیا اور اسے راز ہائے الوندی بتائے وہاں اپنے معرکة الآرا خطبات کے ذریعے الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کا فکرِ اسلامی صدیوں سے راستہ دیکھ رہی تھی۔اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی یہی وہ خدمت ہے جو علامہ اقبال کو انسانی تاریخ کے نابغوں اور اسلامی مفکرین کی صف اول میں لا کھڑا کرتی ہے۔ 
    علامہ اقبال نے اپنے ان بے مثال اور شاندار خطبات کے ذریعے مسلمانوں کے جدید علم کلام کی بنیاد رکھنے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا۔انہوں نے ان خطبات میں اسلامی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے جدید فکری انداز میں الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل نو کا فریضہ ادا کیا اور جدید سائنسی اور فلسفیانہ انداز میں مذہب کی حقانیت اور وجود باری تعالیٰ کے اثبات و ادراک کے مراحل طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔ علامہ اقبال کے یہ خطبات مغربی فلسفیوں کے انکار خدا اور انکار مذہب کے فلسفوں کے خلاف ایک توانا آواز اور ان کا مسکت جواب ہیں۔ علامہ اقبال کو جدید سائنس اور جدید فلسفے کی بنیاد پر تشکیل پانے والے لادین اور الحاد پر مبنی مغربی فلسفے کا چیلنج درپیش تھا جس سے برصغیر کے مسلم نوجوان بڑی شدت سے متاثر ہو رہے تھے۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم  
 کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
علامہ نے یہ چیلنج کھلے دل سے قبول کیا اور ہستی باری تعالیٰ اور ما بعدالطبیعات یعنی مذہب کے اثبات کو اپنی فکر و نظر کا مرکز و محور بنا کر اسلامی عقائد کی ترجمانی،دفاع اور تشکیل جدید کا اہم فریضہ انجام دیا۔وہ ادراک و قرب ذات الٰہی کے لیے علم باطن یعنی مذہبی تجربے کی اہمیت اس کی آفاقیت اور رسائی کے دل سے قائل ہیں اور ان خطبات کی صورت میں ان کا عظیم الشان کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے علم بالحواس اور حسی تجربے ہی کو سب کچھ سمجھنے والی سائنس کی پروردہ مادہ پرست دنیا میں روحانیت کے چراغ روشن کیے۔
  آج دنیا کو پھر معرکہ روح و بدن پیش ہے اور دنیا میں ایک بار پھر روحانیت اور مادیت آمنے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔وجود باری تعالیٰ کے اثبات اور انکار خدا کے نظریات پھر ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔مغرب کی مادہ پرست لادین ذہنیت اور الحادی فلسفے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتے دکھائی دیتے ہیں اورہمارے نوجوانوں کی اکثریت مغرب کی طرح خوگرِ پیکرِ محسوس بن کر رہ گئی ہے۔
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا 
ایسے میں علامہ اقبال کے یہ عظیم الشان خطبات آج بھی امت مسلمہ بالخصوص مسلم نوجوانوں کو مغربی مادیت،  لادینیت اور الحاد کے سیلاب سے بچا سکتے ہیں اور دین اور روحانیت کی جانب بطریقِ احسن ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
علامہ اقبال نے 1929 میں چھ خطبات مدراس، بنگلور، میسور،  حیدرآباد اور علی گڑھ  میں دیے جو 1930 میں لاہور سے چھپے  جبکہ ایک خطبہ انگلستان میں پیش کیا۔ انگریزی خطبات  1934میں
"The Reconstruction of Religious Thought in Islam"  ِکے عنوان سے شائع ہوئے۔
علامہ اقبال جیسے عظیم مفکر کے اس اہم کارنامے کی وقعت اور اہمیت کے پیش نظربہت سے دانشور، اقبال شناس اور ماہرین اقبالیات ابتدا ہی سے ان خطبات کی جانب متوجہ رہے اور ان کی تفہیم و توضیح کا فریضہ انجام دیتے رہے اور وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ یہ دائرہ کار بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔اسی ضمن میں اب تک ان خطبات کے کئی اردو تراجم منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ ہماری معلومات کی حد تک، علامہ کے ان خطبات کے مندرجہ ذیل اردو تراجم چھپ چکے ہیں 
• تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ مترجم سید نذیر نیازی 1958 
• مذہبی افکار کی تعمیر نو مترجم شریف کنجاہی 1992 
• تفکیر دینی پر تجدید نظر مترجم ڈاکٹر محمد سمیع الحق 1994 
• تجدید فکریات اسلام مترجم ڈاکٹر وحید عشرت 2002 
• اسلامی فکر کی نئی تشکیل مترجم شہزاد احمد 2005 
• تجدید تفکر اسلامی مترجم ڈاکٹر محمد اعوان2020
• علم اور مذہبی تجربہ__ علامہ اقبال کے پہلے خطبے کا ترجمہ، مترجم ڈاکٹر محمود علی انجم 2020 

خطبات کے مکمل اور مستقل ترا جم کی ان کتب کے علاوہ، ان خطبات کے الگ الگ تراجم بھی بہت سے اہل علم حضرات نے کیے ہیں جو مختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں۔فی الوقت ان وقیع خطبات کی کتب تراجم کا مختصر تعارف اور تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ 
سید نذیر نیازی فلسفے کے معروف استاد اور علامہ اقبال کے انتہائی قریبی دوست اور ساتھی تھے۔علامہ اقبال کی عمر کے آخری حصے میں انہیں بالخصوص علامہ کا بہت قرب حاصل رہا۔انہوں نے علامہ کے ایما پر ہی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے نام سے ان خطبات کا ترجمہ کیا۔اس ترجمے کے کئی حصے علامہ اقبال کی نظر سے گزرے اور انہوں نے متعدد مقامات پر اصلاح کی اور ترجمے کی تدوین کے ضمن میں متعدد مشورے اور تجاویز دیں ۔اس لحاظ سے محبان اقبال اور فکر اقبال سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ترجمہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ خطبات کا یہ ترجمہ قیام پاکستان سے پہلے مکمل ہو چکا تھا مگر اس کے چھپنے کی نوبت 1958 میں آئی تو پہلے اسے بزم اقبال نے شائع کیا۔
اسے خطبات اقبال کا اولین ترجمہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اس ترجمے کی وقعت اور شہرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ تحقیق میں ترجمہ ثانوی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے مگر تحقیق اقبالیات میں اس ترجمے کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔سید نذیر نیازی فلسفے اور عربی کے جید عالم تھے۔لہٰذا قدرتی طور پر انہوں نے اس ترجمے میں بھاری بھرکم فلسفیانہ اور عربی اصطلاحات استعمال کی ہیں جس سے اس ترجمے کا انداز خاصا پیچیدہ اور مشکل ہو گیا ہے۔ ہر چند کہ خطبات کے موضوعات بھی فلسفیانہ ہیں اور مباحث بھی کوئی آسان نہیں مگر اہل فکر و نظر کا کہنا ہے کہ یہ اردو ترجمہ اصل انگریزی خطبات سے بھی مشکل ہے۔اگرچہ سید نذیر نیازی نے یہ ترجمہ انتہائی عرق ریزی اور محنت سے کیا ہے مگر ان کا اسلوب اتنا پیچیدہ ہے کہ بعض جگہوں پر ابہام کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور عام اردو خواں قاری بجائے بات سمجھنے کے الٹا الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔شاہ صاحب نے ترجمے کو عام فہم بنانے کے لیے متعدد حواشی و تعلیقات رقم کیے ہیں مگر یہ حواشی و تعلیقات،فلسفیانہ زبان اور اصطلاحات سے گراں بار ہونے کی بنا پر بجائے خود تفہیم کے راستے میں آسانی کے بجائے پیچیدگی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اردو ترجمہ سمجھانے کی غرض سے مصنف نے کتاب کے آخر میں انگریزی اصطلاحات کا اردو فرہنگ بھی دیا ہے مگر یہ فرہنگ بھی چونکہ عربی اور فارسی اصطلاحات سے گراں بار ہے اس لیے اردو خواں طبقے کے لیے خاص کار آمد ثابت نہیں۔مگر ان تمام تر پیچیدگیوں اور مشکلات کے باوجود خطبات اقبال کے اس اولین ترجمے کو ایک جنبش قلم سے ہرگز مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی خطبات کے موضوعات بذات خود کوئی آسان نہیں۔ان میں بے شمار فلسفیانہ، متکلمانہ، سائنسی،  متصوفانہ، مابعدالطبعیاتی اور الٰہیاتی افکار و تصورات اور نظریات آئے ہیں۔لہٰذا ان کا ترجمہ پڑھنے والے قاری کو بھی پہلے ان افکار و تصورات سے واقف ہونا چاہیے اور ان علوم کی کم از کم مبادیات کا علم حاصل کرنا چاہیے۔اگر ایسا ہوگا تو پھر ہی یہ عالمانہ انگریزی خطبات اور ان کا یہ اردو ترجمہ ایک بار پڑھنے سے کچھ کچھ اور بار بار پڑھنے سے بہت کچھ سمجھ میں آ جائے گا اور سید نذیر نیازی کے اس ترجمے کی نارسائی کی شکایت یقینا رفع ہو جائے گی۔ پیچیدہ الٰہیاتی موضوعات پر مشتمل انگریزی خطبات کے اس عالمانہ ترجمے کو پڑھنے کے لیے صرف اردو لکھنا،پڑھنا اور جاننا کافی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ درکار ہے ۔  
مذہبی افکار کی تعمیر نو 
خطبات اقبال کا یہ ترجمہ معتبر دانشور اقبال شناس اور پنجابی کے معروف اور نامور شاعر اور ادیب پروفیسر شریف کنجاہی کی کاوش ہے۔یہ ترجمہ 1992 میں بزم اقبال لاہور نے شائع کیا۔یہ ترجمہ، سید نذیر نیازی کے ترجمے کے مقابلے میں نسبتاً آسان ہے اور پیش لفظ میںمترجم نے بھی اس کے عام فہم ہونے کا دعوی کیا ہے۔اپنے دعوے کے مطابق مترجم نے اسے عام فہم بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے مگر انگریزی اصطلاحات کے بعض اُردو تراجم آج کل کے اردو خواں قاری کے لیے غیر مانوس محسوس ہوتے ہیں مثلاً علامہ اقبال کے دوسرے خطبے The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience کا ترجمہ کشفی دریابی اور میزان عقل، چوتھے خطبے کے عنوان The Human Ego-His Freedom and Immortality کا ترجمہ نفس انسانی اس کی حریت عمل اور بے فنائی اور ساتویں اور آخری خطبے کے عنوان  ? Is religion possible
کا اردو ترجمہ کیا عرفانی آگاہی ممکن ہے؟( دیکھیے اور خطبات کے عنوانات کے ان اردو تراجم کے الفاظ کشفی دریابی میزان عقل بے فنائی اور عرفانی آگاہی پر غور کیجیے۔) بہرحال چند ایک انگریزی اصطلاحات کے عجیب اور نامانوس اردو تراجم کے باوجود یہ ترجمہ مجموعی طور پر عام کاری کے لیے کافی حد تک آسان اور رواں دواں ہے۔ہر خطبے کے ترجمے کےآخر میں مختصر حواشی دیے گئے ہیں جو اتنے مختصر اور محدود ہیں کہ تشنگی باقی رہتی ہے۔سید نذیر نیازی کے مقابلے میں یہاں حواشی و تعلیقات اور مصطلحات کے فرہنگ کا کام نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ فرہنگ تو موجود ہی نہیں جسے فلسفیانہ کتابوں کے اردو ترجمے کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔کتاب میں اشاریے کی کمی بھی بری طرح کھٹکتی ہے۔مگر اس کے باوجود یہ ترجمہ اردو خواہ طبقے کے لیے خطبات اقبال کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی کا کردار بخوبی ادا کرتا ہے۔
تفکیر دینی پر تجدید نظر 
خطبات اقبال کا یہ ترجمہ ہندوستان کے اقبال شناس ڈاکٹر محمد سمیع الحق کا کیا ہوا ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے 1994 میں شائع ہوا ۔ ڈاکٹر محمد سمیع الحق نے دیباچے میں خود بتایا ہے کہ انہوں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تو ان کے سر میں اس ترجمے کا شوق سمایا ہوا تھا مگر کچھ مشکلات کی وجہ سے کام التوا میں پڑ گیا اور جب حالات سازگار ہوئے تو انہوں نے اس کام کو مکمل کر لیا۔لہٰذا ترجمہ پڑھتے ہوئے ہمیں مترجم کی ناپختہ کاری، زبان و بیان،اسلوب اور ابلاغ کے خاصے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح دیباچے میں انہوں نے اس اصول پر زور دیا ہے کہ ترجمے کی زبان آسان ہونی چاہیے لیکن وہ خود اپنے ترجمے میں اس اصول کی پاسداری نہیں کر سکے۔علامہ اقبال نے ساتویں خطبے کے آخر میں جاوید نامہ کے جن اشعار کا انگریزی ترجمہ دیا ہے ڈاکٹر سمیع الحق نے صرف اصل فارسی اشعار درج کر دیے ہیں حالانکہ ان کا اردو ترجمہ درج کرنا ضروری تھا۔ اس ترجمے کا دامن بھی حواشی و تعلیقات، مصطلحات کی وضاحت،کسی بھی قسم کے فرہنگ اور اشاریے سے خالی ہے۔ تاہم خطبات اقبال کے اردو تراجم کی روایت کو پیش نظر رکھا جائے تو اس ترجمے کی اشاعت غنیمت اور اہمیت مسلم دکھائی دیتی ہے۔

تجدید فکریات اسلام 
یہ پاکستان کے معروف دانشور فلسفے کے استاد اقبال شناس اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر وحید عشرت کا ترجمہ ہے جو پہلی مرتبہ 2002 میں اقبال اکادمی لاہور سے شائع ہوا۔ 
خطبات اقبال کا یہ ترجمہ حقیقتاً ایک رواں دواں اور بآسانی سمجھ میں آنے والا ترجمہ ہے۔اگرچہ اس کی زبان اور اسلوب رواں اور سادہ ہے مگر اپنے اندر ایک خاص وقار اور عالمانہ شان لیے ہوئے ہے جو مترجم کے گہرے اور وسیع مطالعے کی دلیل ہے۔ ترجمے کا مطالعہ صاف بتاتا ہے کہ مصنف نے خطبات اقبال کے حوالے سے انگریزی اور اردو کتب کا بھرپورمطالعہ کیا ہے۔مترجم نے فلسفے کا استاد ہونے اور فلسفے پر گہری نظر رکھنے کے باوجود اپنے ترجمے کو فلسفیانہ اصطلاحات سے گراں بار ہونے نہیں دیا۔مترجم نے خود بھی اس ترجمے کی زبان انتہائی سہل رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک ہونے کا دعوی کیا ہے اور ترجمے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس کوشش میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔یہ اردو ترجمہ علامہ اقبال کے خطبات کے انگریزی متن کے کافی حد تک قریب دکھائی دیتا ہے اور یہ مصنف کی بڑی کامیابی ہے۔اس ترجمے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس پر نظر ثانی فلسفے کے جید استاد اور پاکستان فلسفہ کانگرس کے صدر ڈاکٹر عبدالخالق، سابق چیئرمین اور اقبال پروفیسر شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور نے کی ہے جو اس کے مستند اور معتبر ہونے کی ضمانت ہے۔اس ترجمے کے حوالے سے ایک بات جو شدت سے کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ مترجم نے کتاب میں نجانے کیوں حواشی و تعلیقات مصطلحات کا فرہنگ اور اشاریہ شامل کرنے کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی اور اس پر مزید عجیب و غریب کام یہ کیا کہ علامہ اقبال کے انگریزی خطبات کے مدون پروفیسر محمد سعید شیخ کے انگریزی حواشی و تعلیقات اپنے اردو ترجمے پر چسپاں کر دیے ہیں۔ راقم کو تو یہ منطق آج تک سمجھ نہیں آئی ۔اس سب کے باوجود، ترجمے کی حد تک یہ ایک بہترین ترجمہ ہے جو فکر اقبال  بالخصوص خطبات اقبال سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی سوغات سے کم نہیں۔جو لوگ خطبات اقبال سمجھنا چاہتے ہیں انہیں یہ ترجمہ ضرور اپنے مطالعے میں رکھنا چاہیے ۔

اسلامی فکر کی نئی تشکیل 
یہ ترجمہ پاکستان کے ممتاز شاعر شہزاد احمد نے کیا ہے۔اسے مکتبہ خلیل لاہور نے جنوری 2005 میں شائع کیا ۔شہزاد احمد اس سے قبل کئی کتب کا اچھا ترجمہ کر چکے ہیں اور وہ سائنس اور نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کی ترجمہ نگاری کی مہارت کے جھلکیاں اس ترجمے میں دکھائی دیتی ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں کئی سائنسی اور نفسیاتی نظریات و تصورات پر بحث کی ہے اور کئی مسائل کے ضمن میں ان نظریات سے استنباط کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور نفسیات سے دلچسپی نہ رکھنے والا قاری خطبات کے ایسے مقامات کو بآسانی سمجھ نہیں سکتا۔بطور مترجم شہزاد احمد کا امتیاز یہی ہے کہ وہ سائنس اور نفسیات کا عمیق مطالعہ رکھنے کے باوصف، علامہ اقبال کے خطبات کے ایسے مقامات کے ترجمے سے بآسانی گزرے ہیں اور دوسرے مترجمین کے مقابلے میں ان کے ہاں ایسے مقامات پر ابلاغ اور ترسیل کے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے۔شہزاد احمد نے علامہ اقبال کے خطبات میں آنے والے اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور خوب کیا ہے۔شہزاد احمد نے ترجمے میں عام طور پر علامہ اقبال کے نفسِ مضمون کو پیش نظر رکھا ہے لیکن کہیں کہیں ترجمہ علامہ اقبال کے متن سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔شہزاد احمد اردو کے اچھے شاعر ہیں اور اردو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں لہٰذا ان کے اس ترجمے میں بھی ادبیت موجود ہے۔شہزاد احمد کا یہ ترجمہ ابلاغ اور ترسیل کے زیادہ تر تقاضے پورا کرتا ہے مگر اے کاش اس میں حواشی و تعلیقات اور اصطلاحات کے فرہنگ کا اہتمام کیا جاتا اور اشاریہ بنا دیا جاتا۔یہ کام شہزاد احمد کے لیے کوئی مشکل نہ تھا۔ بہرطوراس کمی کے باوجود یہ کاوش   افادیت میں مروجہ ترجموں سے کسی طور کم بھی نہیں۔
تجدید تفکر اسلامی  
خطبات اقبال کا یہ اردو ترجمہ معروف اقبال شناس، ماہر اقبالیات اور اقبالیات و اردو ادب کے استاد ڈاکٹر محمد آصف اعوان نے کیا ہے ۔یہ ترجمہ 2020 میں فیصل آباد سے شائع ہوا۔ خطبات اقبال پر تحقیق اور تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر اعوان کے تخصصات میں شامل ہے۔ اس سے قبل بھی خطبات اقبال کے حوالے سے ان کی متعدد تحقیقی و تنقیدی کتب اہل فکر و نظر سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ڈاکٹر اعوان خطبات اقبال اور اس کے متعلقات کا گہرا اور عمیق مطالعہ رکھتے ہیں۔ان کا یہ ترجمہ،خطبات کے حوالے سے ان کی وسعت نظر اور مطالعیکا عکاس ہے۔یہ ترجمہ ان کی چار پانچ سالہ محنت اور جہد مسلسل کا ثمر ہے۔خطبات میں تخصص کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ اردو ادب کے استاد بھی ہیں اس لیے ان کے ترجمے کا اسلوب بھی انتہائی علمی، رواں دواں اور مصنف کی منشا کے عین مطابق ہے ۔یہ ترجمہ عربی اور فارسی کی بوجھل اصطلاحات اور فلسفے کی ثقیل اصطلاحات سے گراں بار نہیں ہے۔مصنف کی یہ کاوش بالخصوص قابل تحسین ہے کہ اس نے اردو ترجمے کو اردو ترجمہ ہی رکھا ہے اور اردو ترجمے کو دوسری زبانوں کی اصطلاحات کی بھرمار سے داغدار نہیں کیا بلکہ خود بھی بہت سی اصطلاحات وضع کی ہیں جو یقینا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ مترجم  نے اردو ترجمے کے اصل مقصد کو مسلسل پیش نظر رکھا ہے اور اسے ہر ممکن طریقے سے اردو خواں طبقے کے لیے قابل ترسیل و قابل ابلاغ بنانے کی کوشش کی ہے۔مترجم نے ایک نیا اور اچھا کام یہ بھی کیا ہے کہ انگریزی خطبات میں آنے والے ناموں اور مشکل اصطلاحات کے انگریزی مترادفات قوسین میں دے دیے ہیں۔یہ عمل شاید کچھ نقادوں کی نظر میں مستحسن نہ ٹھہرے مگر ہمارے خیال میں اس سے خطبات کو سمجھنے میں زیادہ آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ہر چند کہ ضروری حواشی و تعلیقات،مصلحات کے فرہنگ اور اشاریے سے یہ ترجمہ بھی خالی ہے مگر اس کے باوجود اپنی روانی، ندرت، سادگی و پرکاری اور رواں دواں قوت ترسیل و ابلاغ کے باوصف یہ ترجمہ اردو خواں محبان فکر اقبال کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
علم اور مذہبی تجربہ__علامہ اقبال کے پہلے خطبے کا ترجمہ  
علامہ اقبال کے پہلے خطبے کا یہ تازہ ترین ترجمہ بعنوان '' علم اور مذہبی تجربہ''160  صفحات کی کتاب کی صورت میں ،نورِ ذات پبلشرز لاہور سے2020 میں چھپا۔ اس کے مترجم ممتاز اقبال شناس اور ماہر اقبالیات  ڈاکٹر محمود علی انجم ہیں۔ ان کے ترجمے کی خاص بات جو اسے اپنے پیش رو ترجموں سے منفرد مقام عطا کرتی ہے یہ ہے کہ باقی ہر ترجمے میں پہلے ترجموں،خاص طور پر سید نذیر نیازی کے ترجمے کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے جب کہ محمود انجم کا یہ ترجمہ  بالکل ایک منفرد اور جدید انداز کا حامل ہے جو محمود علی انجم کا اپنا انداز ہے اور اس کی یہی اختراعات اور الگ انداز اس ترجمے کو ایک ایسا بلند مقام عطا کیا ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔محمود علی انجم کیونکہ خود تصوف اور روحانیات کے نورانی راستوں کے راہی اور طالب علم ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ تقابلِ ادیان، سیرت، تاریخ اور متعدد باطنی اور روحی علوم پر دسترس رکھتے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ انہیں انگریزی زبان پر بھی مکمل دسترس اور عبور حاصل ہے۔ان علوم سے فیضیاب ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فکرِ اقبال کے گہرے سمندر میں بھی خوب غواصی کی اور اس سمندر کی گہرائی میں اترنے کے بعد جب اقبالیات میں ایم۔فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی منزلیں طے کر لیں تو پھر کہیں جا کر وہ خطباتِ اقبال کے ترجمے کی طرف متوجہ ہوئے۔مختلف علوم پر دسترس، انگریزی زبان میں مہارت، ترجمے کی مشق اور فکرِ اقبال میں ان کے انہماک اور ذوق و شوق نے ان کے اس ترجمے کو ایک زبردست روانی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی بلند عالمانہ انداز بھی عطا کیا ہے۔
ڈاکٹر محمود علی انجم نے خطبات کی آسان تفہیم کے لیے جو نئے طریقے اختیار کیے ہیں، اس ضمن میں سب سے پہلی اور اہم بات تو یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کے لیے  پروفیسر محمد سعید کا مرتب کیا ہوا مستند نسخہ استعمال کیا اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے ہر صفحے کے اردو ترجمے کے مقابل انگریزی متن بھی رکھ دیا ہے جو خطبات کے تراجم میں بالکل نئی اور بہت مفید بات ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہترین تفہیم کے لئے انگریزی متن میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے اردو معنی اور اسی طرح اردو ترجمے میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے انگریزی معنی قوسین  میں لکھ دیے ہیں۔پروفیسر محمد سعید شیخ نے اقبال کے انگریزی خطبات پر انگریزی ہی میں بڑی محنت سے وقیع حواشی و تعلیقات اور خطبات میں در آنے والے سیکڑوں حوالہ جات کی تخریج کر کے عظیم کارنامہ انجام دیا تھا مگر مدت سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ وطنِ عزیز کے ایک بڑے اردو خواں طبقے کے لئے ان انتہائی قیمتی حواشی و تعلیقات کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ڈاکٹر وحید عشرت مرحوم نے بھی اپنے ترجمے میں ان حواشی و تعلیقات کو انگریزی ہی میں جوں کا توں رکھ دیا تھا مگر شاید  یہ سعادت بھی محمود انجم ہی کے حصے میں آنی تھی کہ انہوں نے نہ صرف پروفیسر سعید کے ان حواشی و تعلیقات کا خوبصورت اردو ترجمہ کیا بلکہ جہاں جہاں کوئی کمی رہ گئی تھی وہاں اپنے عالمانہ حواشی و تعلیقات کے ذریعے اس کمی کو پورا کر دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف اقبالیات بلکہ ساری قوم پر ان کا احسان ہے۔محمود علی انجم کے اس ترجمے کی ایک اور قابلِ قدر خوبی'' معروضات کے زیر عنوان لکھا ہو ا''  ان کا ضخیم عالمانہ مقدمہ ہے۔مقدمہ کیا ہے،خطباتِ اقبال،ان کے انگریزی نسخوں، اردو تراجم اور ان کی تفہیم و توضیح پر مشتمل کتابوں کی ایک مبسوط تاریخ ہے۔معروضات میں خطباتِ اقبال اور ان کے تراجم میں موجود قرآنی آیات کے تراجم میں تسامحات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مترجم نے نہ صرف خطبات کے ترجمے میں ان کی اصلاح کر دی ہے بلکہ اقبال کی ساری انگریزی نثر اور اس کے تراجم میں بھی ان آیات کے تراجم کی اغلاط کی درستی پر مشتمل،الگ سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب اقبال کی انگریزی نثر میں قرآنی آیات کے تراجم (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) بھی لکھ دی ہے۔اس مقدمے میں خطباتِ اقبال کے حوالے سے اب تک لکھی جانے والی تراجم اور تحقیق و تنقید پر مشتمل تقریباً تمام کتابوں کا تقابلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔مقدمے کے ان تمام مباحث نے اس مقدمے کو خود خطباتِ اقبال، اس کے تراجم اور تفہیم و توضیح اور تنقید کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا بنا دیا ہے۔ 
ڈاکٹر محمود علی انجم نے اس دور میں خطباتِ اقبال کی قدر و قیمت اور ان کی تفہیمی اور توضیحی ضرورت و اہمیت کو سمجھ کر اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کا ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ جس کے ذریعے اقبال کے مقصد و مدعا کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ خطباتِ اقبال کے ترجمے کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ الہٰیات اسلامیہ کی تاریخ میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی جانب اس عظیم علمی رہنمائی کو ملت اسلامیہ کے افراد باآسانی سمجھ سکیں۔اس طریقِ کار کو سمجھ کر، اسے عملی طور پر بروئے کار لائیں،اپنے دینی معتقدات اور عظیم تہذیب کی جدید علمی انداز میں بازیافت اور تشکیل نو کریں اور اس جہان رنگ و بو میں فخر سے سر اٹھا کر زندگی گزار سکیں۔ ||


مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
 

یہ تحریر 282مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP